روپے کے بتیس اور شرطیہ میٹھے(1)

روپے کے بتیس اور شرطیہ میٹھے(1)
روپے کے بتیس اور شرطیہ میٹھے(1)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


اگر پچھلے ویک اینڈ پہ گوجرانوالہ میں میری تازہ عیاشیوں کی روداد محض ایک خبر ہوتی تو اِس کی شہ سُرخی نکالنا بہت آسان تھا۔ ’استاد شاگرد کی بیالیس سال بعد ملاقات‘۔ ذیلی سُرخیاں ہوتیں: رولا رپّا، گپ شپ اور پُھل جھڑیاں‘، ’بھائی دانش کی میزبانی میں ڈینٹسٹ ندیم عزیز، ڈاکٹر رفیق، صحافی احتشام شامی اور معالج کے روپ میں دانشور فرخ بشیر ناگی بھی ڈنر میں شریک ہوئے‘۔ یہی نہیں، نئی صحافت کی رُو سے تقریب ِ ملاقات کی فوری وجہ ایک الگ باکس آئٹم کا عنوان بھی بن سکتی تھی۔ یہی کہ ’فرعون کے گھر میں پلنے والا موسی ایک برس کا ہو گیا۔‘ ماڈرن لوگوں کے لئے یہ سنسنی خیز انکشاف ایکدم بریکنگ نیوز بن جاتا۔ سوشل میڈیا پہ ہیش ٹیگ لگتا۔ ایک نیا ٹرینڈ چل پڑتا۔ پھر چل سو چل۔ مَیں نے ایسا نہیں ہونے دیا۔ یہ سوئے اتفاق نہیں، اِس میں ارادے کو دخل ہے۔


عقلی جواز پوچھیں تو خبروں کو ایک طرف کر کے کہوں گا ’میرا کالم، میری مرضی‘۔ اگر مکتوب الیہ خوف زدہ نہ ہوا تو سمجھاؤں گا کہ رپورٹر کو حقائق بیان کرتے ہوئے بہرحال کسی نہ کسی سیدھے راستے پہ چلنا پڑتا ہے۔ اِسی طرح اخبار میں ’قارئین کے خطوط‘  کے صفحے پر آپ آج بھی دیکھیں گے کہ ایڈیٹر کا مراسلہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ کالم تو انگریزی تعریف کی رُو سے ہے ہی ’مرضی کا اداریہ‘ بلکہ چند سنجیدہ تجزیہ کاروں کو چھوڑ کر اچھی خاصی موج مستی۔ اِس میں آسانی یہی ہے کہ ایڈیٹر کالم نویس کی رائے سے متفق ہونے کا پابند نہیں۔ اُس سے بڑی آزادی یہ کہ مجھ جیسا کالم لکھنے والا بعض اوقات خود اپنی رائے سے بھی متفق نہیں ہوتا۔ مَیں واقعاتی ترتیب و ترجیح میں پیرا پھیری نہیں کروں گا، لیکن سبھی دوست یوں ٹُوٹ کر مِلے کہ اپنی تحریر کا امکانی بیٹنگ آرڈر سمجھ میں نہیں آ رہا۔


پہلے یہ کہ اننگز اوپن کو ن کرے؟ اگر مجھے اور دانش کو خصوصی مہمان اور میزبان سمجھ کر بخش دیں تو صوفی تبسم کے بقول ’باقی رہ گئے چار‘۔ اب اولیّت تو اُن صاحب کو ملنی چاہیے جو ذاتی تعلق کے دَورانیے کے حساب سے سب سے سینئر تھے، اگرچہ عمر میں ڈاکٹر فرخ بشیر ناگی اُن سے چھ سال بڑے نکلے۔ مراد ہیں  1978-80 ء کے تعلیمی سیشن کے دوران گورنمنٹ کالج لاہور یا موجودہ جی سی یو میں ایک نوزائیدہ لیکچرر کے شاگرد ندیم عزیز بٹ جنہیں آج سارا گوجرانوالہ دانتوں کے بہت اچھے ڈاکٹر کے طور پہ جانتا ہے۔ ظاہر ہے معالج ِ دندان کی مقبولیت شہر میں روایتی پہلوانوں کی خوش خوری اور انسانی دانتوں پر اُس کے اثرات کے سبب ہو گی۔ اِس کے ساتھ یہ پہلو کہ ’بٹ صاحبی‘ میری اور میرے ممدوح کا نسلی حوالہ ہوتے ہوئے ایک کیفیت کا نام بھی ہے۔ گوجرانوالہ ہمہ وقت اِس کیفیت سے سرشار رہتا ہے۔


اِسی لیے تو ڈاکٹر ندیم عزیز بٹ نے، جو کم گو مگر زود فہم ہیں، بہت تپاک سے  دو پرانی باتیں یاد دلائیں۔ ایک یہ کہ انگلش کی کلاس میں پڑھائی کے علاوہ ہنسی مذاق کا بہت مزہ آتا تھا۔ دوسرے، آپ فری پیریڈ میں کینٹین لے جا کر چائے کے ساتھ کچھ نہ کچھ کھِلا دیتے۔ میرے حافظے نے بھی جی سی (یو) مین بلڈنگ کی بالائی منزل پہ واقع کمرہء جماعت میں مذکورہ تعلیمی سیشن کے کچھ تاریخی مکالمے تازہ کر دیے۔ جیسے انگریزی کا لیکچر ہوتے ہی اُن دنوں اردو اِملا کے بارے میں ایک طالب علم کا سکہ بند سوال: ”کیا طوطا ’ت‘ سے لکھ سکتے ہیں؟“ ”ضرور لکھ سکتے ہیں مگر طوطے کی ہریالی کم ہو جائے گی۔“ ایک دن قانونی حوالے سے ذوالفقار علی بھٹو ٹرائل پہ میرے تہہ دار جملے پر ایک لڑکے نے چھیڑا: ”سر، آپ سماج دشمن عناصر ہیں۔“ ”جی ہاں، آپ اناج دُشمن عناصر ہیں۔“ لڑکا کافی موٹا تھا۔ چنانچہ زور کا قہقہہ لگا جس میں ساری کلاس شامل تھی۔  


سُنا ہے کہ عظیم سیّاح اور جہاز راں کرسٹوفر کولمبس کے سر امریکہ کی دریافت کا سہرا قطب نما نے غلطی نے باندھ دیا تھا۔ میرا تجربہ کولمبس سے خوش تر ثابت ہوا۔ اِن معنوں میں کہ ڈاکٹر ندیم عزیز بٹ کی دریافت ِ نو میں اُن کی بھانجی عائزہ سہیل میرے حق میں گُوگل میپ کا سا کام کر گئیں۔ پچھلے برس پنجاب یونیورسٹی کے سکول آف کمیونی کیشنز میں میرے انگلش کورسز کی اِس سب سے ہونہار طالبہ کے ایک انکشاف نے خوشگوار حیرت سے دوچار کیا تھا۔ یہ کہ اُن کے ماموں بھی، جو گوجرانوالہ میں ڈینٹسٹ ہیں، اُنہی کی طرح کئی سال پہلے مجھ سے جی سی (یو) میں انگریزی پڑھتے رہے ہیں۔ اگلی صبح گوجرانوالہ کے نمبر پہ فوری کال کی جس پہ ڈاکٹر ندیم عزیز ہی نہیں، میرے باطن میں خوابیدہ مرحوم ماں کی ننہال بھی جاگ اٹھی۔


یہ 1950 ء کی دہائی کا وسط ہے۔ پاکستان بنے چند ہی برس ہوئے ہیں۔ ماضی کی نندہ بس سروس، جس کا ذکر آپ نے کرشن چندر اور قدر ت اللہ شہاب کی تحریروں میں پڑھا ہو گا، ڈسٹرکٹ ٹرانسپورٹ کے نام سے نارتھ ویسٹرن ریلوے کے سبز رنگ ڈبوں کی طرح مشرف بہ اسلام ہو چکی ہے۔ اب مجلس احرار اسلام کے لیڈر شیخ حسام الدین اِس کے مینجنگ ڈائریکٹر ہیں۔ امی کے نانا نانی اور اُن کے بال بچوں سے مِلنے کے لیے ہرمہینے دو مہینے بعد سیالکوٹ جنکشن سے گوجرانوالہ ٹاؤن تک ہمارے سفر کا وسیلہ صبح کے اوقات میں لاہور جانے والی ’بابو ٹرین‘ ہے یا یہی بسیں۔ پھر تانگے پر سیالکوٹی دروازہ کے راستے تھانے والا بازار، کہِِیں کہِیں پچھلے پائدان پر جھولنے کے مشتاق باہمت بچے، لاری اڈے کے نواح میں پڑاؤ والی گراؤنڈ میں مالٹوں کی ڈھیریاں اور ’شرطیہ مِٹھے‘ کہہ کر بیچنے والوں کا کورَس ’روپیّے دے بتّی بتّی، بتّی بتّی، بتّی……‘ میرے لئے گوجرانوالہ کی پہچان اِسی حوالے سے تھی۔ 


تقسیم ِ برصغیر سے شہر کی سوشل اکالوجی کتنی تبدیل ہوئی اور متمول سکھ شرنارھیوں کی جگہ یوپی، جموں اور مشرقی پنجاب سے آئے ہوئے  مسلمانوں کا تناسب کیا رہا؟ دری باف کَھڈیاں پاور لُومز کیسے بنیں اور دھاتی ظروف کی صنعت ٹرانسفارمر سازی میں کِس تیزی سے ڈھلی؟  ریلوے لائن کے پار جیل سے دائیں مُڑ کر مہاجرین کے لیے زیرِ تعمیر سیٹلائٹ ٹاؤن میں ہمارے ماماں جی خواجہ صاحب جیسی بااثر مقامی ہستیاں کیونکر جا گزیں ہوئیں؟ من موہنے شاعر اور وکیل ارشد میر صاحب کے چلے جانے پر ہمت آمیز ہلکی پھلکی ہیرا پھیریوں کی یہ داستانیں سُنانے والا ایک آدمی اب بھی موجود ہے۔ صحافی احتشام شامی جنہوں نے معراج دین کے چِڑوں سے لے کر ریلوے ریفریشمنٹ روم، شہباز تکہ، فرائی ماسٹر اور اب گوجرانوالہ کینٹ کے نواحی فضل سنٹر کے ریستوران میں ہماری تازہ ترین غذائی دہشت گردی میں بھرپور کردار ادا کیا۔


یہ مطلب نہیں کہ شریک محفل دوستوں میں سے ہمدمِ دیرینہ ڈاکٹر رفیق شیخ کی کہانی بیان نہ کی جائے جنہیں کنگ ایڈورڈ میں ہاؤس جاب کے دنوں سے مَیں ڈاکٹر ایم آر شیخ کہتا آیا ہوں۔  خوش خور پہلوانوں کے شہر میں ’روپے کے بتیس بتیس‘ کی تشریح کے لیے مَیں ذرا فلیش بیک میں چلا گیا تھا۔ وگرنہ یہ بھی ممکن نہیں کہ بندہ چائلڈ اسپیشلسٹ کے بھیس میں چھُپے ہوئے دانشور ڈاکٹر فرخ بشیر ناگی کو بھول جائے جو مصنف ہی نہیں، طب و صحت، تاریخ، سیاسیات اور معیشت پہ سنجیدہ مطبوعات کے مشاق قاری بھی ہیں۔ حوصلہ مند اتنے کہ میری تحریریں بھی چٹ کر گئے اور بے مزہ نہ ہوئے۔ اُن کے اِسی ایئر کنڈیشنڈ مزاج کے  پیشِ نظر مشترکہ دوست اور میرے بھائی ڈاکٹر دانش نے دو سال پہلے تعارف میں متنبہ کر دیا تھا ”ناگی کو عام بندہ نہ سمجھیں۔ بچوں کا بہت اچھا معالج، لالچ نام کو نہیں۔“ ”جی ہاں، ہمراز احسن کے الفاظ میں وکھری ٹائپ کا آدمی۔“ مَیں نے جیسا سُنا تھا اُس سے بڑھ کر پایا۔      (جاری ہے)  

مزید :

رائے -کالم -