جب ایتھنز میں بغاوتوں نے سر اٹھایا ۔۔۔۔

مصنف :ملک اشفاق
قسط :6
ویل ڈیورانٹ” تہذیب و تمدن کی تاریح“ میں لکھتا ہے۔ اس جنگ کے بعد ایتھنز کی روح اور جسم دونوں معتمل ہوگئے۔ ایتھنز کی زندگی کی بنیادیں ہل گئیں۔ اسپارٹا کے پے درپے حملوں سے ایتھنز کی مزروعات تاخت و تاراج ہوگئیں۔ زیتون کے باغ جلا دیئے گئے۔ ایتھنز کا جنگی بیڑا تباہ و برباد کر دیا گیا، چاندی کی کانوں پر اسپارٹا نے قبضہ کرلیااور دو تہائی شہری جنگ میں مارے گئے۔
ایتھنز کے معاشی اور سماجی زوال کی ابتدا ءاسی جنگ سے ہوئی۔ اسپارٹا والوں نے ایتھنز کو شکست دے کر وہاں امرائے شہر کی حکومت قائم کی جو جمہوریت پسندوں کی سخت دشمن تھی۔ حکومت کے سرکردہ افلاطون کے چچا ستیاس اور ماموں کارمیدیز تھے۔ انہوں نے 1500 جمہوریت پسندوں کو قتل کیا اور 5000 کو جلاوطن کر دیا۔ چھوٹے تاجروں کی جائیدادیں ضبط کرلیں۔ شہریوں سے آزادی رائے کا حق چھین لیا گیا۔ قومی مجلس توڑ دی گئی، تقریر کرنے یا کسی مقام پر مجمع کی ممانعت کر دی گئی۔ حتیٰ کہ درس و تدریس پر بھی پابندیاں لگا دی گئیں لیکن امراءکی یہ ظالم حکومت جوکہ بدترین آمریت تھی ایک سال بھی پورا نہ کر سکی کیونکہ جمہوریت پسندوں نے مسلح بغاوت کرکے حکومت پر قبضہ کرلیا۔
لیکن ایتھنز کے معاشرے میں اب تعمیر نو کی سکت باقی نہ رہی تھی۔ چنانچہ ایتھنز کے حکمرانوں نے اپنی کھوئی ہوئی طاقت واپس لانے کی خاطر اب کے سسلی پر حملہ کر دیا۔ مگر اس جنگ میں بھی ان کو شکست ہوئی اور ایتھنز کا رہا سہا وقار بھی خاک میں مل گیا۔ بغاوتوں نے سر اٹھایا اور ایتھنز کے مقبوضات ایک ایک کرکے آزاد ہونے لگے۔357 قبل مسیح میں سلطنت کا نام نہاد وفاق بھی ختم ہوگیا۔
تب سکندر اعظم کا باپ فلپ مقدونیہ سے آندھی طوفان کی طرح آیا اور شمالی ریاستوں کو فتح کرتا ہوا338 قبل مسیح میں ایتھنز پر قابض ہوگیا۔ یہ سانحہ افلاطون کی وفات کے صرف9 سال بعد پیش آیا تھا۔ افلاطون کی پیدائش کے وقت ایتھنز کی کل آبادی سوا تین لاکھ کے قریب تھی، اس میں پونے دو لاکھ کے قریب شہری تھے۔ یعنی یونانی النسل باشندے جن کے اجداد نے ایتھنز کی ریاست کی بنیاد رکھی تھی۔ حکومت کا اختیار صرف ان ہی لوگوں کو تھا۔ سوا لاکھ کے قریب غلام تھے اور 25 ہزار کے قریب غیر ملکی باشندے تھے۔
ایتھنز کا معاشرہ 4 طبقوں میں بٹا ہوا تھا۔ سب سے اونچا اور صاحب اختیار طبقہ شہریوں کا تھا۔ ریاست کا نظم و نسق اسی طبقے کے پاس تھا کیونکہ ووٹ دینے اور اپنے حاکم منتخب کرنے کا حق صرف ان ہی شہریوں کو تھا۔ فوج میں بھی ان لوگوں کے علاوہ کوئی دوسرا بھرتی نہیں ہو سکتا تھا۔ ریاست کی زمین بھی ان ہی لوگوں کی ملکیت تھیں۔
دوسرا طبقہ میٹکس (Metics) کہلاتا تھا۔ یہ طبقہ ان غیر ملکیوں کا تھا جو ایک مدت سے ایتھنز میں آباد تھا لیکن ان لوگوں کو شہری حقوق حاصل نہیں تھے۔ ان کا پیشہ تجارت تھا یہ لوگ یونانی النسل خاندانوں میں شادی بیاہ کرتے تھے اور اس طرح امور مملکت میں اپنا اثر ور سوخ بڑھاتے تھے۔
تیسرا طبقہ آزاد غلاموں کا تھا جو ملازمت یا کاروبار کرتے تھے۔ چوتھا طبقہ غلاموں کا تھا اور یہ بہت ہی اہم طبقہ تھا ملک کی تمام معیشت کا اظہار انہی کی محنت پر تھا۔ کانیں کھودنا، کارخانوں میں کام کرنا، عمارتیں بنانا، جہازوں کے چپو چلانا اور تمام قسم کی خدمات انہی کے ذمہ تھیں۔ وہ تمام کام جن میں جسمانی محنت درکار تھی، غلام ہی سرانجام دیتے تھے۔ ان غلاموں کی باقاعدہ خرید و فروخت ہوتی تھی۔ غلاموں کے مالک ان کو کرائے پر بھی دیتے تھے۔ ایتھنز کے غریب سے غریب شہری کے پاس بھی ایک دو غلام ضرور ہوتے تھے۔
اسی طبقاتی ناہمواری کا نتیجہ تھا کہ ایتھنز کے شہری اشیائے ضروریہ کی پیداوار میں نہ صرف کوئی حصہ نہ لیتے تھے بلکہ جسمانی محنت و مشقت کو بڑی حقارت سے دیکھتے تھے۔
اس لیے افلاطون کاہم عصر”زینو فن“ بڑی حقارت سے کہتا ہے۔
”مہذب قومیں ہنروں کو جائز طور پر حقیر سمجھتی ہیں کیونکہ ایسا کام کرنے سے جسم خراب ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اپنے دوستوں اور ریاست کے کاموں کی طرف توجہ دینے کی بھی مہلت نہیں ملتی۔“
فکر معاش سے آزاد ہو کر یہ طبقہ اپنا وقت سیاست، خطابت، فلسفہ، شاعری، شہ سواری، جسمانی ورزش، فوجی تربیت، ضیافت اور بحث و مباحثہ میں صرف کرتا تھا۔ عورتیں گھروں میں رہتی تھیں۔ اس کے علاوہ خوبصورت لڑکوں سے محبت کا رواج بھی تھا۔
ایتھنز کی شہری ریاست جمہوریہ تو تھی لیکن ایسی جمہوریہ جس میں صرف شہری حقوق مرد طبقہ اشرافیہ کو ہی حاصل تھے۔ افلاطون کے زمانہ میں ایتھنز میں ان شہریوں کی تعداد 50 ہزار کے قریب تھی اور عورتوں کو رائے دہی کا حق نہ تھا۔( جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے ( جملہ حقوق محفوظ ہیں )۔