دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہے اگر۔۔۔

   دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہے اگر۔۔۔
   دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہے اگر۔۔۔

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان کی قومی قیادت نے دہشت گردی کے خلاف ایک دفعہ پھر متحد ہو کر متفقہ بیانیہ جاری کیا ہے کہ  ملک سے دہشت گردی کے عفریت کا مکمل خاتمہ ناگزیر ہے اور یہ کہ اس مقصد کے حصول کے لیے تمام وسائل اور صلاحیتیں بروئے کار لائی جائیں گی۔ قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کے ایک روز پہلے ہونے والے اجلاس کا جو اعلامیہ جاری کیا گیا، اس میں دہشت گردی کی حالیہ کارروائیوں کی مذمت کی گئی اور انسداد دہشتگری کے لیے قومی اتفاق کی ضرورت پر زور دیا گیا جبکہ یہ بتایا گیا کہ سیاسی و عسکری قیادت نے دہشت گردی کو تمام شکلوں میں ختم کرنے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لانے اور ہر آپشن استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اعلامیہ کے مطابق کمیٹی نے کہا کہ ایک مضبوط اور مربوط حکمت عملی کے تحت قومی سلامتی کو یقینی بنایا جائے اور دہشت گردوں کے سہولت کاروں کا خاتمہ ممکن بنانے کے لیے مربوط اور منظم حکمت عملی بنانا ہو گی۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی ملک کے لیے ناسور بن گئی ہے، ہم یہاں دہشت گردی کے مسئلے کا حل نکالیں گے، ہم آخری دہشت گرد کی موجودگی تک ان کا پیچھا کر کے، ان کا قلع قمع کریں گے۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے اجلاس سے خطاب میں کہا کہ ملک کی سلامتی سے بڑھ کر کوئی ایجنڈا، تحریک اور شخصیت نہیں ہے جبکہ پائیدار استحکام کے لیے قومی طاقت کے تمام عناصر کو ہم آہنگی کے ساتھ کام کرنا ہو گا۔ پاک فوج کے سربراہ نے اس امر پر بھی زور دیا کہ بہتر گورننس اور مملکت پاکستان کو ہارڈ سٹیٹ بنانے کی ضرورت ہے، پاکستان کے تحفظ کے لیے یک زبان ہو کر اور اپنے سیاسی اور ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر ایک بیانیہ اپنانا ہو گا۔

یہ بڑی اچھی اور خوش آئند بات ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سول اور فوجی قیادت میں مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے کچھ اقدامات بھی فوری طور پر ہوتے نظر آتے ہیں، مثلاً وفاقی وزیر ریلوے حنیف عباسی کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں تمام ٹرین آپریشنز کے لیے ڈرون سرویلنس شروع کی جائے گی جبکہ صوبے اور ملک کے دیگر حصوں میں ریلوے سٹیشنوں اور دیگر حساس مقامات پر سی سی ٹی وی کیمرے بھی نصب کیے جا رہے ہیں تاکہ مزید سکیورٹی کو یقینی بنایا جا سکے۔ اسی طرح پاکستان نے دہشت گردوں کے تعاقب میں افغانستان میں کارروائیوں کے اشارے دے دیے ہیں۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ دشمنوں کے پیچھے کسی بھی ملک میں جانا پڑے تو جائیں گے۔ انہوں نے واضح کیا کہ افغان حکومت کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشت گردوں کی سرپرستی کر رہی ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اعلیٰ فوجی اور سول قیادت میں جو اتفاق رائے پیدا ہوا ہے اسے برقرار رکھا جائے اور دہشت گردوں کے خاتمے کے سلسلے میں جو کاروائیاں شروع کی گئی ہیں ان کی شدت میں دہشت گردوں کے مکمل خاتمے تک کمی نہ آنے دی جائے۔ میرے قارئین کو یاد ہو گا کہ آج سے کم و بیش 10 سال پہلے 2014ء میں بھی دہشت گردوں نے پشاور میں آرمی پبلک سکول پر حملہ کر کے ڈیڑھ سو کے لگ بھگ افراد کو شہید کر دیا تھا۔ آج 2024ء میں ٹرین کو یرغمال بنایا گیا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ 10 سال میں دہشت گردوں کی طاقت کو مکمل طور پر توڑا نہیں جا سکا ہے، اس کیلئے سنجیدہ اور بھرپور کوششوں کی ضرورت ہے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ ہماری قیادت اس سلسلے میں سر جوڑ کر بیٹھی ہے لیکن میرا خیال میں بہت زیادہ سوچ بچار کرنے کی ضرورت اس لیے نہیں ہے کہ ہمارے پاس نیشنل ایکشن پلان 2014ء کی صورت میں ایک لائحہ عمل پہلے سے موجود ہیں، جس پر ایک بار پھر بھرپور طریقے سے عمل درآمد کرنے کی ضرورت ہے۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ اگر اس ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد کر لیا جائے تو ہر قسم کے دہشت گردوں کا خاتمہ یقینی ہو جائے گا۔ اب تک اگر ہماری سرزمین پر دہشت گردوں  اور ان کے سہولت کاروں کا وجود موجود ہے تو اس کا ایک ہی مطلب نکلتا ہے کہ 2014ء میں وضع کیے گئے نیشنل ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد نہیں کیا گیا تھا۔ اب جبکہ پوری قوم ایک بات پھر دہشت گردی کے خلاف متحد ہوئی ہے تو ضروری ہے کہ ان عوامل پر ایک نظر ڈال لی جائے اور ان کے خاتمے کے لیے اقدامات کیے جائیں جو ماضی میں نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کی راہ میں رکاوٹ بنتے رہے۔

ایک محب وطن شہری ہونے کے ناتے دہشت گردی کے خلاف قومی صلاح مشورے میں، میں بھی اپنا حصہ ڈالنا چاہتا ہوں۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کے حوالے سے پڑوسی ممالک سے آنے والے دہشت گردوں اور دہشت گردی کی وارداتیں کر کے واپس فرار ہونے والے شرپسندوں کا سرگرم تعاقب کرنے کی پالیسی پر ضرور عمل کیا جانا چاہیے کہ قومی دفاع سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اگر افغان مہاجرین کی ان کے وطن واپسی کے پروگرام کو تیزی سے پایا تکمیل تک پہنچایا جائے تو نہ صرف نفوذ پذیر (Porous) بارڈر کے آر پار آمد و رفت کو کنٹرول کیا جا سکے گا بلکہ دہشت گردوں کو یہاں جو سہولت کاری ملتی ہے وہ بھی ختم ہو جائے گی اور اس کے نتیجے میں دہشت گردی کی سرگرمیوں پر قابو پانے میں خاصی مدد ملے گی۔ افغان مہاجرین گزشتہ کم و بیش 45 برسوں سے ہمارے ملک میں رہ رہے ہیں۔ اس حقیقت سے دنیا کی کوئی طاقت انکار نہیں کر سکتی کہ 1979ء جب سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تھا تو پاکستانی عوام نے افغان پناہ گزینوں کا کھلے دل و دماغ اور کھلے بازوں کے ساتھ استقبال کیا تھا۔ ہمارے حکام سے غلطی یہ ہوئی کہ انہیں ایک محدود علاقے میں رکھنے کے بجائے پورے پاکستان میں پھیل جانے دیا گیا۔ یہ افغان مہاجرین نہ صرف پاکستان کی معیشت بلکہ معاشرت پر بھی بری طرح اثر انداز ہوئے ہیں۔ اب جبکہ افغانستان میں ان کی ایک حکومت قائم ہو چکی ہے اور گزشتہ تقریباً تین ساڑھے تین برسوں سے کام بھی کر رہی ہے تو ضروری ہے کہ افغان مہاجرین کو ان علاقوں میں واپس پہنچانے کا فوری بندوبست کیا جائے۔ اس کے نتیجے میں انہیں بھی امن اور سکون محسوس ہو گا اور یہ بات خاصے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان میں بھی امن و امان کی صورت حال خاصہ بہتر ہو جائے گی۔ ان شا اللہ

مزید :

رائے -کالم -