’’جن نے خاتون کی جان چھوڑنے کے لئے ہم سے وہ چیز مانگ لی جو ۔۔۔ ‘‘ایک خاتون پروفیسرپر عاشق جنّ کو اتارنے کاایسا انہونا واقعہ جسے سن کر رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں
جنات کے حوالے سے ایک اور واقعہ سن لیجے ۔یہ دلچسپ اور خوف ناک بھی ہے۔میرے ایک دوست کی بیوی جو کہ پروفیسر تھی اس مشکل سے دو چار ہوگئی۔پروفیسرنی صاحبہ کی بعض حرکات ایسی تھیں جن سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ معاملہ جِنات کے اثر وغیرہ کا ہے۔ میرے دوست کو کسی عامل کے بارے میں معلوم ہوا ،سردیوں کا زمانہ تھا۔ میرے دوست نے کہا ’’ میری بیوی کی طبیعت ٹھیک نہیں ۔مجھے کسی نے ایک عامل کے بارے میں بتا یا ہے جو ڈیفنس کے پاس کسی کچی بستی میں رہتا ہے اس کے پاس بیگم کو لے جانا ہے ۔اچھا ہے ایک سے دوہوں گے ، نہ معلوم کیا صورت ہو، میں تیار ہو گیا‘‘
یوٹیوب چینل سبسکرائب کرنے کیلئے یہاں کلک کریں
اس کی طبیعت واقعی خراب تھی ، میں اس کے ساتھ ہو لیا، مغرب کے بعد وہ عامل مریضوں کو دیکھا کرتا تھا، ہم بعد نماز مغرب وہاں پہنچ گئے۔ایک چھوٹا سا کمرہ تھا کچھ لوگ پہلے سے موجود تھے۔ عامل درمیان میں بڑی سی تسبیح لیے بیٹھا تھا۔ اس کے سامنے ایک فرشی میز رکھی تھی۔دیگر لوگوں کو فارغ کر نے کے بعد اس عامل نے پروفیسرنی صاحبہ کو اپنے دائیں جانب بٹھا دیا، اس کے برابر میرا دوست بیٹھا تھا ، عامل نے تفصیل معلوم کی اور عمل شروع کردیا۔ خاتون کا رنگ بدلنا شروع ہوگیا ،بڑی بڑی آنکھیں باہر کی جانب، ہم سب کوگھور گھو ر کر دیکھنے لگی۔
عامل نے یہ محسوس کیا کہ جِن آسانی سے نہیں جائے گا چنانچہ اس نے اپنے کارندوں کو کوئلے دہکانے کے لیے کہا ۔ کمرے کی لائٹ مدھم کردیں ۔ عامل بہت زیادہ موٹے دانے والی تسبیح لے کر کھڑا ہو گیا اور تسبیح پڑھنے لگا۔ اتنے میں کوئلے دھک کر آگئے۔ عامل نے دھکتے کوئلوں کو ایک مخصوص بر تن میں ڈال کر پروفیسرنی صاحبہ کی ناک کے نیچے کیا اور ان پر چھوٹی سرخ مرچیں جن پر اس نے تسبیح پڑھنے کے بعد پھونک ماری تھی کوئلوں پر ڈال دیں، مرچوں کی دھونی سے ہم سب کا برا حال لیکن پروفسیرنی کو جیسے کچھ ہو ہی نہیں رہا تھا۔ یہ دیکھ کر عامل نے ایک ہاتھ سے اس کے سر کے بال پکڑے دوسرے ہاتھ سے مرچوں کی دھونی اس کی ناک میں زبر دست طریقے سے دی ۔ کافی دیر کے بعد اس پر کچھ اثر ہوا ، عامل اس سے مخاطب ہوا ، پوچھا ’’بتا تو کون ہے‘؟
مردانہ آواز میں جواب دیا ’’ میں جن ہوں‘‘
’’ تعداد کیا ہے‘‘
’’ اکیلا ہوں‘‘
’’ اس عورت کو چھوڑدے ‘‘ عامل نے اسکو ہدایت کی
کہنے لگا’’ یہ میری بیوی ہے ۔میں نہیں جاؤں گا‘‘ ۔عامل نے یہ عمل دہرایا ، مرچوں کی دھونی نے کمرے میں بیٹھے تمام لوگوں کا برا حال کر دیا تھالیکن وہ عورت اطمینان سے تھی، آخر کار عامل نے جنّ کو جانے پر مجبور کر دیا ۔ اس نے جانے کا وعدہ تو کرلیا لیکن فوری طور پر نہیں گیا ۔ ہم یہ سمجھے کہ وہ چلا گیا، واپسی کاسفر شروع ہوا۔ میرا دوست پہلے ہی بیمار تھا ۔اس صورت حال کے بعد اسے سردی کے ساتھ بخار ہوگیا۔ ڈیفنس سے گلشن اقبال تک کا سفر خاصا طویل تھا۔ میرے دوست کے لیے گاڑی چلانا ممکن نہیں تھا، اس نے مجھ سے گاڑی چلانے کے لیے کہا ۔یہ کوئی خاص بات نہیں تھی، وہ جب اگلی سیٹ پر بیٹھنے لگا اور بیوی کو پیچھے سیٹ پر بٹھا نے کے لیے دروازہ کھولا تو اس کی بیوی نے مر دانہ آواز میں کہا ’’ ہٹو میں آگے بیٹھوں گا‘‘ میں گاڑی اسٹارٹ کرچکا تھا، میں نے جب یہ جملہ سنا تو میرے ہوش گم ہو گئے۔ میں سمجھ گیا کہ ابھی وہ حضرت ’جِنّ ‘ اس عورت میں موجودہیں، اب کیا ہوسکتا تھا، میرا دوست پیچھے بیٹھ گیا، اس کے ساتھ اس کی کوئی بارہ سال کی بیٹی بھی پچھلی سیٹ پر تھی، اللہ کا نام لے کر ہم روانہ ہوئے۔ وہ عورت نظر نیچی کیے خاموش بیٹھی تھی۔ گاڑی میں مکمل خاموشی تھی۔ میں گاڑی چلانے کے ساتھ ساتھ راز داری کے ساتھ اس عورت پر نظر رکھے ہوئے تھا، میں بھی یہ چاہتا تھا کہ خاموشی ٹوٹے، اسی لمحے میرے دوست نے اس کی خیریت پوچھی۔ شاید وہ بھی چاہتا تھا کہ خوف کا ماحول خوش گوار ماحول میں بدل جائے ، اس کے بولتے ہی وہ عورت مردانہ آواز میں چلائی ’’خاموش بیٹھا رے تو‘‘ اس کے بعدوہ میری جانب مخاطب ہوئی ۔ کہنے لگی’’ تو خاموشی سے گاڑی چلا‘‘، میں نے اپنے دوست سے کچھ کہا ۔ اس کے جواب میں وہ عورت مردانہ آواز میں مجھ پر برس پڑی بولی ،’’ خاموش نہیں رہے گا، ابھی گاڑی سے نیچے پھینک دوں گا‘‘ اس کے اس جملے نے میرے ہوش گم کردیے۔میں اس خوف میں مبتلا ہو گیا کہ اگر اس نے چلتی گا ڑی سے دھکا دے دیا تو کیا ہو گا۔ میرے بدن کا ایک ایک رْواں کھڑا تھا، بدن کپکپا نے لگا، وہ یہ جملہ کہہ کر خاموش ہوگئی۔ میں بدستور گاڑی چلاتا رہا، جس قدر قرآنی آیات یاد تھیں وہ تمام مسلسل پڑھتا رہا اور دعا کر تا رہا کہ کسی بھی طرح منزل آجائے، جب ہم شہید ملت روڈ کے پل پر پہنچے تووہ پھر مجھ سے مخاطب ہوئی ۔ کہنے لگی’’ پان کھلااورسگریٹ پلا‘‘ میں نے جواب دیا میں دونوں چیزیں نہیں استعمال کرتا اپنے میاں سے کہووہ کھلائے گا‘‘ اب تو جناب وہ زور سے دھاڑی کہنے لگی ’’سگریٹ کی دکان پر گاڑی روک ، سنا نہیں تونے‘‘
میں نے کہا ’’ اچھا دکان آجائے تو روکتا ہوں ‘‘لیکن میں نے گاڑی کی اسپیڈ کم نہیں کی، وہ بھی اس کے بعد خاموش ہورہی، گھر آگیا ، خدا کا شکر ادا کیا، چابی اپنے دوست کے حوالے کی اور اپنے گھر کی راہ لی۔میرے دوست نے بتا یا کہ وہ رات بھر سوتی رہی، صبح اٹھی تو اسے ان تمام باتوں کا علم نہیں تھا کہ اس نے رات میں دو مردوں کو کس قدرخوف میں مبتلا کیا۔ اس نے بتا یا کہ اس عمل کے بعد اس کی بیوی ٹھیک ہوگئی۔یہ میری زندگی کا نہ بھو لنے والا واقعہ ہے،جب کبھی مجھے اس کا خیال آجاتاہے ’ جِن‘ سے ہو نے والی گفتگو تازہ ہو جاتی ہے۔ اس واقعہ سے جنات کے وجود کی صداقت پر میرا ایمان مزید پختہ ہو گیا۔(پروفیسر ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی ہمدرد یونیورسٹی اور منہاج القران یونیورسٹی کے ساتھ کئی اداروں میں اپنی علمی خدمات پیش کرچکے ہیں۔انہوں نے اپنی زندگی میں مخلوق جنات سے وابستہ چند پراسرارواقعات قلمبند کئے تھے جنہیں ڈاکٹر صاحب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے یہاں پیش کیاجارہا ہے۔)
۔۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والی تحریریں لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔