سرخ آندھی، کرونا، گیگابائٹ، زلزلے اور الہامی راہنمائی
مَیں نے نیشنل پولیس اکیڈمی میں کوئی 18 سال تک تدریس کی۔ میرے ذمے ان اے ایس پی خواتین و حضرات کی تدریس تھی جو مقابلے کا امتحان پاس کرکے اسٹاف کالج میں ابتدائی تربیت حاصل کرنے کے بعد یہاں پیشہ ورانہ تربیت حاصل کرتے ہیں۔ یہ افسربالعموم غیر شادی شدہ اور چوبیس تا اٹھائیس سالہ عمر کے ہوتے ہیں۔چلبلا پن، ظاہر ہے،اس عمر کا خاصہ ہوا کرتا ہے، چنانچہ پرویز مشرف کے دور کا واقعہ ہے، جب ایک سے ایک نامعقول نظریہ اس وطن عزیز میں متعارف کرانے کی کوشش کی جارہی تھی۔ اب یہاں میرے لیے خاصا دشوار ہے کہ مَیں وہ نامعقول گفتگو، اس کے الفاظ اور انداز گفتگو صفحہ قرطاس پر بکھیروں، جو سوال جواب یا، کسی حد تک، مناظرے کی شکل میں اس دن میرے اور ان زیرتربیت افسروں کے مابین ہوئی۔ بسنت کی ضمنی خرافات، بالخصوص خواتین کی میراتھن ریس، ان دنوں زبان زد عام ہونا شروع ہوگئے تھے۔ اس کیفیت میں کلاس میں جب پولیس کے اختیارات اور حدود قوانین زیر بحث آئیں تو ممکن ہی نہیں تھا کہ نوعمر زیر تربیت افسر چسکے لینے سے باز رہیں۔ " سر! اب تو حالات بدل چکے ہیں, ہم دیکھتے ہیں کہ مغربی ممالک میں اب عورت مرد سے بھی آگے دو مردوں میں 'وہ والے' تعلقات عام ہو چکے ہیں. سر! چونکہ اس عمل کے باعث وہاں صحت کا کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا، لہٰذا وہاں اس (ابلیسی) عمل کو قانونی حیثیت حاصل ہے. سر! جب یہ صورت ہو تو باہمی رضامندی سے اس میں کیا مضائقہ ہے“؟
میرے ' شرعی' جواب کے نتیجے میں اس پر باقاعدہ بحث شروع ہوگئی۔ پچیس تیس افسر دو گروہوں میں بٹ گئے۔ سوال کنندہ کا گروپ بحث پر حاوی ہوتا چلا گیا۔ میرے شرعی دلا ئل نہ تو ان کے منطقی اور عقلی دلائل کے مقابلے میں چل سکتے تھے, نہ چلے۔ ذرا سی دیر میں میرے ہمنوا گروہ کو اپنی پسپائی کا یقین ہوگیا۔ اس نے اندازہ کر لیا کہ ان عقل کل افسروں کو کوئی عقلی جواب ہی مطمئن کرے تو کرے کہ اس ماحول میں شریعت کا کوئی کام نہیں ہے، کیونکہ شریعت ایک اعتقادی مسئلہ ہوتا ہے اور جب اعتقاد کمزور بنیادوں پر کھڑا ہو تو شرعی دلائل اسے زیادہ دیر سہارا نہیں دے سکتے۔ نیت کا اخلاص ہو تو آسمانوں سے الہامی رہنمائی کسی طاقتور لہر کی شکل میں آتی ہے، جس کی فریکوئنسی اسی ذہن کے لیے ہوتی ہے، جسے وہ رہنمائی درکار ہو۔ شاید اسی لہر کے زیراثر مَیں نے اعلان کیا کہ میرے موبائل پر ایک دوست کا پیغام آیا ہے۔ اسے میرا ایک فلاں مضمون فوری طور پر درکار ہے جو میرے پاس یو ایس بی میں موجود ہے۔ براہ کرم آپ میں سے کوئی اپنے لیپ ٹاپ سے وہ مضمون ای میل کر دے۔
ایک افسر نے فورا اپنا لیپ ٹاپ پیش کردیا، میل ایڈریس لکھا، فائل منسلک کی، تیر کا نشان متعلقہ جگہ پر رکھا اور انگلی کی خفیف ضرب سے جب وہ کام ختم کرنے کے قریب تھا تو اچانک مَیں نے اسے روک دیا: "ینگ مین! آپ کی انگلی کی خفیف ضرب سے پندرہ صفحات کا لاکھوں گیگا بائٹ پر مشتمل میرا یہ مضمون ہزاروں میل دور برطانیہ چلا جائے گا۔کیا ایسے ہی ہے“؟……مَیں نے ساری کلاس سے پوچھا۔ سب نے اثبات میں سر ہلا دیئے۔ ”ہاں تو ینگ مین! انسان کی معاشرتی زندگی زیادہ سے زیادہ سات ہزار سال پرانی ہے۔ انگلی کی ایک ہلکی سی ضرب سے یہ قیمتی دستاویزات،تصاویر، یہ گیگا بائٹس، یہ معلومات ہزاروں لاکھوں میل دور ایک وجود سے دوسرے وجود میں منتقل کرنے کا علم جاننے میں انسان کو سات ہزار سال لگے۔
بیٹا جی! تھوڑا انتظار, سب کو ذرا تھوڑا سا اور انتظار کرنا پڑے گا۔ مَیں تو نہیں ہوں گا، آپ نوجوان ہیں، آپ اپنی زندگی ہی میں اسی سائنس، اسی عقل اور اسی عقلی خناس کی مدد سے جان لیں گے کہ جب انگلی کی ایک خفیف سی جنبش سے اتنا کچھ ہو سکتا ہے تو ایک بالغ انسان کے دوسرے بالغ انسان کے ساتھ منٹوں تک کے غیر اخلاقی، غیر انسانی تعلق اور الہامی راہنمائی میں فعل حرام کے نتیجے میں کتنے گیگا بایٹ ایک شخص سے دوسرے میں منتقل ہوجاتے ہیں۔ وہ گیگابائٹ جو دو بالغ انسانوں کے خلیوں میں پتا نہیں، کتنی مدت تک موجود رہتے ہیں۔ یہ گیگابائیٹ ان دونوں کو کیا کیا ضرر پہنچاتے ہیں اور کتنے گیگابائٹ ان کی اگلی نسلوں، حتیٰ کہ دائیں بائیں کے غیر متعلقہ اہل خانہ کو بھی خاموشی سے بری طرح متاثر کرتے ہیں۔ بیٹا جی! ذرا انتظار، الہامی راہنمائی کی تصدیق خود آپ کی سائنس کرتی جا رہی ہے۔ ذرا انتظار! اور تب تک, تب تک میرے خیال میں آپ کے پاس ایک ہی راستہ، ایک ہی آپشن ہے۔ کوئی دوسرا آپشن ہو تو زندگی کے کسی بھی حصے میں مجھے بتا دینا“۔ مَیں نے ذرا توقف کیا۔ میرا توقف جب معمول سے بڑھ گیا تو کلاس کے سب سے چلبلے اورشوخ افسر کو بولنا پڑا: " سر! وہ راستہ، وہ آپشن کیا ہے“؟ مَیں نے مار کر اٹھایا، کتاب کھولی اور اپنے اصل موضوع کی طرف آگیا۔ کلاس میں کچھ بے چینی سی تیرنے لگی۔ " بیٹا جی! اس ایک ہی راستے کے سوا کوئی آپشن ہو تو مجھے بتا دینا. ذرا انتظار اور الہامی راہنمائی پر عمل اور بس“!…… سناٹا اور بارہ پندرہ سال ہونے کو ہیں، مجھے کسی نے کوئی اور آپشن نہیں بتایا۔
کرونا کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے. جو لوگ اس قسم کی اور دیگر قدرتی آفات کو اللہ کے وجود کا انکار کرکے انہیں محض قوانین قدرت کا نتیجہ قرار دیتے ہیں, وہ تھوڑا سا غور کر کے، یعنی الہامی راہنمائی کے سامنے سپر ڈال کر یہی دعویٰ کریں تو بھی انہیں ہدایت مل جائے گی۔ شرط ایمان بالغیب کی ہے۔ عین الیقین ان کی خدمت میں دست بستہ حاضر ہوجائے گا۔ ترمذی کی ایک روایت ہے:" جب مال غنیمت لوٹ لیا جائے، امانت کو غنیمت سمجھا جائے، زکوۃٰ کو تاوان جانا جائے، حصول تعلیم میں دینی مقصد نظر انداز کر دیا جائے۔(وہی آج کل کا نعرہ: knowledge based economy) خاوند بیوی کا مطیع ہو جائے، بیٹا ماں کا نافرمان ہوجائے، دوست کے قریب، لیکن باپ سے دور ہو جائے، مسجدوں میں شور ہونے لگے، قبیلے کا سردار فاسق ہو، قوم کا رہنما رذیل ترین ہو(بلا تبصرہ)، کسی کی عزت اس کے شر سے بچنے کی خاطر ہو(اخبار اور ٹی وی چینل آج کل کس کے خلاف کچھ نہیں بول لکھ پا رہے؟ اور جو جو کہہ لکھ رہے ہیں، کیا وہ اس کے شر سے بچنے کی خاطر نہیں ہے؟) ناچنے والیاں اور آلات موسیقی عام ہوجائیں, شراب عام ہو, امت کے بعد والے پہلے کے لوگوں پر لعن طعن کریں, (خلافت فلاں کا حق تھا، جی نہیں, فلاں حقدار تھا، فلاں تو ملعون تھا، نعوذباللہ) تو تم لوگ اللہ کے عذاب کا انتظار سرخ آندھی, زلزلوں, زمین دھنسنے, مسخ شکلوں، پتھروں کی بارش اور ایسی ہی دیگر لگاتار نشانیوں کی شکل میں کرو“…… تو کیا انتظار ہی کرنا پڑے گا، یا ہمارے سامنے کوئی اور آپشن بھی موجود ہے؟ دوسرا آپشن موجود ہے. جو ہوا سو ہوا. کرونا تو آہی گیا ہے.فی الوقت توبہ اوراستغفار ہی کا آپشن ہے، جو ہم سب زندہ افراد کے لئے ایک ہی آپشن ہے۔ جو بچ جائیں، وہ آئندہ کے لئے اپنی اصلاح کے ساتھ ایک اور کام کرنے کے بھی پابند ہیں۔ محرم راز خالق کائنات نے فرمایا: "تم نیکی کا حکم ضرور دیتے رہنا اور برائی سے روکنے کا فریضہ سر انجام دینا، ورنہ تم پر اللہ کا عذاب نازل ہوگا، پھر تم دعائیں کرو گے تو وہ قبول نہیں ہوں گی“۔
ان قدرتی آفات، ان وبائی امراض اور انسانی شکلوں کے اس تناسخ کے پس پشت انسانی اعمال نہ دیکھ پانے والے اگر کم علم ہیں تو سائنس خود انہیں ہدایت دے دے گی، لیکن اگر وہ اپنے ہٹیلے پن کی وجہ سے الہامی راہنمائی کے منکر ہو ں تو ان کی اصلاح کا سرے سے کوئی امکان نہیں۔ کیا اتنی سی بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اس کرۂ ارض پر دن رات کروڑوں گیگابائٹ کی ڈم ڈم ہوتی ہو، اربوں گیگا بائٹ کے بھبھکے شراب خانوں سے نکلیں، خالق کائنات کی اس خودکار مشین کو ماں کی اطاعت بیٹے سے درکار ہو، لیکن اس کا ذہن کچھ اور کلو ہرٹز کی فریکوئنسی پر اپنی بیوی سے جا ملے، باپ کا وائی فائی سسٹم سگنل پر سگنل دے دے کر بے بس اور مجبور ہو جائے۔ تو کیا اس مجبور باپ کی مجہول آوازیں چٹانوں سے ٹکرا ٹکراکر اس زمین کو تڑاخ پڑاخ کرکے نہیں رکھ دیں گی؟یہ آسمانی بجلی الیکٹرون کے بہاؤ ہی کا تو دوسرا نام ہے۔ یہی تو انسانی وجود سے نکلنے والے فی الحال وہ نادیدہ کلو ہرٹز، وہ مستور میٹر بینڈ، وہ پوشیدہ گیگابائٹ، وہ مخفی کلوواٹ، وہ مخمور میگاواٹ ایک دن، کسی ایک دن، مجتمع ہوکر زلزلہ کہلانے پر مصر ہو جائیں،
سنگلاخ آہنی چٹانوں کو روئی کے گالوں کی طرح اڑا کر رکھ دیں تو تم کیا کر سکو گے؟ کیا یہ ممکن نہیں کہ دن رات مراثیوں کی ڈم ڈم والی فریکوئنسیاں آئیونک سفئیر کے پاس اوپر آسمانوں میں اوزون کی تہہ سے دن رات ٹکرا ٹکرا کر، گل سڑ کر ایک دن وہ ہیئت اختیار کرلیں جسے مَیں آپ سرخ آندھی کہتے ہیں؟ کیوں بیٹا جی؟ بس تھوڑا سا انتظار بیٹا جی! محرم راز خالق کائنات کے ایک ایک لفظ میں لامتناہی میگاواٹ پوشیدہ ہوتے ہیں۔ ابھی تمہارے آلات واوزار ان میگا واٹ، ان الفاظ کے اندر چھپی توانائی کی پیمائش کرنے سے معذور ہیں، لاچار ہیں۔ تھوڑا انتظار کرو بیٹا جی! تمہارے آلات ہی تمہیں بتائیں گے کہ ان ناچنے گانے والیوں کی بظاہر لوچدار، لیکن کائنات کی اس مشین کے لیے کریہہ الصوت فریکوئنسیاں ایک دن مجتمع ہو کر ایک جرثومہ بن چکی ہوتی ہیں۔ جرثومہ جو کبھی سوائن فلو تو کبھی کرونا وائرس کی صورت میں اپنا تعارف کراتا ہے۔ بس ذرا انتظار کرو بیٹا! انگلی کی جنبش سے کروڑوں بائٹ ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کا علم حاصل کرنے میں تمہیں سات ہزار سال لگے ہیں, بس چند سال اور صبر, لیکن ایمان, کے ساتھ گزارو۔ ان وباؤں، ان زلزلوں اور ان سرخ آندھیوں کی ماہیت تم پر اسی طرح آشکار ہو جائے گی، جیسے چودہ صدیاں قبل محرم راز خالق کائنات ہمیں بتانا چاہ رہے تھے۔ بیٹا جی ذرا صبر!