میکلوڈ روڈ نہ صرف کراچی بلکہ پاکستان کی معاشی شہ رگ تھا،بہت ہی مصروف شاہراہ تھی ، ہر وقت ہا ہا کار مچی رہتی

میکلوڈ روڈ نہ صرف کراچی بلکہ پاکستان کی معاشی شہ رگ تھا،بہت ہی مصروف شاہراہ ...
میکلوڈ روڈ نہ صرف کراچی بلکہ پاکستان کی معاشی شہ رگ تھا،بہت ہی مصروف شاہراہ تھی ، ہر وقت ہا ہا کار مچی رہتی

  

 مصنف: محمد سعید جاوید

قسط:51

فرئیر روڈ اس کے بعد پوری رفتار سے بھاگا چلا جاتا تھا اور بہت آگے جا کر یہ اپنے آپ کو ریلوے روڈ کے حوالے کرکے اپنی شناخت کھو بیٹھتا تھا ۔ یہ ریلوے روڈ پچھلی تمام بڑی سڑکوں کی طرح حسب روایت دائیں طرف مڑ کر تو بندر روڈ سے جا ملتا تھا اور بائیں طرف کراچی کی دوسری مشہور سڑک میکلوڈ روڈ کو عبور کرکے کراچی کے بڑے اور آخری ریلوے اسٹیشن کی طرف چلا جاتا تھا ۔

 بندر روڈ پر چڑھنے سے پہلے ایک چکر میکلوڈ روڈ کا بھی لگا لیں جو نہ صرف کراچی بلکہ پاکستان کی معاشی شہ رگ تھا ۔ یہاں تقریباً تمام ملکی اور غیر ملکی بینکوں کے مرکزی دفاتر ہوتے تھے۔اس کے علاوہ اور بھی بڑے کاروباری ادارے، شپنگ کمپنیاں اور درآمدی اوربرآمدی دفاتر قائم تھے ۔ کراچی کی یہ بہت ہی مصروف شاہراہ تھی ، جہاں ہر وقت ہا ہا کار مچی رہتی۔ ان دفاتر میں کام کرنے والے ملازمین کے لیے قرب و جوار کی گلیوں میں کافی چھوٹے بڑے ریسٹورنٹ بھی تھے، جہاں کھانے کے اوقات میں بہت رونق رہتی تھی ۔

میکلوڈ روڈ اپنے سفر کا آغاز ”کچہری روڈ “( ڈاکٹر ضیاءالدین روڈ ) سے کرتا تھا اور خراماں خراماں چلتی میری ویدر ٹاور کے پاس بندر روڈ سے آن ملتا تھا۔ اس پرقائم اہم عمارتوں میں سٹیٹ بینک ، نیشنل بینک اور حبیب بینک کے علاوہ کئی اور بینکوں کے مرکزی دفاتر کے علاوہ غیر ملکی بینک اور انشورنس کمپنیاں بھی تھیں۔ 

حبیب بینک پلازہ کی جب تعمیرمکمل ہوئی تو یہ پاکستان کی سب سے اونچی عمارت تھی۔ اس کی 22 منزلیں تھیں ۔ میں نے اپنی بینکنگ کی تربیت یہیں سے حاصل کی تھی، اس لیے اس کی جزئیات کا پوری طرح علم ہے ۔ اسی سڑک پر سٹیٹ بینک کی وہ تاریخی عمارت بھی موجود تھی جس کا افتتاح قائد اعظم محمدعلی جناح نے اپنی وفات سے کچھ ہی عرصہ قبل کیا تھا ۔نیشنل بینک کا خوبصورت مرکزی دفتر بھی اسی سڑک پر تھا ، جس کے ساتھ سے ہی اندر سڑک مڑتی ہے جو قریب ہی قائم سٹی اسٹیشن کو جاتی تھی ۔ 

میری ویدر ٹاور میکلوڈ روڈ اور بندر روڈ کے سنگم پر واقع تھا ۔یہ ٹاور کوئی 100 فٹ اونچا تھا اور بہت ہی مصروف چوک پر واقع تھا جہاں سے شہر کی تقریباً ہر سمت جانے والی بسیں مل جاتی تھیں۔جب یہ ٹاور کوئی 100 سال پہلے بنا ہو گا تو بڑا خوبصورت ہوتا ہو گا مگر آج کل کے کثافتی ماحول اور دھویں میں رہ کر یہ بھی مٹیالا سا ہو گیا تھا۔یہ گوئتھے اسٹائل میں بنی ہوئی کلاک ٹاور نما عمارت تھی جس پر چاروں طرف بڑے گھڑیال لگے ہوئے تھے۔ ان کی سوئیاں مدتوں سے اپنے اپنے مقام پر ثابت قدمی سے کھڑی تھیں۔ شایدانہوں نے اپنے اوپر ہلنا جلناحرام کرلیا تھا ۔بلدیہ والوں نے بھی انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا تھا ۔

جیسا کہ نام سے ظاہر ہوتا ہے، محکمہ موسمیات کے انگریز افسر اس کی آخری منزل پر چڑھ کر چاروں طرف دیکھ کر اور سمندر کی لہروں سے موسم کا کوئی اندازہ لگایا کرتے ہوں گے مگر اب تو اس کی حیثیت محض ایک تاریخی عمارت کے سوا کچھ بھی نہیں تھی ۔ ابتدائی دنوں میں تو یہ ٹاور کھلا رہتا تھا اور جس کا جی چاہتا چھلانگ مار کر چبوترے پر چڑھ جاتا۔ اکثر لوگ تو اس کے اندر بھی چلے جاتے اور کچھ منچلے تو آس پاس کا نظارہ لینے کی خاطر سیڑھیوں سے بالائی منزلوں پر بھی جا چڑھتے تھے ۔میں نے بھی یہ عمارت اندر سے دیکھی ہوئی ہے ۔

یہ بات ذہن میں رہے کہ ہم میکلوڈ روڈ کا مختصر راستہ اپنا کرسیدھے اس ٹاور تک آن پہنچے ہیں ،لیکن ہمارا اصلی ہدف بندر روڈ کو دےکھنا ہے۔ لہٰذا واپس اسی مقام پر چلتے ہیں جہاں سے ہم نے راستہ تبدیل کیا تھا، یعنی ریگل چوک جو ٹریفک کے بہاﺅ اور دوسری سرگرمیوں کی بناءپر صدر کا بڑا ہی مصروف علاقہ تصور ہوتا تھا۔ ( جاری ہے ) 

نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے ۔ ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں )

مزید :

ادب وثقافت -