افغانستان میں عسکریت پسند تھک چکے، طالبان امن مذاکرات کیلئے رضامند ہو جائیں:جنرل نکلسن،امریکہ طویل جنگ سے خود مایوس ہو چکا ،وہ اس دلدل سے نکلنا چاہتا ہے: افغان تجزیہ کار

افغانستان میں عسکریت پسند تھک چکے، طالبان امن مذاکرات کیلئے رضامند ہو ...
افغانستان میں عسکریت پسند تھک چکے، طالبان امن مذاکرات کیلئے رضامند ہو جائیں:جنرل نکلسن،امریکہ طویل جنگ سے خود مایوس ہو چکا ،وہ اس دلدل سے نکلنا چاہتا ہے: افغان تجزیہ کار

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

واشنگٹن(ڈیلی پاکستان آن لائن) افغانستان میں امریکی فوج کی کمانڈ کرنے والے امریکی جنرل نکلسن نے کہا ہے کہ افغانستان میں 16 برس سے جاری لڑائی سے عسکریت پسند اب تھک چکے ہیں اور وقت آ گیا ہے کہ طالبان امن مذاکرات کیلئے رضامند ہو جائیں تاہم اْنہوں نے خبردار کیا کہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے ثمرات ظاہر ہونے میں کئی برس لگ سکتے ہیں دوسری طرف معروف افغان تجزیہ کار ڈاکٹر حسین یاسا نے کہا ہے کہ جنرل نکلسن کا بیان اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ افغانستان میں جاری طویل جنگ سے وہ خود مایوس ہو چکے ہیں اور امریکہ کسی بھی اعتبار سے عسکریت پسندوں کے ساتھ معاملات طے کر کے اس دلدل سے نکلنا چاہتا ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے ’’وائس آف امریکہ ‘‘ کے مطابق افغانستان میں اعلی ترین امریکی کمانڈر جنرل نکلسن کی جانب سے طالبان کو مذاکرات کی پیش کش پرامریکی وزیر دفاع نے کہا ہے کہ طالبان کی تمام تر قیادت کی طرف سے مذاکرات پر آمادہ ہونا ابھی بعید القیاس ہے تاہم طالبان میں سے کچھ گروپ امن مذاکرات میں حقیقی دلچسپی ضرور رکھتے ہیں تاہم بعض ماہرین اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ موسم بہار کے شروع ہونے کے ساتھ عسکریت پسندوں کی کارروائیاں ایک بار پھر زور پکڑ سکتی ہیں،اس خدشے کے جواب میں جنرل نکلسن کا کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے اس خدشے کی پیش بندی کرتے ہوئے افغانستان میں موجود امریکی افواج کیلئے دستیاب فوجی وسائل میں اضافہ کر دیا ہے۔واضح رہے کہ اس وقت افغانستان میں 14 ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں۔

دوسری طرف معروف افغان تجزیہ کار اور افغان گروپ آف نیوزپیپرز کے چیئرمین ڈاکٹر حسین یاسا نے جنرل نکلسن کی اس پیش کش پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنرل نکلسن کا بیان اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ افغانستان میں جاری طویل جنگ سے وہ خود مایوس ہو چکے ہیں اور امریکہ کسی بھی اعتبار سے عسکریت پسندوں کے ساتھ معاملات طے کر کے اس دلدل سے نکلنا چاہتا ہے۔انہوں نے کہا کہ طالبان کی طرف سے فی الحال مذاکرات کی پیشکش کا کوئی جواب نہیں آیا صرف طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ فی الوقت مذاکرات کی دعوت کے مضمرات سے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔ ڈاکٹر یاسا نے کہا کہ طالبان کے رد عمل میں فرق صرف اتنا ہے کہ اْس نے اس بار ماضی کی طرح ہاں یا ناں کہنے میں عجلت کا مظاہرہ نہیں کیا، یوں محسوس ہوتا ہے کہ طالبان اس بار فیصلہ کرنے میں کچھ وقت لینا چاہ رہے ہیں۔