افلاطون نے سقراط کی شاگردی کی خوب لاج نبھائی ، نظریات اس قدر گڈ مڈ ہیں کہ تمیز کرنا مشکل ہے کہ کونسا نظریہ سقراط کاہے اور کون سا افلاطون کا

 افلاطون نے سقراط کی شاگردی کی خوب لاج نبھائی ، نظریات اس قدر گڈ مڈ ہیں کہ ...
 افلاطون نے سقراط کی شاگردی کی خوب لاج نبھائی ، نظریات اس قدر گڈ مڈ ہیں کہ تمیز کرنا مشکل ہے کہ کونسا نظریہ سقراط کاہے اور کون سا افلاطون کا

  

مصنف:لطیف جاوید

قسط:20

افلاطون(Plato ) 

افلاطون ایتھنز کے ایک امیر گھرانے میں پیدا ہوا۔اس کے بچپن کے دور میں ایتھنز سیاسی بد امنی کا شکار تھا،ہر سو قتل عام ہورہا تھا۔اِس سے افلاطون سخت نالاں تھا ،اکثر تنہائی میں پڑا رہتا۔افلاطون نے کریٹی لس سے ہراقلی تس کا فلسفہ پڑھا۔افلاطون کے ایک چچا زاد بھائی اور ایک ماموں سقراط کے دوست تھے ،انہوں نے افلاطون کو سقراط سے ملایاتو اِس نے سقراط کی شاگردی اختیار کر لی۔پھر سقراط کی موت تک اس کے ساتھ رہا اور اس کے فلسفے سے استفادہ کیا۔ بعد میں افلاطون نے کچھ سفر بھی کئے۔ اے اقلیدس اور فیثاغورث سے ملنے کے مواقعے بھی ملے۔سسلی کے سفر کے دوران کچھ عرصہ وہاں کے حکمران ڈائیونی سس اوّل کے دربار میں رہا۔بادشاہ کے ظالمانہ روئیے پر تنقید کرنے پر وہ خفا ہو گیا اور افلاطون کو ایسے شخص کے حوالے کر دیا ،جس نے اسے بیچ دیا ،لیکن افلاطون کے ایک چاہنے والے نے اِسے خرید کر آزاد کر دیا۔ دوبارہ گرفتاری سے بچنے کے لئے وہ بھاگ کر واپس ایتھنز آگیا۔

 ایتھنزآکر اس نے ایک جم خانہ میں اکیڈمی کھولی۔در اصل یہ باغیچہ نما جم خانہ افلاطون کے جس مہربان دوست کی ملکیت تھا اس کا نا م اکیڈیماس(Academas) تھا،جس سے اِس درسگاہ کا نام اکیڈمی پڑ گیا اور چھا گیا ،کیونکہ آج بھی سطح زمین پر تعلیمی درسگاہ کو اکیڈمی کہا جاتا ہے۔اِس اکیڈمی میں افلاطون نے فلسفہ ،ریاضی ، سائنس ، فلکیات، سیاسیات اور کئی دیگر علوم پر لیکچر دینا شروع کر دئیے۔دور دراز سے لوگ یہاں تعلیم حاصل کرنے آتے۔ارسطو بھی اِسی اکیڈمی کا شاگرد تھا۔اِس اکیڈمی کویورپ کی پہلی یونیورسٹی کہا جا سکتا ہے۔ اکیڈمی کے قیام کے بعد افلاطون زیادہ تر ایتھنز میں ہی رہا۔ دوسری بار ڈائیونی سس دوئم کی حکمرانی کے دور میں سسلی گیا۔ بوگس نظریات پر تنقید کی وجہ سے بادشاہ افلاطون کی جان کا دشمن بن گیا۔افلاطون کوچوری چھپے بھاگ کر ایتھنز آنا پڑا۔پھر یہ تمام عمر ایتھنز میں ہی رہا۔

۰ نظریات 

افلاطون کے نظریات اور تعلیمات وہی ہیں جو سقراط کے تھے۔ افلاطون نے سقراط کی شاگردی کی خوب لاج نبھائی ، وہ تمام عمر سقراط کے فلسفیانہ فکر و نظر پر نہ صرف قائم رہا بلکہ انہیں آگے بھی بڑھایا۔ افلاطون کے مکالمات میں سقراط اور افلاطون کے نظریات اس قدر گڈ مڈ ہیں کہ تمیز کرنا مشکل ہے کہ کونسا نظریہ سقراط کاہے اور کون سا افلاطون کا ذاتی ہے۔افلاطون نے سقراط سے اِس قدر اختلافات نہیں کئے جس قدر ارسطو نے افلاطون سے کئے ہیں۔ فلسفی ہونے کے علاوہ افلاطون ادیب بھی تھا ،مکالمات کے مطالعہ سے یہ بات بخوبی عیاں ہوتی ہے۔ افلاطون نے فلسفہ ،ریاضی ، فلکیات، فزکس ، سیاست ، منطق، علم ، انسانیات ، اخلاقیات پر خوب لکھا۔ کم و بیش 28 کتب، مکالمے اور مقالہ جات کی شکل میں تحریر کئے ،گو کہ اِ ن کے بعض مضامین نامکمل بھی رہ گئے تھے۔ یہ کام اتنا وسیع ہے کہ اِس کتاب میں ان کی تفصیل بتانا ممکن نہیں۔ طبیعیات کے متعلق افلاطون کے نظریات کو غیر اہم سمجھا جاتا ہے۔

 افلاطون کے حسب ِ ذیل نظریات کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔

۰ نظریہ مثالی ریاست (Theory of Ideal State ) اِس میں ایک مثالی ریاست کا نظریہ پیش کیا گیا ہے۔

۰ نظریہ امثال(Theory of Ideas) اِس نظریہ میں عقل اور حواس کی حقیقت پر بحث کی گئی ہے۔

۰ نظریہ حیات ِ ابدی(Immorality of Human soul) اِس میں انسانی روح کو حقیقی اور ابدی ثابت کیا گیا ہے۔

۰ نظریہ موجودات (Theory of Existance) یہاں اشیاءکے ظاہری اور خفیہ پہلوپر بحث کی گئی ہے۔

۰ نظریہ علم Theory of Knowledge) (اِس میں بتایا گیا ہے کہ علم کا مقصد ہے کہ وہ فطری کائنات اور انسانی کائنا ت کا مطا لعہ کرے۔ 

۰ نظریہ اخلاق(Theory of Moral ) اِس میں اخلاقیا ت پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔

برٹرینڈ رسل نے افلاطون کے نظریات کو بہت جامع انداز میں پیش کیا ہے۔ اِن کی تفصیل جاننے کے لئے ان کی کتاب ” History of Western Philosophy“ کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ اور اِسی طرح پروفیسر نعیم احمدکی کتاب ’ تاریخ فلسفہ یونان ‘ بھی بہت بہتر رہنمائی کرتی ہے۔ ( جاری ہے )

نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔

مزید :

ادب وثقافت -