آرمی کو 45 ہزار ایکٹر زرعی زمین کی الاٹمنٹ ، بالآخر اصل کہانی سامنے آ گئی 

آرمی کو 45 ہزار ایکٹر زرعی زمین کی الاٹمنٹ ، بالآخر اصل کہانی سامنے آ گئی 
آرمی کو 45 ہزار ایکٹر زرعی زمین کی الاٹمنٹ ، بالآخر اصل کہانی سامنے آ گئی 

  

لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن )چند دن قبل حکومت کی جانب سے پاک فوج کے حوالے 45 ہزار ایکٹر سے زائد زرعی زمین کیے جانے کی خبریں سامنے آئیں تاہم اس کی وجوہات نامعلوم تھیں لیکن اب سینئر صحافی جاوید چوہدری نے اس کے پیچھے کی انتہائی شاندار وجہ اپنے کالم میں بتاتے ہوئے رازوں سے پردہ ہٹا دیاہے ۔

سینئرصحافی جاوید چوہدری کا اپنے کالم میں کہناتھا کہ گوہر اعجاز چنیوٹی شیخ فیملی سے تعلق رکھتے ہیں‘ دادا زمیندار تھے لیکن یہ 1947میں کراچی شفٹ ہوئے اور کاروبار شروع کر دیا۔گوہر اعجاز اس وقت ہارورڈ یونیورسٹی میں پڑھ رہے تھے‘ والد نے انھیں بلایا اور کاروبار ان کے حوالے کر کے خود کو ویلفیئر کے کاموں کے لیے وقف کر دیا‘ یہ لوگ اس وقت اجناس کی ٹریڈنگ کرتے تھے‘گوہر اعجاز نے یہ کاروبار سنبھال لیا‘ 1991میں کراچی کے حالات خراب ہونے لگے تو والد نے انھیں لاہور بھجوا دیا‘ گوہر اعجاز نے لاہور آ کر 5 ٹیکسٹائل ملز لگا لیں۔گوہر اعجاز عمران خان کے بہت بڑے سپورٹر اور فنانسر تھے لیکن 2021 میں علیم خان کی وجہ سے اختلافات پیدا ہو گئے اور یہ عمران خان سے دور ہو گئے۔

7 مارچ2023کو آرمی چیف ہاﺅس میں ملک کے10 بڑے بزنس مینزکی آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے ملاقات ہوئی تھی‘ مجھے کسی ذریعے سے پتا چلا اس میٹنگ کے لیے گوہر اعجاز نے اہم کردار ادا کیا تھا لہٰذا میری اس بدھ اور جمعرات کو لاہور میں گوہر اعجاز سے 2ملاقاتیں ہوئیں‘ گوہر اعجاز نے بتایا میرے ساتھ پنجاب کے 5 بزنس مین تھے جب کہ5بزنس مینز کو عارف حبیب کراچی سے لے کر آئے تھے یوں ہم 10 لوگ اس میٹنگ میں شریک ہوئے۔ میں نے پوچھا آپ آرمی چیف سے کیوں ملے؟

ان کا جواب تھا پاکستان معاشی طور پر تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے‘ ہم 10 لوگ یہ محسوس کرتے ہیں پاکستان کو اس وقت ہماری ضرورت ہے‘ ہم ملک کے بڑے ایکسپورٹرز بھی ہیں اور امپورٹرز بھی اور ہمارے پاس 10لاکھ لوگوں کی ورک فورس بھی ہے‘ ہم ریاست کو یہ یقین دلانا چاہتے تھے ہم ان حالات میں بھی ملک سے باہر نہیں جا رہے‘ ہم ملک کے ساتھ کھڑے ہیں‘ دوسرا ہمارا خیال تھا ہماری ملاقات کے بعد بزنس مین کمیونٹی کے اعتماد میں اضافہ ہو گا چناں چہ ہم نے آرمی چیف سے رابطہ کیا اور ہمیں مثبت جواب ملا۔

میں نے پوچھا‘ آپ حکومت کے پاس کیوں نہیں گئے؟ یہ ہنس کر بولے‘ حکومت عمران خان کی ہو یا پی ڈی ایم کی یہ فیصلہ سازی میں مار کھا جاتی ہے جب کہ معیشت فوری اور ٹھوس فیصلوں کے بغیر نہیں چل سکتی‘ معیشت میں آج اور ابھی بہت اہم ہوتا ہے جب کہ سرکاری فائربریگیڈ میں پانی بھروانے کا عمل بھی چھ دن میں مکمل ہوتا ہے چناں چہ جنرل باجوہ ہوں یا جنرل عاصم منیر ہم بالآخر فوج کے پاس جانے پرمجبور ہو جاتے ہیں۔

میں نے پوچھا ”لیکن کیوں؟“ یہ بولے ”مثلاً پاکستان کی میجر ایکسپورٹ ٹیکسٹائل ہے‘ ہم نے 2021-22میں ساڑھے 19 بلین ڈالرز کی ٹیکسٹائل مصنوعات ایکسپورٹ کی تھیں اور یہ ہماری پوٹینشل کا آدھا ہے‘ ہم بڑی آسانی سے اسے ڈبل کر سکتے ہیں لیکن ٹیکسٹائل کے لیے کپاس چاہیے اور پاکستان میں کپاس کی پیداوار تیزی سے کم ہو رہی ہے‘ ہم ہر سال باہر سے چار بلین ڈالرز کی کپاس منگواتے ہیں‘ اس کا دھاگا اور کپڑا بنتا ہے اور پھر گارمنٹس بن کر ایکسپورٹ ہوتی ہیں چناں چہ ہمارے پاس اگر کپاس نہیں ہو گی تو ایکسپورٹ رک جائے گی اور کپاس خریدنے کے لیے 4 بلین ڈالرز چاہئیں جب کہ ہمارے مالیاتی ذخائر 3 بلین ڈالر سے بھی کم ہیں لہٰذا پھر کاروبار کیسے چلے گا؟

ہم 10 سال سے حکومت کے دروازے پر ٹکریں مار رہے ہیں آپ ملک میں کپاس کا نیا بیج آنے دیں تاکہ ہم اپنی ضرورت کی کپاس پیدا کر سکیں‘ ہمیں باہر سے نہ منگوانی پڑے لیکن وفاق ہمیں صوبوں کے پاس بھجوا دیتا ہے اور صوبے ”ہمارے پاس اتھارٹی نہیں ہے“ کا جواب دے کر ہمیں دوبارہ اسلام آباد روانہ کر دیتے ہیں‘ ہم پھر کیا کریں؟ دوسرا ہم ہر سال 6 بلین ڈالر کا کھانے کا تیل منگواتے ہیں جب کہ ہم بڑی آسانی سے ملک میں کارن‘ سورج مکھی‘ کینولا اور سویا بین اگا کر یہ چھ بلین ڈالر بچا سکتے ہیں مگر حکومت ہمیں پلہ نہیں پکڑاتی‘ ہم نے اس دن یہ حقیقت آرمی چیف کے سامنے رکھی اور فوری طور پر یہ فیصلہ ہو گیا۔

حکومت ہمیں زمینیں اکٹھی کر کے دے گی‘ ہم باہر سے کمپنیاں لے کر آئیں گے اور ملک میں کارپوریٹ ایگری کلچر فارمنگ شروع ہو جائے گی‘ سعودی عرب‘ قطر اور یو اے ای اس سیکٹر میں سرمایہ کاری کے لیے تیار ہیں مگر یہ حکومت کے ساتھ کام نہیں کرنا چاہتے‘ یہ بھی ہماری طرح اسٹیبلشمنٹ سے گارنٹی مانگتے ہیں اور ہم نے یہ حقیقت اس دن بتائی‘ بالکل اسی طرح مائننگ اور آئی ٹی میں بھی بے تحاشا پوٹینشل ہے اور چین اور عرب ممالک ان سیکٹرز میں بھی سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں مگر ملک میں سیاسی استحکام نہیں ہے لہٰذا کام کیسے ہوگا؟“۔

 میں نے پوچھا ”آپ کی آرمی چیف سے ملاقات کا کیا فائدہ ہوا؟“ یہ ہنس کر بولے ”بہت فائدہ ہوا۔بزنس مین کمیونٹی کے اعتماد میں اضافہ ہوا‘ پنجاب حکومت نے 45267 ایکڑ زمین اکٹھی کر کے فوج کے حوالے کر دی‘نوٹی فکیشن جاری ہو چکا ہے‘ ہم اب اس زمین پر غیرملکی کمپنیوں کے ساتھ جوائنٹ وینچر کریںگے‘ زراعت ترقی کرے گی اور ہم کم از کم اجناس میں خود کفیل ہو جائیں گے اور اس سے اربوں ڈالر کا سرمایہ بچے گا“ میں نے پوچھا ”عمران خان کا ایشو کیا ہے؟“ یہ ہنس کر بولے ”یہ بہت جلد دوسروں کی باتوں میں آ جاتے ہیں“۔

مزید :

قومی -