کرکٹ کے میدان میں ہاکی

کرکٹ کے میدان میں ہاکی
کرکٹ کے میدان میں ہاکی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کا سترھواں غیر معمولی اجلاس آئندہ چند روز کے اندر اندر اسلام آباد میں منعقد ہو رہا ہے۔ یہ ایکا بڑے اعزاز کی بات ہے کہ تمام برادر مسلمان ممالک کے زعما پاکستان میں جمع ہوں گے،اور دنیا بالخصوص عالم ِ اسلام کے مسائل اور معاملات پر غور کریں گے، ایک طرف اسلامی اتحاد کا یہ عظیم الشان مظاہرہ وحدت اور اخوت کے جذبوں کو پروان چڑھانے کا باعث بن رہا ہے،تو دوسری طرف پاکستانی سیاست کا منہ زور اور سرکش گھوڑا قابو میں نہیں آ رہا۔ وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں نہ صرف جمع کرائی جا چکی ہے، بلکہ سپیکر قومی اسمبلی جناب اسد قیصر نے بعد از خرابی ئ بسیار نوٹس بھی ارکان اسمبلی کو بھجوا دیے ہیں، ابھی تک یہ نہیں بتایا گیا کہ کس تاریخ کو اس قرارداد پر رائے شماری  ہو گی،لیکن جو کچھ اسلام آباد میں ہو رہا ہے،اس نے جذبات کو اِس قدر بھڑکا دیا ہے کہ کسی بھی وقت کوئی بھی کچھ بھی کر سکتا ہے،اور ایک ایسی صورتِ حال جنم لے سکتی ہے کہ جس سے نکلنے کے لیے ایڑی اور چوٹی کا زور لگانا پڑے،ایڑی اور چوٹی دونوں کو خراشیں آ سکتی  ہیں، بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کہ گھاؤ بھی لگائے اور کھائے جا سکتے ہیں۔


تحریک انصاف کے اپنے ارکان قومی اسمبلی کی ایک بڑی تعداد بغاوت کا علم بلند کیے ہوئے ہے، دس بارہ تو منظرعام پر آ چکے ہیں لیکن اتنے ہی بلکہ کچھ زیادہ ہی اپنی اپنی جگہ بے تاب ہیں۔کسی بھی وقت کہیں جلوہ دکھا سکتے ہیں۔ان ارکان کی ایک بڑی تعداد سندھ ہاؤس میں براجمان تھی(یا شاید اب بھی ہے) کہ اُسے اپنے ”اغوا“ کا خدشہ تھا۔عدم تحفظ کے مبینہ احساس نے انہیں اسلام آباد کے اس جزیرے میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا،جو وفاقی دارالحکومت میں تو واقع ہے لیکن  سکہّ وہاں سندھ حکومت کا چلتا ہے۔اسلام آباد میں چاروں صوبوں اور آزاد کشمیر کے اپنے اپنے ہاؤس ہیں، جہاں ان کے ارکانِ اسمبلی اور افسرانِ بالا قیام کرتے،اور خود مختاری کے مزے لوٹتے ہیں۔  ہر صوبے یا حکومت کے اپنے اپنے محافظ ان کی حفاظت کا فریضہ انجام دیتے ہیں،جس طرح غیر ملکی سفارت خانوں پر ان ممالک کا پرچم لہراتا،اور انہیں میزبان ملک کی پہنچ سے دور رکھتا ہے،اُسی طرح صوبائی حکومتوں کی یہ ”اقامت گاہیں“ بھی وفاقی دسترس سے باہر تصور ہوتی ہیں۔ سندھ ہاؤس، سندھ حکومت کے اور سندھ حکومت جناب آصف علی زرداری کے زیر سایہ ہے،اور زرداری صاحب ”گیٹ عمران اپریشن“ کے اعلیٰ کمانڈر ہیں،ا س لیے پی ٹی آئی کے منحرف ارکان کو اپنی جماعت کی حکومت کی پہنچ سے باہر رکھنے کے لیے انہیں سندھ ہاؤس کی پناہ گاہ فراہم کر دی گئی۔ چودھری پرویز الٰہی نے اپنے ایک انٹرویو میں ان ”مسنگ پرسنز“ کی نشاندہی کی،اور انہیں اپوزیشن کی حفاظتی تحویل میں محفوظ قرار دیا،تو ڈھنڈیا پڑ گئی،یہاں تک کہ سندھ ہاؤس کے دروازے ٹی وی کیمروں اور اینکروں کے لیے کھول دیے گئے،ان کے سامنے آ کر مبینہ قیدیوں نے اعلان کیا کہ وہ برضا و رغبت یہاں مقیم ہیں۔انہیں وفاقی حکومت سے خطرہ تھا،اس لیے یہاں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں،اس پر پی ٹی آئی کے دو ارکان قومی اسمبلی اپنے ساتھ چالیس پچاس ساتھیوں کو لے کر سندھ ہاؤس پر چڑھ دوڑے،دروازہ توڑ ڈالا، پُرجوش نعرے لگائے،اس پر پورے ملک میں اضطراب اور تشویش کی شدید لہردوڑ گئی۔وفاقی وزیر داخلہ کو اسلام آباد پولیس کو حرکت میں لانا، اور اس جتھے کو تھانے پہنچانا پڑا،کئی فاقی وزراء اس اقدام کا دفاع کرتے اور کئی نیم دلی سے اس سے برات کا اظہار کرتے پائے گئے،بہرحال معاملہ سنبھال لیا گیا،تادم تحریر اس طرح کی کسی حرکت کا اعادہ نہیں ہونے پایا۔


تحریک انصاف کی اتحادی جماعتیں ابھی تک گو مگو میں ہیں لیکن ان کی طرف سے اشارے یہی مل رہے ہیں کہ وہ اپوزیشن کے ساتھ آنکھ لڑائے ہوئے ہیں۔پنجاب میں وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی تیاریاں بھی جاری ہیں، حکومت اور اپوزیشن دونوں نے اسلام آباد میں اپنے اپنے حامیوں کو اکٹھا کرنے کا اعلان کر رکھا ہے،اس کے ساتھ ہی ساتھ کوشش ہو رہی ہے کہ جو ارکان پارٹی قیادت کی ہدایات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسمبلی کے اجلاس میں پہنچیں،اور غیر حاضر رہنے سے انکار کر دیں،انہیں ووٹ ڈالنے ہی نہ دیا جائے۔اس مقصد کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا اعلان ہمارے محترم ڈاکٹر بابر اعوان صاحب مدظلہ العالی نے فرما دیا ہے۔آئینی اور قانونی ماہرین کی بڑی تعداد یہ تسلیم کرنے پر تیار نہیں کہ کسی رکن کو ووٹ ڈالنے سے روکا جا سکتا ہے یا ووٹ ڈالنے سے قبل ہی اس کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے۔ دستور کی دفعہ63۔ اے کے الفاظ بڑے واضح ہیں، ان کے مطابق پارٹی لیڈر شپ کی ہدایت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ووٹ ڈالنے والا رکن (ایک مقررہ طریق کار کے مطابق) اپنی سیٹ سے محروم ہو سکے گا۔دستور کے الفاظ سے یہ نتیجہ اخذکیا جا سکتا ہے کہ اگر کوئی رکن اپنی جماعت کے وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کا اظہار کرنے پر تل جاتا ہے،تو پھر اسے اپنی نشست کی قربانی دینا پڑتی ہے،گویا وہ وزیراعظم کی قربانی مانگ کر اپنی قربانی سے بچ نہیں سکتا۔ حکومت چاہتی ہے کہ ایسے رکن کو قبل از وقت کارروائی کر کے غیر موثر کر دیا جائے،وہ ووٹ کا حق استعمال ہی نہ کرنے پائے۔ اس دلیل کا وزن سپریم کورٹ ہی میں واضح ہو سکے گا،حکومتی ماہرین سے جو بھی اختلاف کیا جائے، کسی آئینی اور قانونی نکتے کو اٹھانے،اور عدالت میں لے جانے سے انہیں روکا جا سکتا ہے،نہ اس پر اعتراض کیا جا سکتا ہے،اگر معاملہ قومی اسمبلی اور سپریم کورٹ تک ہی محدود رہے،اور جو کچھ یہاں کیا جا سکتا ہے، وہی کیا جائے تو اِس سے اچھی بات کوئی نہیں ہو سکتی۔لیکن اگر لاکھوں کے اجتماعات منعقد ہوں گے،اگر متحارب جماعتوں کے کارکن ملک بھر سے اکٹھے کر کے لائے جائیں گے، اور اگر منہ زور کارکنوں کے جتھے اپنے مخالفوں پر چڑھ دوڑنے کی شہ پائیں گے،تو پھر آئین کی پاسداری کیسے ممکن ہو گی؟


وزیراعظم عمران خان کرکٹ کے انتہائی معتبر کھلاڑی کے طور پر دنیا میں جانے اور مانے جاتے ہیں، سپورٹس  مین سپرٹ کی ضرورت ان سے زیادہ کون سمجھ اور سمجھا سکتا ہے؟انہیں بھی،اور ان کے حریفوں کو بھی یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ تحریک عدم اعتماد کا فیصلہ قومی اسمبلی کے اندر ہونا ہے،اور وہیں ہونا چاہیے۔ملک بھر سے اپنے حامیوں کواکٹھا کر کے حکومت بھی  لا سکتی ہے،اور اپوزیشن بھی۔ حامی دونوں کے موجود ہیں،اور لاکھوں نہیں کروڑوں میں ہیں۔کوئی میچ تماشائیوں کو میدان میں داخل کر کے نہ کھیلا جا سکتا ہے،نہ جیتا جا سکتا ہے۔کرکٹ قواعد و ضوابط کے مطابق کھیلی جاتی ہے تو سیاست میں ہاتھوں اور پاؤں کو کھلا کیسے چھوڑا جا سکتا ہے؟جس طرح گذرے ہوئے کل کی اپوزیشن آج کی حکومت ہے،اُسی طرح آج کی حکومت کل کی اپوزیشن ہو سکتی ہے۔ اقتدار کسی کی ذاتی جاگیر نہیں ہے،یہ عوام کی امانت ہے،وہ جس سے چاہیں واپس لے لیں اور جس کو چاہیں سونپ دیں۔اس لیے حوصلہ رکھیے،دل بڑا کیجیے، ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا جذبہ پیدا کیجیے۔ کرکٹ کے میدان میں ہاکی نہیں کھیلی جا تی،نہیں کھیلی جا سکتی۔


بے خواب نیندیں 
خاور سلیم آذر ایک نثر نگار کے طور پر اپنے آپ کو متعارف کرا ہی چکے ہیں۔ان کے نثر پاروں کا مجموعہ ”صحرا کے پھول“ چھپ کر اہل دانش کو چونکا چکا ہے۔اب ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ ”بے خواب نیندیں“ تحسین کے پھول وصول کر رہا ہے۔تقریب ِ رونمائی کشف ِ درویش فاؤنڈیشن کے چیئرمین اعظم منیر کی میزبانی میں منعقد ہوئی۔خلیل الرحمن قمر جیسے ڈرامہ نگار، نذیر قیصر جیسے شاعر،میاں منیر احمد جیسے سیاسی اور سماجی رہنما،خالد شریف جیسے ادب اور ادیب نواز، پہلوانوں کے سرپرست ندیم پہلوان، منفرد لہجے کے مالک منشا قاضی، اور الفاظ کا دریا بہانے والی محترمہ رقیہ غزل سب انہیں داد دے رہے تھے۔ پھولوں اور چادروں سے ان کو لاد دیا گیا تھا    ؎
جدائی کی راتوں میں بے خواب نیندیں 
سکھاتی ہیں رونے کے آداب نیندیں 
مجھے رتجگوں کی نوازش پہ رکھا
چراتے رہے مجھ سے احباب نیندیں 
(یہ کالم روزنامہ ”پاکستان“ اور  روزنامہ ”دُنیا“ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

مزید :

رائے -کالم -