گوروں کے سامنے تھوڑا سا دکھاوا کیا جائے تو وہ کچھ بھی خرید لیتے ہیں،سب کالے نوکر ہونے کیساتھ ساتھ ماہر نفسیات بھی تھے

مصنف : میلکم ایکس( آپ بیتی)
ترجمہ :عمران الحق چوہان
قسط :28
بریڈ ڈوک ہوٹل اپالو کی پشت پر تھا اور اس کا شراب خانہ مشہور سیاہ فام شخصیتوں کی وجہ سے مشہور تھا۔ میں وہاں گیا اور میں نے وہاں ڈیزی جلیسی، بلی اکسٹائن، بلی ہالی ڈے، ایلاءفٹزجیرالڈ اور دیناواشنگٹن کو دیکھا۔ جب دینا اپنے دوستوں کے ساتھ وہاں سے جا رہی تھی تو میں نے سنا کہ وہ سیواے بال روم جا رہی ہے جہاں لائنل ہمپٹن آ رہا تھا۔ دینا اس کے گروپ میں گلوکارہ تھی یہ بال روم بوسٹن کے مقابلے میں بہت اعلیٰ درجے کا تھا۔ میں نے ایک دو بار مقامی لڑکیوں کے ساتھ رقص بھی کیا وہاں پر کچھ گورے بھی آئے ہوئے تھے۔ جن میں سے زیادہ تر کالوں کا رقص دیکھنے آئے تھے لیکن چند گوروں نے رقص بھی کیا اور بوسٹن کی طرح کچھ سفید فام عورتوں نے بھی کالوں کے ساتھ رقص کیا۔ سب لوگ ہمپ سے تقاضا کر رہے تھے کہ وہ اپنا مشہور گانا "Flyin' Home" گائے اور بالآخر اس نے وہ گیت سنایا(مشہور ہے کہ ایک بار اپالو میں ایک نشہ باز کالے نے یہ گانا سن کر یہ سمجھتے ہوئے کہ وہ اڑ سکتا ہے دوسری منزل کی بالکونی سے چھلانگ لگا دی اور اپنی ٹانگ تڑوا بیٹھا۔ بعد میں اس واقعہ پر ارل ہائنز نے ”’سینڈ بالکونی جمپ“ کے نام سے دھن بنا کر اسے امر کر دیا) میں نے اس قسم کا آتش بجاں رقص پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ایک دو گیتوں کے بعد دینا واشنگٹن گیت گانے کے لیے آئی جب اس نے ”سالٹی پاپا بلیوز“ گایا تو محسوس ہوا جیسے سیوائے کی چھت اڑ جائے گی(کچھ عرصہ قبل جب دینا مری تو تقریباً بیس ہزار پرستاروں نے اس کا آخری دیدار کیا۔ ہم بہت اچھے دوست تھے)
جس رات کا تذکرہ میں کر رہا ہوں وہ روائیتی جمعرات تھی جس میں گھروں میں کام کرنے والی نوکرانیاں اور نوکر چھٹی مناتے تھے اسے "Kitchen Mechanics Night" کہا جاتا تھا۔ اس رات عورتوں کی تعداد مردوں سے دو گنا لگتی تھی نہ صرف گھریلو ملازم بلکہ فوج اور دفاع کے ملازموں کی بیویاں بھی بڑی تعداد میں موجود تھیں۔ تنہا اور رفاقت کی متلاشی جب میں رقص گاہ سے باہر سڑک پر نکلا تو ایک طوائف کو تلخی سے یہ کہتے سنا کہ”ان اناڑیوں نے ہم پیشہ وروں کے کاروبار کا بیڑہ غرق کر دیا ہے۔“
”لی نکس“ اور سیونتھ اور ایٹتھ ایوے نیو کے آس پاس کا ہارلم ایک”ٹیکنی کلر بازار“ تھا۔ سینکڑوں کالے فوجی اور ملاح دکھائی دیتے تھے ان دنوں یہ علاقہ سرکاری طور پر گوروں کے لیے ممنوعہ تھا۔ کئی بار لوٹ مار کے واقعات ہو چکے تھے اور کئی گورے ملازم علاقہ میں مردہ پائے گئے تھے۔ پولیس ادھر آنے والے گوروں کی حوصلہ شکنی کرتی تھی مگر پھر بھی آنے والے آ جاتے تھے۔ ہر تنہا مرد طوائفوں کی توجہ کا مرکز بن جاتا۔ دلال قریب آ کر سرگوشی کرتے”ہر طرح کی عورتیں مل سکتی ہیں جیک۔ کوئی سفید عورت چاہیے۔“ چل پھر کر چیزیں بیچنے والے گاہک کو گھیر لیتے۔”100 ڈالر کی انگوٹھی، اصلی ہیرا، چلو90 ڈالر دو، ساتھ گھڑی بھی ملے گی ایک نظر دیکھ تو لیں۔ اچھا دونوں کے 25ڈالر دے دیں۔“
2 سال بعد میں ان سب کو سبق سکھا سکتا تھا مگر اس رات میں اس منظر سے مسحور ہوگیا تھا۔ میں اسی دنیا کے لیے بنا تھا۔ اس رات میں نے ہارلم کا باسی بننے کا آغاز کر دیا۔ میں نیویارک کے انتہائی بدکار Hustlers میں سے ایک بننے والا تھا۔ جو کچھ میں نے اس رات دیکھا سنا مجھے اس پر اعتبار نہیں آ رہا تھا۔ میری آرزو تھی کہ ”ایلاء“ سے میرے تعلقات ذرا بہتر ہوتے تاکہ میں اسے یہ سب بتانے کی کوشش کرتا لیکن”شارٹی“ سے میں نے بات کی اور اسے ”بگ ایپل“ میوزک ورلڈ دیکھنے پر اکسایا۔ صوفیہ نے میری گفتگو سنی اور کہا کہ میں نیویارک کے علاوہ کہیں مطمئن نہیں رہ سکتا۔ وہ ٹھیک کہتی تھی ایک ہی رات میں نیویارک ہارلم نے مجھے نشہ سا کر دیا تھا۔
جس آدمی کی جگہ میں نے نوکری کی تھی اس کی واپسی کا امکان بہت کم تھا۔ میں ٹرین میں سنیڈوچز، کافی میٹھی گولیاں، کیک اور آئس کریم بیچتا، مجھے یہ بات سیکھنے میں ایک ہفتہ بھی نہیں لگا کہ اگر گوروں کے سامنے تھوڑا سا دکھاوا کیا جائے تو وہ کچھ بھی خرید لیتے ہیں اور یہ بات وہاں ہر کالے کو علم تھی کہ تھوڑی سی مظلومیت ظاہر کرکے بڑی ٹپ(TiP) اینٹھی جا سکتی ہے۔
ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے تھے کہ جہاں سب کالے نوکر ہونے کے ساتھ ساتھ ماہر نفسیات بھی تھے۔ انہیں خبر تھی کہ گورے اتنے خود نگر اور خود پسند ہیں کہ وہ توجہ اور تفریح کے لیے بعض اوقات ضرورت سے زیادہ رقم بھی خرچ کر دیتے ہیں۔
( جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔