کیا فیصلہ پنچائت کرے گی؟ 

کیا فیصلہ پنچائت کرے گی؟ 
کیا فیصلہ پنچائت کرے گی؟ 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


حالات اپنا راستہ خود بناتے چلے جا رہے ہیں دکھ دینے والے افسوس ناک واقعات روز پیش آ رہے ہیں جمعہ کو اسلام آباد میں جو کچھ ہوا یہ بھی نیا ہے۔ تحریک انصاف کے کارکنوں کا حق ہے کہ وہ اپنے موقف پر زور دینے کے لئے احتجاج کریں لیکن یہ فریضہ بھی آئین اور قانون کے دائرے ہی میں مناسب ہوتا ہے لیکن ان دو درجن سے زیادہ کارکنوں نے ”دو اراکین قومی اسمبلی“ کی قیادت میں سندھ ہاؤس والی ریڈ لائن عبور کر کے جو حملہ کیا اور جس انداز سے اندر داخل ہوئے وہ کس آئین اور قانون یا سیاسی عمل کا مظاہرہ تھا مانا کہ اندر وہ اراکین قومی اسمبلی تھے جو تحریک انصاف کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے یا آزاد حیثیت حاصل کر کے اس جماعت میں شامل ہو گئے اور اب وہ تحریک عدم اعتماد والوں کے ساتھ ہیں۔ یہ کارکن حضرات اگر سندھ ہاؤس کے باہر تک اپنا احتجاج محدود رکھتے تو بھی غنیمت تھا لیکن یہ جوش جذبات میں زیادہ عمل کر گئے۔ سندھ ہاؤس ہو یا سندھ میں کسی اور صوبے کا ایسا مہمان خانہ اسے متعلقہ ہونے ہی کا تصور کیا جاتا ہے اور اہمیت سفارت خانوں جیسی ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ مقامی پولیس بھی عدالتی اجازت کے بغیر اندر داخل نہیں ہو سکتی چہ جائیکہ دروازہ توڑ کر زبردستی اندر داخل ہوا جائے میرے نزدیک جوش پر ہوش کو غالب آنا چاہئے تھا۔ ایم این اے حضرات کو تو مظاہرین کو دروازہ توڑ کر اندر جانے سے روکنے کی کوشش کرنا چاہئے تھی۔ یہ نہیں کہ وہ خود بھی ان حضرات کے ساتھ شامل ہو جاتے اس کے بعد کیا حکمت عملی کا تقاضا یہ تھا کہ شہباز گل وہ کچھ کرتے جو انہوں نے کیا کہ خود وزیر داخلہ شیخ رشید نے کہا کارروائی کے لئے آئی جی کو کہا ہے اور کارروائی اسلام آباد پولیس نے کی یہ سب لا حاصل رہا تھا اور پورا ملک دیکھ رہا تھا اس کے بعد جو ہوا وہ بھی غیر سیاسی عمل ہے کہ ایم این اے حضرات کا کسی کارروائی میں کوئی ذکر نہیں۔ صرف تیرہ کارکنوں کے خلاف مقدمہ درج ہوا اور وہ بھی رات کو رہا کر دیئے گئے کہ اسسٹنٹ کمشنر صاحب نے اپنے اختیارات کا درست استعمال کیا اور سب کو شخصی ضمانت پر تھانے ہی سے رہا کر دیا گیا۔ وہ ڈیوٹی مجسٹریٹ کی عدالت میں بھی پیش نہ ہوئے۔ یہ گزارش کسی اور مقصد کے لئے نہیں صرف حالات سدھارنے کے لئے کی ہے کہ سندھ حکومت  پیپلزپارٹی اور اپوزیشن کا ردعمل بھی جوش سے بھرپور اور ہوش سے محروم تھا اور یہی وہ خدشہ ہے جو ہر پر امن شہری محسوس کر رہا ہے۔ اس لئے اپیل وہی ہے جو چودھری شجاعت حسین نے کی اور میں ان کی تائید کرتا ہوں ہم کسی طور پر اندرونی خلفشار کے متحمل نہیں ہو سکتے معاشی اور دفاعی  لحاظ سے ہم پر فرض ہے کہ ملک میں امن رہے۔


نہ چاہتے ہوئے بھی یہ لکھنا پڑتا ہے کہ اور اب جو سلسلہ شروع ہوا اس میں لازم ہو گیا کہ کوئی غیر جانبدار شخصیت پنچائتی کردار ادا کرے ایسا شخص جو دونوں سے بات کر سکتا ہو۔ یہ ہمارے ملک کے ہر حصے کا رواج اور دستور ہے کہ الجھے فیصلے بھی مصالحت پر منتج ہو جاتے ہیں۔ ورنہ صورت حال تو یہ ہے کہ ہر روز ایک سے دو اراکین سامنے آ کر کپتان سے برائیت کا اظہار کر دیتے ہیں اب تک جو ظاہر ہوئے ان کی تعداد چودہ ہو چکی اور وہ سب اس بات پر بھی مطمئن ہونے کا اعلان کرتے ہیں کہ وزیر اعظم اپنی جگہ جماعت کے کسی دوسرے راہنما کے حق میں دستبردار ہو جائیں۔ اطلاع یہ ہے کہ یہ حضرات اسد عمر اور شاہ محمود قریشی کسی ایک کی نامزدگی پر مطمئن ہو سکتے ہیں جبکہ اس صورت مں ی عمران خان پارٹی کے چیئرمین بدستور رہیں گے۔ دوسری صورت میں اگر بروقت تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری ہو گئی تو عدم اعتماد کی کامیابی کے امکان زیادہ ہیں اس طرح صورت حال بالکل مختلف ہو گی۔


حکومتی ذرائع سے جو کہا جا رہا ہے اس کے مطابق اب عدالتی جنگ بھی شروع ہونے  والی ہے۔ فواد چودھری اور بابر اعوان صاحبان نے جس عمل کا فیصلہ کرایا اور اٹارنی جنرل نے بھی حامی بھری اور سپریم کورٹ سے آرٹیکل 63 (1) اے کی وضاحت کے لئے رجوع کا اعلان کیا یہ ایک مناسب راستہ ہے اگرچہ کسی بھی جرم کے سرزد ہونے سے قبل سزا دیئے جانا ٹیڑھا معاملہ ہے۔ بہر حال عدالت عظمیٰ کی تشریح تو قبول کرنا ہی ہو گی۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اس حوالے سے عدالت عظمےٰ سے رجوع کر چکی۔ سماعت کل (پیر) سے شروع ہو گی اس کا انتظار کرنا چاہئے۔ (تازہ ترین خبر یہ ہے کہ عدالت عظمٰے کے سربراہ چیف جسٹس مسٹر جسٹس عطا بندیال نے سندھ ہاؤس حملے کا از خود نوٹس لیا اور اٹارنی جنرل سمیت متعلقین کو نوٹس بھی جاری کر دیئے۔ منصب سنبھالنے کے بعد یہ پہلا از خود نوٹس ہے۔)
مبینہ منحرف اراکین میں سے جو نام زیادہ ابھر کر سامنے آیا وہ راجہ ریاض کا ہے۔ ان کا آبائی تعلق تو چکوال سے ہے لیکن جائیداد فیصل آباد میں ہونے سے یہ فیصل آبادی ہیں میری طرح اور صحافی دوست بھی ان سے واقف ہیں کہ یہ بہت بڑے جیالے تھے۔ پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کے رکن رہ چکے اور وزیر بھی بنے تھے مجھے تو یاد ہے کہ جب محترمہ بے نظیر بھٹو پارٹی کو متحرک رکھے ہوئے تھیں اور راؤ سکندر اقبال پنجاب کے صدر تھے تو فیصل آباد کے تین حضرات فاروق (عرف فوقا ٹیرر) رانا آفتاب احمد خان  اور راجہ ریاض بڑھ چڑھ کر ان مظاہروں اور مارچ میں حصہ لیا کرتے تھے اور فخریہ طور پر بتاتے تھے کہ وہ کتنی گاڑیاں اور کارکن لے کر آئے ہیں۔ یوں راجہ ریاض اور دوسرے دونوں حضرات کی وفاداریاں مشکوک بھی نہیں تھیں، پھر چشم فلک نے وہ نظارہ دیکھا کہ راجہ ریاض 2018ء کے انتخابی ٹکٹ کے لئے تحریک انصاف میں چلے گئے۔ رانا آفتاب نے راؤ سکندر اقبال کے ”پیٹریاٹ“ ہو جانے کے باوجود رشتہ داری نہ نبھائی اور پارٹی میں رہے تاہم نظر انداز کئے جاتے رہے اور وہ بھی تحریک انصاف کو پیارے ہو گئے۔ حالانکہ وہ نہ صرف صوبائی وزیر بلکہ صوبائی جنرل سیکریٹری صوبائی صدر اور اوورسیز پیپلزپارٹی کے صدر بھی رہے تھے۔ یہ بھی ایک تاریخ ہے اور ان حضرات کے حوالے سے بہت کچھ جانتا ہوں۔
وقت ان باتوں کا نہیں تاہم راجہ ریاض کا ذکر ہے تو وہ وفاقی حکومت میں پارلیمانی سیکریٹری ہوئے (شاید وزیر بننا چاہتے تھے) بہر حال کابینہ میں اختلاف کرنے والے پہلے رکن تھے کپتان کو پسند نہ ہوا تو وہ پہلے پارلیمانی سکریٹری شپ سے مستعفی ہوئے۔ اور پھر خاموشی سے کام کرتے رہے۔ جب جہانگیر ترین کے ساتھ ”حسن سلوک“ ہوا اور وہ ناراض ہوئے تو راجہ ریاض کھل کر ان کے ساتھ چلے گئے۔ یہ وہ وقت تھا جب کپتان کو اپنے کھلاڑیوں کو سنبھالنا چاہئے تھا۔ لیکن وہ شیخ رشید حتیٰ کہ فواد چودھری ”ون پیج کے خیال میں تھے۔ چنانچہ کسی کو درخور اعتنا نہ جانا اور آج اس کا نتیجہ سامنے ہے۔
یہ تو حالیہ حالات ہیں، مجھے تو ماضی میں بہت اچھی طرح یاد ہے کہ عقل مندوں سے بھی کوتاہی ہوئی اور نتیجہ بھگتنا پڑا، میں ایک بار پھر عرض کروں کہ امن اور سیاسی استحکام ہی ہمارے تمام مسائل کا حل ہے اور یہ اب بھی ممکن ہے اس کی کنجی وزیر اعظم اور کپتان کے ہاتھ میں ہے ان کو اپنی انا ترک کرکے اپوزیشن سے بات کرنا ہو گی اور کسی قابل قبول حل پر پہنچنا ہوگا دوسری صورت خرابی کی ہے جس میں کسی کا بھلا نہیں ہوگا عوام کے لئے پہلے ہی مسائل کیا کم ہیں کہ آپ سب ان کو بڑھاتے جا رہے ہیں۔ قوم کے غم میں دبلے ہونے والے سب حضرات سے ملتمس ہوں کہ ضد اور انا کے خول سے باہر آئیں، آئین اور قانون کی عملداری پر یقین کی بات نہیں عمل کریں اور اگر یہ ممکن نہیں تو پھر پنچایت ہی کرالیں جو ممکن بھی ہے۔

مزید :

رائے -کالم -