ساون کے اندھے

مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کی موجودہ مخلوط حکومت ایک معمہ اورگنجلک مسئلہ ہے،پیپلز پارٹی حکومت میں اپنے جثے سے زیادہ حصہ لے رہی ہے، مگر دعویٰ کرتی ہے کہ وہ حکومت کا حصہ نہیں،اقتدار کے بھر پور مزے لے رہی ہے مگر کوئی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں،بعض اوقات تو یوں لگتا ہے پیپلز پارٹی حکومت کے اندر رہتے ہوئے اپوزیشن ہے،مگر یہ سب ”ٹوپی ڈرامہ“ہے،حکومت کو جب بھی کوئی اہم مسئلہ درپیش ہوتا ہے پیپلز پارٹی ”کچھ لو کچھ دو“کی بنیاد پر اس کی بیساکھی بن جاتی ہے،ہر متنازع قانون سازی میں پیپلز پارٹی نے حکومت کا ساتھ دیکر اسے مقاصد میں کامیاب کیا،البتہ پیپلز پارٹی کی قیادت کو اقلیت میں ہونے کے باوجود اپنی اہمیت کا احساس ہے، لہٰذا وہ ہر مشکل وقت میں حکومت کی مشروط حمائت کرتی ہے،کسی بھی صورت اپنا حصہ وصول کرنے کے بعد ہی حکومت کے فیصلوں،قانون سازی کی حمائت کی جاتی ہے،یوں کہہ لیں کہ پیپلز پارٹی”ایک ٹکٹ میں دو مزے“ لے رہی ہے۔ گزشتہ دِنوں اعلیٰ عہدوں پر بیورو کریٹس کی تعیناتی اور پنجاب میں پوسٹنگ ٹرانسفر کے حوالے سے بھی دونوں حکومتی جماعتوں میں اختلاف نے سر اٹھایا بعدازاں یہ مسئلہ بھی دونوں نے ”مذاکرات“سے حل کر لیا۔
پیپلز پارٹی نے پنجاب کے ان حلقوں میں جہاں پی پی کے نمائندے کامیاب ہوئے تھے وہاں اپنی مرضی کے افسروں کی تعیناتی کا مطالبہ کیا،اعلیٰ عہدوں پر افسر تعینات کرنے کے لئے بھی مشورہ لینے کی بات کی، کہا جا سکتا ہے پیپلز پارٹی نے پنجاب کی انتظامیہ میں باقاعدہ حصہ طلب کیا تھاجس کے جواب میں ن لیگ نے سندھ میں حصہ طلب کر لیا،نتیجے میں اختلاف رائے ہم آہنگی میں بدل گیا، دونوں جماعتیں ایک دوسرے کی کمزوریوں، دلچسپیوں اور خدشات و تحفظات کے ساتھ مطالبات سے بھی پوری طرح آگاہی رکھتی ہیں اس لئے کبھی دونوں میں معاملات اُلجھے نہیں،بلکہ بروقت سمیٹ لئے جاتے ہیں اور انتظامی معاملات،عہدیداروں کی تعیناتی پر تو دونوں میں اتفاق رائے ہو جاتا ہے، مگر سیاسی معاملات میں اہم فیصلوں پر حمائت کے باوجود عوامی سطح پر پیپلز پارٹی حکومت کی مخالفت کرتی دکھائی دیتی ہے۔
کیا اندر سے دونوں جماعتیں ایک ہی ہیں،بس عوام میں اپنی ساکھ بنانے کے لئے انسانی حقوق کے معاملے پر پیپلز پارٹی بظاہر حکومت کی مخالفت کرتی ہے اور درون خانہ مکمل اور بھر پور حمائت کرتی ہے،اور اس لے دے میں اپنے کچھ نہ کچھ مطالبات بھی منوا لیتی ہے،اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ دونوں جماعتیں اس وقت اسٹیبلشمنٹ کی چہیتی ہیں اور اسی کے اشاروں پر اقدامات کرتی ہیں،جو فیصلہ اوپر سے آ گیا اس کی مخالفت کرنے کی کسی میں ہمت نہیں،سیاسی معاملات میں اب بھی کبھی کبھی پیپلز پارٹی حکومت کے اندر رہتے ہوئے اپوزیشن کا رول کرتے دکھائی دیتی ہے،خدا خدا کر کے بیوروکریسی کی تعیناتی کا مسئلہ کسی نہ کسی طور حل ہو گیا حکومتی دعویٰ ہے کہ اب بیورو کریسی کی تقرریاں سیاسی دباؤ کے بغیر ہوں گی،تاہم پیپلز پارٹی نے پنجاب میں اپنے ارکانِ اسمبلی اور جن حلقوں میں اس کے امیدواروں نے 20ہزار سے زائد ووٹ لئے وہاں کے لئے فنڈز کا مطالبہ کیا، جس پر ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا۔
بدقسمتی سے دونوں حکومتی جماعتوں میں اندر کھاتے سیاسی اختلاف موجود ہیں،جیسے ارکان کو فنڈز دینے کا معاملہ اب بھی حل طلب ہے،پیپلز پارٹی نے پنجاب میں نئے لوکل باڈی ایکٹ بل کی بھی مخالفت کی ہے اور اس پر تحفظات کا اظہار کیا ہے،ن لیگی رہنماؤں کا شکوہ ہے کہ پیپلز پارٹی تنقید بھی کرتی ہے اور فنڈز میں حصہ بھی برابر کا مانگتی ہے،پیپلز پارٹی نے قومی اداروں کی نجکاری کی بھی مخالفت کی ہے جس کی وجہ سے نجکاری کا عمل سست روی کا شکار ہے جبکہ بعض ادارے قومی معیشت پر باقاعدہ بوجھ بن چکے ہیں،تاہم یہ اہم نوعیت کا مسئلہ اختلافات کا شکار ہے،پیپلز پارٹی نے ”پیکا ایکٹ“ کی بھی مخالفت کی، مگر اس کی منظوری کے لئے ووٹ بھی دئیے،اگر چہ پیکا ایکٹ کسی بھی طرح جمہوری اقدام نہیں،ایک اطلاع کے مطابق پاور شیئرنگ پر اختلافات کے خاتمہ کے لئے کمیٹی بنا دی گئی ہے،جس سے انتظامی نوعیت کے مسائل حل کرنے میں مدد ملے گی مگر سیاسی مسائل پر اختلاف شاید دونوں کی ضرورت ہے اِس لئے ان کے حل پر کسی نے کوئی توجہ نہیں دی۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) میں اختلافات کی اڑتی گرد کو ہمیشہ دونوں جماعتوں میں دراڑ سمجھا گیا، حالانکہ ”ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ“بازی گر قو م کو مسلسل بیانات کے زور پر دھوکہ دے رہے ہیں،محسن نقوی کو پیپلز پارٹی کے حمائت یافتہ ذکا اشرف کی جگہ پی سی بی کا سربراہ لگانے پر بھی گرما گرمی دیکھی گئی، مگر ن لیگ کی تعیناتی پر قبولیت کا ٹھپہ لگانا پڑا کہ یہ تعیناتی کہیں اور سے ہوئی تھی،پیپلز پارٹی کو ہمیشہ زعم رہا کہ اس کے 45ارکان کی حمائت کے بغیر شہباز شریف وزیر اعظم نہیں بن سکتے تھے،اب بھی دونوں پارٹیوں کا مطمع نظر آئندہ الیکشن ہے،دونوں اقتدار میں رہ کر عام انتخابات میں کامیابی کی راہ ہموار کر رہی ہیں،اس لئے یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ دونوں کا حکومت میں رہنا وقت کی ضرورت ہے اِس لئے دونوں میں سے کسی کے حکومت سے الگ ہونے کا بظاہر کوئی امکان نہیں،یہ واضح ہے کہ دونوں اگلے الیکشن میں اپنے اپنے پلیٹ فارم سے الگ الگ الیکشن میں زور آزمائی کریں گی،تا ہم عمران خان کے خوف سے پنجاب میں بعض نشستوں پر مشترکہ امیدوار لانے کی کوشش کی جائے گی،آج بھی ”حکم حاکم“کے علاوہ عمران خان کی دشمنی دونوں میں واحد قدر مشترک ہے،یہی خوف دونوں کو اقتدار میں رکھے ہوئے ہے، مگر دونوں بلا شرکت غیرے حکمرانی کے حصول کے لئے بھی اپنی سی کوشش میں مصروف ہیں۔
اقتدار و اختیار نہ ہو تو دونوں جماعتوں کی قیادت کا ملک میں سکونت اختیار کرنا ہی ممکن نہ ہو،مشترکہ دشمن نے دونوں کو ایک پلیٹ فارم اور ایک حکومت میں متحد کر دیا، مگر دونوں کے دِل میں ایک دوسرے کے خلاف بغض عناد، خدشات،تحفظات آ ج بھی ہیں،دونوں اب بھی بے یقینی کا شکار ہیں،یہی وجہ ہے کہ عوام کے دیرینہ مسائل پر کسی کی توجہ نہیں،سیاسی معاملات دن بدن کٹھن اور پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں،مگر ان کے دیرپا حل کا کسی کو ہوش نہیں،ہر ایک کی خواہش غلبہ ہے اور اسی کے لئے ہر کوشش بروئے کار لائی جا رہی ہے،اسی کے لئے اقدامات ہو رہے ہیں،پولیس نظام آج انتہائی برے حالات سے دوچار ہے، مگر حکمران جانتے بوجھتے پولیس ریفارمز لانے میں تساہل سے کام لے رہے ہیں کہ ان کی حکومت ہی پولیس کی بیساکھی پر کھڑی ہے،ضلعی انتظامیہ منتشر ہے، جس کے باعث عوام کے چھوٹے چھوٹے مسائل بھی گمبھیر ہو رہے ہیں،نظام انصاف بھی عوام کو آسانی فراہم کرنے سے قاصر ہے لیکن اس طرف پیپلز پارٹی کی توجہ ہے نہ مسلم لیگ ن کی،سب ساون کے اندھے ہیں،جنہیں ہر طرف ہریالی دکھائی دے رہی ہے،حکومت جتنی مرضی مضبوط کرلیں،جمہوریت کے لبادے میں آمریت نافذ کر دیں مگر جب تک انتظامی، سیاسی اور معاشی نظام وقت کے تقاضہ کے مطابق نہیں ہو گا ثبات کا تصور حماقت ہو گا۔
٭٭٭٭٭