پی ڈی ایم کا خاتمہ؟
سیاست کی ابجد سے واقف ہر پاکستانی کو پتہ تھا کہ زرداری صاحب کی پارٹی کبھی استعفے نہیں دے گی، مگر اس کے باوجود میاں صاحب اور مولانا فضل الرحمان نہ جانے کیوں یہ خیال کرتے رہے کہ لانگ مارچ سے قبل پیپلزپارٹی استعفے دے دے گی۔ کیا پی ڈی ایم کی باقی جماعتوں کو یاد نہیں کہ گزرے برسوں میں زرداری صاحب کے ایفائے عہد کے کس قدر چرچے رہے ہیں کیا ہم ان کے اس مشہور و معروف قول زریں کو بھول سکتے ہیں، کہ وعدے حدیث نہیں ہوتے۔ بہرحال جو ہونا تھا ہو چکا ہے۔ پی ڈی ایم اپنی موت آپ مر چکا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ پی ڈی ایم کا وجود زرداری صاحب کی سیاسی مصلحتوں کی بھینٹ چڑھ چکا ہے۔ قطع نظر زرداری صاحب کی پالیسیوں کے انہوں نے کیا غلط کہہ دیا ہے کیا میاں نواز شریف کو پاکستان واپس آ کر عدالتوں میں زیرسماعت اپنے مقدمات کا سامنا نہیں کرنا چاہئے؟دوسرا یہ کہ زرداری صاحب کی پارٹی اگر اسمبلیوں سے مستعفی ہو جاتی ہے تو ظاہر ہے کہ امکانی طور پر حکومت کو الیکشن کروانے پڑیں گے جس کے نتیجے میں ووٹر کا رجحان بہرحال پیپلزپارٹی کے بجائے ن لیگ کی طرف زیادہ ہو گا تو پھر کیوں زرداری صاحب اقتدار پلیٹ میں رکھ کر میاں صاحب کو پیش کریں؟
مسلم لیگ(ن) کے قائدین کو ٹھنڈے دل سے زرداری صاحب کی باتوں پر غور کرنا چاہئے کہ اگر میاں صاحب حقیقت میں خود کو ایک بہادر لیڈر سمجھتے ہیں تو پھر پاکستان پہلی فرصت میں آئیں۔گزشتہ روز راقم وقت کے ایک بڑے عارف کے پاس حاضر ہوا اور سوال کیا کہ موجودہ سیاسی اچھل کود سے کیا ظہور پذیر ہونے جا رہا ہے تو انہوں نے برملا کہا کہ پی ٹی آئی کی حکومت اپنی مدت پوری کرے گی۔ ہاں البتہ مئی جون کے مہینوں میں اپوزیشن حکومت پر پھر حملہ آور ہو گی،مگر اس کے ساتھ ساتھ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پنجاب میں تبدیلی بے حد ضروری ہو چکی ہے۔ بہتر ہے کہ پی ٹی آئی اس بوجھ سے خود کو آزاد کرا لے۔بس ضرورت اس امر کی ہے کہ ملکی آبادی کے ساٹھ فیصد پر مشتمل سب سے بڑے صوبے کا حکمران کوئی صاحب بصیرت اور فہم و ادراک کا مالک ہو۔