عمران خان کی تقریروں کا تلخ لہجہ اور بلند بانگ دعوے کارکنوں کو مطمئن کرنے کی کوشش
تجزیہ : قدرت اللہ چودھری
قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ سیاست میں کوئی بات حرفِ آخر نہیں ہوتی۔ عمران خان نے سینیٹ میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے امیدوار کو ووٹ تو دیا ہے بے چارہ شریف آدمی اور کیا کرے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف مل کر الیکشن لڑسکتی ہیں تاہم ان کی پارتی کے لیڈر مولا بخش چانڈیو کا کہنا ہے کہ دونوں جماعتوں کے راستے الگ الگ ہیں۔ اس کے برعکس عمران خان کا اپنا بیان یہ ہے کہ وہ اگر پیپلز پارٹی سے تعاون کریں گے تو آئینہ کیسے دیکھیں گے؟ حالانکہ جب سے انہوں نے سلیم مانڈوی والا کو ووٹ دیا ہے سینکڑوں نہیں تو درجنوں مرتبہ آئینہ تو دیکھا ہوگا اس لئے اگر آئندہ بھی دونوں جماعتیں وسیع تر قومی مفاد میں کسی مسئلے پر متحدہ موقف اختیار کرتی ہیں تو بھی آئینے سے شرمانے کی ضرورت نہیں ہے البتہ ایک بات انہوں نے دو ٹوک انداز میں کہی ہے کہ اگر معلق پارلیمنٹ وجود میں آئی تو بھی وہ پیپلز پارٹی کے ساتھ نہیں بیٹھیں گے۔ ان سے کسی نے نہیں پوچھا کہ پارلیمنٹ کے ایوان بالا میں بھی تو صورتحال معلق ہی تھی، سب سے بڑی پارٹی مسلم لیگ (ن) تھی جس کا راستہ دونوں جماعتوں یعنی پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے روکنا تھا اور دونوں نے کامیابی سے روک بھی دیا۔ اسی طرح کی صورتحال اگر قومی اسمبلی میں درپیش ہوئی تو تاریخ دوبارہ اپنے آپ کو دہرا سکتی ہے لیکن لگتا ہے ابھی تک عمران خان سینیٹ الیکشن کے صدمے سے نہیں نکلے کیونکہ انہوں نے جس طرح پیپلز پارٹی کا ساتھ دیا اس پر ان کی تحریک انصاف کے بہت سے کارکن ناراض ہیں۔ اب انہیں بھی تو مطمئن رکھنا ہے اسی لئے ان کے سامنے دھواں دھار خطابات کئے جا رہے ہیں ایسے میں بعض کارکن عامر لیاقت حسین کی شمولیت پر بھی خوش نہیں تھے۔ ہمیں یاد پڑتا ہے کہ انہوں نے سیاست کو خیرباد کہہ دیا تھا اور اعلان کیا تھا کہ اب وہ سیاست میں نہیں آئیں گے لیکن یہ کافر منہ سے لگی ہوئی چھوٹتی نہیں ہے۔ اب بھی انہوں نے دعویٰ کردیا ہے کہ تحریک انصاف ان کی آخری منزل ہے۔ ہمارے خیال میں انہیں یہ دعویٰ بھی نہیں کرنا چاہئے تھا کیونکہ وہ ابھی جوان جہان ہیں اللہ ان کی عمر دراز کرے کیا پتہ آنے والے سیاسی حالات میں انہیں تحریک انصاف چھوڑ کر کسی اور پارٹی کا انتخاب کرنا پڑے کیونکہ سیاست میں حرف آخر کچھ نہیں ہوتا جیسا کہ خورشید شاہ نے کہا کہ ایک زمانے میں ان کی مسلم لیگ سے صلح تھی پھر اس سے لڑائی ہوگئی۔ انہوں نے تو موجودہ مسلم لیگ کی بات کی، ان کے بانی تو ایک زمانے میں خود مسلم لیگ (کنونشن) کے سیکرٹری جنرل تھے اور اس حیثیت میں انہوں نے تجویز پیش کی تھی کہ ہر ضلع کے ڈپٹی کمشنر کو حکمران مسلم لیگ کا رکن ہونا چاہئے’ ان کی اس نادر تجویز پر کسی نے کان نہیں دھرے کیونکہ یہ تجویز پیش کرنے کے بعد ہی انہیں ایوب خان کی کابینہ سے رخصت ہونا پڑا اور اپنی جماعت بنانی پڑی۔ پھر ان کی تجویز پر عملدرآمد کی نوبت ہی نہ آئی۔ جہاں تک سیاست میں دوستیوں اور دشمنیوں کا تعلق ہے کل کے دشمن آج کے دوست ہوسکتے ہیں اور آج کی دوستی کل کی دشمنی میں بدل سکتی ہے۔ کتنے ہی ایسے سیاستدان ہیں جو جنرل ضیاء الحق کی کابینہ میں نوازشریف کے ساتھ اکٹھے تھے، ان کی محبت کا دم بھرتے تھے لیکن آج وہ نوازشریف کو ضیاء الحق کی باقیات تو کہتے ہیں خود اپنے کردار پر کان نہیں دھرتے۔ اسی طرح آج کے کئی نامور سیاست دان نوازشریف کی کابینہ میں وزارت کے مناصب پر فائز رہے اور آج ان کے نکتہ چین ہیں۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کی کابینہ کے کئی وزیر اس وقت شاہد خاقان عباسی کی کابینہ کے رکن ہیں۔ اس لئے اگر کل کلاں کوئی بھی پارٹی اپنی سیاسی مصلحتوں کے طفیل کسی دوسری جماعت سے تعاون کرتی ہے تو کوئی حیرت کی بات نہیں، البتہ عمران خان کی تند و تیز تقریروں کا لہجہ بتاتا ہے کہ ان کی جماعت کے اندر کارکنوں کو مطمئن کرنے کیلئے انہیں زرداری کے خلاف تقریروں کا لہجہ تیز کرنا پڑا ہے۔ پیپلز پارٹی کے بہت سے رہنما پارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف میں جاچکے ہیں ان کیلئے بھی پریشان کن صورتحال ہوگی کیونکہ اگر دونوں پارٹیوں نے مل کر ہی الیکشن لڑنا تھا تو پارٹی چھوڑنے والوں کو اپنی طویل وابستگی ختم کرنے کی کیا ضرورت تھی؟
سردار ممتاز علی بھٹو کئی بار جماعتیں بدلنے کے بعد بڑے ارمانوں سے تحریک انصاف میں گئے تھے ان کا یہ خیال ہوگا کہ جو سیاستدان آصف علی زرداری کو سندھ کی سب سے بڑی بیماری کہتا ہے وہ ان کے دل کی بات کرتا ہے، لیکن اب لگتا ہے وہ بھی مایوس ہیں اور انہیں تحریک انصاف کا سینیٹ الیکشن میں پیپلز پارٹی کے نامزد امیدواروں کو ووٹ دینا پسند نہیں آیا۔ الزام تراشی کی اس فضا میں اگر خورشید شاہ کا یہ فرمان درست ثابت ہو جاتا ہے کہ تحریک انصاف کے ساتھ مل کر یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرکے الیکشن لڑا جاسکتا ہے تو کیا پھر عمران خان آئینے ریزہ ریزہ کریں گے؟
تلخ لہجہ