حکومت اکثریت کھو بیٹھی ہے؟

حکومتی اراکین اسمبلی کی سندھ ہاؤس میں موجودگی سے لگتا ہے کہ حکومت ایوان میں اکثریت کھو بیٹھی ہے کیونکہ پہلے ہی پی ٹی آئی کے پاس دس بیس ووٹوں کی اکثریت تھی اور اگر اتحادی جماعتیں بھی خلاف ووٹ ڈال دیں تو اس کا دھڑن تختہ ہوجائے گا، اب تو خودپی ٹی آئی کے اندر سے بھی درجن بھراراکین قومی اسمبلی نے اپنے آپ کو ظاہر کردیا ہے اور مزید نے ایک ایک کرکے عمران خان کو مائنس کرنے کی تکرار شروع کردی ہے۔جہاں تک عوامی حمائت کا تعلق ہے تو پی ٹی آئی کا ذاتی ووٹ بینک اس قدربڑا نہیں تھا کہ جس کی بنیاد پر کہا جا سکتا کہ وہ عوامی طاقت کے ذریعے اقتدار میں آئی ہے۔اپوزیشن کی جماعتیں کھلے بندوں الزام لگاتی ہیں کہ آر ٹی ایس کو بٹھا کر رزلٹ تبدیل کیے گئے تھے اور پی ٹی آئی کے امیدواروں کو جتوایا گیا تھا۔ چنانچہ اگر آج عمران خان احتجاج کی کال دیتے ہیں تو فقیدالمثال جلسے دیکھنے کو نہیں ملیں گے۔ سندھ ہاؤس پر پی ٹی آئی کارکنوں کے دھاوا بولنے کے وقت بھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ سارا اسلام آباد امڈ آیا ہو۔ یوں ہی معروف کامیڈین افتخار ٹھاکر کی ایک لائن یاد آگئی کہ انتخابات سے قبل عمران خان لاہور میں جلسے سے خطاب کرنے کے لئے داتا دربار کے پاس موجود تھے کہ افتخار ٹھاکر کا وہاں سے گزر ہوا۔ اس نے ایک مزاحیہ پروگرام میں بتایا کہ خان صاحب کے جلسے میں بچے ہی بچے تھے، ایسا لگتا تھا کہ خان صاحب جلسہ کرنے نہیں بلکہ انہیں حفاظتی ٹیکے پلوانے کے لئے وہاں گئے ہیں۔ چنانچہ جن لوگوں کاخیال ہے کہ اقتدار سے باہر ہوتے ہی خان صاحب پاکستان کو جام کردیں گے، وہ خوابوں کی دنیا میں رہتے ہیں، بہتر ہوگا کہ وہ جلد از جلد اس سے باہر نکل آئیں۔
اگلے ہفتے میں بدھ کے روزاو آئی سی کے وزراء کا اجلاس قومی اسمبلی میں ہوگا جس کا مطلب ہے کہ تب تک کچھ بڑی ہلچل نہیں ہونے والی ہے۔ البتہ عدالتی محاذ پر ضروردلائل کے انبار سننے کو ملیں گے جہاں حکومت اور اپوزیشن کی کوشش ہوگی کہ وہ اپنے اپنے ٹھوس دلائل سے رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرلیں۔ اب تک آئین کے آرٹیکل 63Aکی میڈیا پر قانونی ماہرین کی جانب سے کی جانے والی تشریح میں تو بظاہر حکومت کو شکست ہوتی نظر آئی ہے کیونکہ قانونی ماہرین کی اکثریت نے اس بات سے اتفاق نہیں کیا کہ فلور کراسنگ کا بنائے دعویٰ (Cause of Action)پیدا ہونے سے پہلے ہی اس آرٹیکل کو حرکت میں لایا جا سکتا ہے۔ اب حکومت نے محض وقت لینے کے لئے اپنے عدالتی آپشن کو استعمال کرنے کا ارادہ کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ 13منحرف اراکین کو شوکاز نوٹس جاری کرکے ان کے خلاف ڈی سیٹ کرنے کی کاروائی کا آغاز بھی کرنے جا رہی ہے۔ دوسری جانب پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے مریم نواز متحرک ہوجائیں گی اورمختلف شہروں میں جلسے جلوس کرتے ہوئے 25مارچ کو جی ٹی روڈ پرنون لیگ کا قافلہ لے کر نکل کھڑی ہوں گی۔ اس دوران مولانا فضل الرحمٰن کے پارٹی کارکن اور پیپلز پارٹی کے جیالے بھی مختلف سمتوں سے اسلام آباد کی طرف امڈ پڑیں گے اور یوں 23مارچ کے بعد سے لانگ مارچ کی بھرمار نظر آئے گی۔ عین ممکن ہے کہ اس وقت تک مزید پی ٹی آئی کے منحرف اراکین سامنے آجائیں اور اپوزیشن یہ تاثر دینے میں کامیاب ہو جائے کہ ایوان میں پی ٹی آئی ایک اقلیتی جماعت بن کر رہ گئی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو پی ٹی آئی کا ورکر بری طرح مایوس ہوگا اور یہ سوچنے پر مجبور ہوگا کہ ایسے میں اسلام آباد جا کر اپنی گت بنانے سے بہتر ہے کہ ٹی وی سکرین پر بیٹھ کر سیاسی کاروائی کا حصہ بنا جائے۔
تاہم اس سارے عرصے کے دوران سپیکر کا کردار انتہائی اہم ہوگا۔ اب تک کی صورت حال سے لگتا ہے کہ سپیکر اسد قیصر چاہیں گے کہ قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کی کاروائی کو جتنا ممکن ہو لٹکائیں جس کا مطلب ہے کہ مولانا کے کارکنوں کو ماہ رمضان کی تراویح وہیں ادا کرنا پڑیں اور اس دوران مولانا کو پرمغزخطابات کا بھی موقع ملے۔ چنانچہ دیکھنا یہ ہے کہ اپوزیشن کتنی جلدی سپیکر کو قابو کرنے میں کامیاب ہوتی ہے۔ حکومتی چالوں کی کنجی اس وقت سپیکر کے پاس ہے۔ وہ جس قدر حکومتی طرفداری کریں گے اسی قدر اپوزیشن کو موقع ملے گا کہ انہیں متنازع قرار دے کر ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی قرارداد جمع کروائیں۔ اس دوران ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی بھی متحرک نظر آسکتے ہیں اور یوں ایوان صحیح معنوں میں مچھلی منڈی کا منظر پیش کرے گا۔
اگر پی ڈی ایم غیر معمولی بڑا جلوس لے کر اسلام آباد پہنچے گی تو پی ٹی آئی کے کارکنوں سے تصادم کا خطرہ ٹل سکتا ہے۔ بظاہر ایسا ہی لگتا ہے کیونکہ پی ڈی ایم ایک نہیں بلکہ دس جماعتوں کا اتحاد ہے جبکہ اس کے مقابلے میں پی ٹی آئی واحد جماعت کے طور پرکارکن اکٹھا کرے گی۔ اس کے لئے ممکن نہ ہوگا کہ غیر معمولی حد تک بڑا مجمع اکٹھا کر سکے جو پی ڈی ایم کے کارکنوں سے دوبدو لڑائی کا متحمل ہو سکے۔
اگلے ہفتے کے دوران یہ تاثر مزید گہرا ہو جائے گا کہ عمران خان کے خلاف پارٹی کے اندر بغاوت ہوگئی ہے جس سے پارٹی کا کارکن بددل ہوتا دکھائی دے گا اورسوچنے پر مجبور ہوگا کہ آخر پارٹی کا یہ حال کیوں ہوا ہے اور پھر اسے ملک میں ہونے والی مہنگائی، بے روزگاری اور معاشی ابتری سمجھ آنا شروع ہو جائے گی۔ خاص طور پر اب جبکہ پیپلز پارٹی حکومت کے خلاف سیدھی ہوچکی ہے اس لئے پی ٹی آئی کے وہ کارکن جنھوں نے باامر مجبوری 2018کے انتخابات میں پی ٹی آئی کو ووٹ کیا تھا، پیپلز پارٹی کو رجوع کرتے نظر آئیں گے جس سے عمران خان کی حمائت مزید سکڑجائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت تک نون لیگ پیپلز پارٹی سے رہ کر کھیل رہی ہے کیونکہ پیپلز پارٹی کے پاس سندھ کی حکومت ہے مگر نون لیگ کے پاس پنجاب کی حکومت نہیں ہے۔ پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کو سندھ ہاؤس میں بھی اسی لئے رکھا گیا تھا کہ پنجاب ہاؤس نون لیگ کی تحویل میں نہیں ہے اور نہ ہی مولانا ان اراکین کو کسی پرائیویٹ جگہ پر رکھ سکتے ہیں۔ اب بھی پیپلز پارٹی نے انہیں مبینہ طور پر سندھ میں پہنچادیا ہے۔چنانچہ اپوزیشن اس وقت سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہونے کا بھرپور فائدہ اٹھارہی ہے جہاں کے عوام نے پی ٹی آئی کا سندھ حقوق مارچ مسترد کرکے شاہ محمود قریشی کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔