تحریک عدم اعتماد پر مہذب، شائسہ اظہار کی ضرورت 

تحریک عدم اعتماد پر مہذب، شائسہ اظہار کی ضرورت 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


وزیراعظم کے خلاف اپوزیشن کی طرف سے پیش کردہ تحریک عدم اعتماد آج کل موضوع بحث ہے۔ آئینی طریق کار کے تحت تحریک مذکور پیش کرنے والے اپوزیشن اراکین کو اپنی کامیابی کے لئے مطلوبہ تعداد 172 ممبران کی کھڑے ہو کر حمایت ظاہر کرنا لازم ہے۔ بصورت دیگر تحریک ناکام ہو کر غیر موثر ہو سکتی ہے۔ یہ ایک طے شدہ انداز ہے جس پر عمل کرنا اراکین قومی اسمبلی کی ذمہ داری ہے۔


اس صورت حال میں اپوزیشن کے رہنما اپنے حامی سیاسی رہنماؤں کے مشوروں سے حتی المقدور زیادہ تعداد میں اراکین قومی اسمبلی کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دوسری جانب عمران خان اپنی جماعت تحریک انصاف اور دیگر اتحادی جماعتوں کے قائدین سے بات چیت کر کے انہیں اپنی حمایت میں ساتھ رکھنے کے لےء ممکنہ تگ و دو کر رہے ہیں۔ قارئین کرام جانتے ہیں کہ یہ مرحلہ سیاسی سرگرمیوں کی انجام دہی کے دوران مختلف ممالک میں گاہے بگاہے وقوع پذیر ہوتا رہتا ہے اور اس کے متعلقہ امور معمولی تفاوت سے وہاں بروئے کار لائے جاتے ہیں کیونکہ متعلقہ آئین و قوانین میں وہاں کے حالات کے تحت اس ذمہ داری کی عمل داری میں قدرے فرق ہو سکتا ہے لیکن حکومت اور حزب اختلاف کے حامی اراکین کی تعداد زیادہ کا حامل فریق ایسی کارروائی میں کامیاب ہو کر سرخرو ہوتا ہے۔


ایسی حمایت کے زیادہ حصول کی کوشش میں بیشتر مہذب اور ترقی یافتہ ممالک رائج و نافذ آئین و قوانین کے متعلقہ اصولوں کی پابندی اور پاسداری کرتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں اور یوں وہ اس اہم قومی فریضہ کی ادائیگی امن و امان سے نبھا کر آگے بڑھنے کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ بلکہ وہ لوگ ایسے شائستہ طریقوں اور سلیقوں سے شعبہ زندگی میں بھی اپنی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر کے تعمیر و ترقی اور خوشحالی کے اہداف حاصل کرنے میں بتدریج کامیاب ہوتے رہنے کے نصب العین پر گامزن ہونے سے اچھی مثالیں قائم کرتے ہیں۔ جو بلا شبہ دیگر پسماندہ اقوام کے لئے قابل تقلید سبق کی حیثیت رکھتی ہیں۔ کیا ہم بھی اپنی سیاسی کارکردگی کو بہتر کرنے کی سعی کریں گے؟


تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے موجودہ موقع پر وطن عزیز میں حکومت کے حامی رہنماؤں کی جانب سے تندوتیز اور مخالفانہ لب و لہجوں میں  اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف شب و روز تنقید، طعنہ زنی اور بیان بازی ہو  رہی ہے۔ جبکہ یہ سیاسی کارروائی اپنے مقررہ انداز اور طریق کے مطابق سرانجام دی جائے۔ اس کو جب آئین و قوانین کے تحت عملی طور پر اپنایا جائے گا تو ظاہر ہے کہ اس میں متعلقہ نتیجہ حامی اراکین کی زیادہ یا مطلوبہ تعداد کے حامل فریق کے حق یا حمایت میں ہوگا۔ تو وہ کامیاب فریق حکومت یا اپوزیشن میں سے کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ متعلقہ اجلاس سے قبل ہر دو فریقین کو الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کے مطابق اپنی مہم بھی پر امن اور سنجیدگی سے چلانے کی ضرورت ہے تو پھر کسی فریق کو بھی آئین یا قانون شکنی پر مخالفانہ الزام تراشی، بد تمیزی اور خرافات گوئی نہیں کرنی چاہئے۔ ایسا رویہ اور طرز عمل نہ صرف ان رہنماؤں کے لئے نقصان دہ اور ناکامی کا موجب ہو گا بلکہ اس سے ملک کی جگ ہنسائی بھی ہوتی ہے جمہوری اقتدار کا تقاضا یہ ہے کہ بالخصوص مقتدر حلقے حریف فریق یعنی اپوزیشن کے اراکین پر کوئی ناجائز دباؤ، اثر و رسوخ اور پابندیاں عائد کرنے سے باز رہیں۔ 


حریف رہنماؤں کی آئے روز تضحیک کرنا ان کے نام بگاڑ کر بازاری زبان میں للکارنا، دھمکیاں دینا اور جمہوری اصولوں کو نظر انداز کرنا، حصول اقتدار اور تحفظ اختیارات کے لالچ و طمع کا جاری رویہ اور وطیرہ ہے۔ وطن عزیز میں گزشتہ کئی سالوں کے دوران ایسے افراد کو وزراء، سفیروں، مشیروں اور اداروں کے عہدوں پر نامزد کیا گیا جو میرٹ کے متعلقہ اصولوں کے معیار پر پورا اترنے کی بجائے محض مقتدر لوگوں کے منظور نظر چاپلوسی اور خوشامد میں خصوصی ملکہ رکھتے ہیں جبکہ ایسی پسندیدگی کی بڑی وجہ ملکی دولت اور وسائل کی کم عرصے میں زیادہ خورد برد اور لوٹ مار کر کے جلدی سے ایسے ٹھکانوں میں چھپانا اور خرچ کرنا تھا۔ جہاں سے ان کا سراغ لگانا پیچھا کرنے والے لوگوں اور حکمرانوں کے لئے آسان نہ ہو۔ اس طرح یہاں کے معاشی مسائل روز بروز بڑھتے رہے اور ان کے حل کے لئے ضخیم بیرونی قرضوں، عطیات اور امداد کے ڈالروں، پونڈز اور یوروز کی بڑی رقوم اکثر اوقات مقتدر افراد، غیر ملکی بینکوں مں ی جمع کراتے یا وہاں مختلف کمپنیوں میں سرمایہ کاری کرتے رہے۔


آخر میں عرض ہے کہ سیاست میں لڑائی جھگڑے اور انتخابات دھونس اور دھاندتی ملکی وقار اور انسانی جان و مال کے لئے بہت افسوس ناک خطرناک اور تباہ کن رجحانات ہیں۔ ان کی اصلاح کے لئے برسر اقتدار طبقوں اور اعلیٰ حکام کو محنت، دیانت،  سادگی اور منصفانہ احتسابی عمل اختیار کرنا چاہئے۔

مزید :

رائے -کالم -