کچھ دیر درگاہ پربیٹھے آ نکھیں بند کیے سکون لیتے رہے، گھر پہنچے تو آدھی رات بیت چکی تھی،اگلی شام لاہور روانہ ہونا تھا،یاد کرکے حیران ہی رہ جاتا ہوں

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:114
ہم نے یہاں فاتحہ پڑھی کچھ دیر سرکار کی درگاہ پربیٹھے آ نکھیں بند کیے سکون لیتے رہے۔ واپس صلو کے گھر پہنچے تو آدھی رات بیت چکی تھی۔ اگلی شام ہمیں لاہور روانہ ہونا تھا۔
میں زیب انساء سٹریٹ سے اپنی چھوٹی بہنوں کے لئے کل ایک سو اسی(180) روپے میں ایک ایک سوٹ جبکہ والدہ کے لئے ایک عدد جوتی پہلے ہی خرید چکا تھا۔والدہ اور بہنوں کے لئے زندگی میں پہلی بار کی گئی شاپنگ بہت پسند کی گئی تھی۔ کیا سستا زمانہ تھا۔یاد کرکے میں خود بھی حیران ہی رہ جاتا ہوں۔
یکم جنوری 79ء کو روانہ ہو کر ہم 2 جنوری کی صبح لاہور پہنچے لیکن اس بار سفر انکل وزیر ثانی کے بک کرائے گئے22 مسافروں والے ریل کے ڈبہ میں کیا تھا۔ 2 جنوری کی صبح لاہور پہنچے تو لاہور کی ٹھنڈ ی سرد فضا نے گلے لگایا۔ رکشے میں اکبر کو رائل پارک اس کے گھر ڈراپ کرکے ماڈل ٹاؤن پہنچا تو رکشے والے کو 5 روپے کرایہ ادا کرکے بھی میری جیب میں باپ کے دئیے گئے ہزار روپے میں سے بیس پچیس روپے باقی تھے۔ اس دور میں پیسوں میں برکت بھی بہت تھی۔
یہ تھی میری پہلی کراچی یاترا کی کہانی۔ اس کے بعد کئی دھائیاں تک کراچی نہ جا سکا۔ آخری بار اپنے عزیز دوست نعیم دھوریہ کے ساتھ شاید 2010ء میں کراچی گیا تھا جہاں ہمیں کنسٹرکشن کا ایک پراجیکٹ شروع کرنا تھا۔ کراچی بدل ہی چکا تھا۔ میں تو کوشش کے باوجو کوئی بھی جگہ پہچان نہ سکا تھا۔اس بار میرا قیام نیوی میس میں تھا۔ وہاں یاور حفیظ کو اپنی آمد کی اطلاع دی۔ وہ کہیں قریب ہی رہتا تھا۔ شام کو آیا تو ہم نے ”بار بی کیو ٹو نائیٹ“ پر انتہائی لذیز ڈنر کیا تھا۔
بسکٹ فیکٹری ساہیوال میں؛
یاور حفیظ کی قیادت میں خواجہ ببلی، راشد عثمان، اکبر خاں، ندیم غوری، ضیاء محیی الدین،عمران سعید، ثاقب گل،وغیرہ پر مشتمل کرکٹ ٹیم جس میں بھی شامل تھا ایک میچ کھیلنے بسکٹ فیکٹری ساہی وال گئی تھی۔ ناقص منصوبہ بندی کے تحت ہم رات دیر سے ساہی وال پہنچے تو ہمارے میزبان کہیں گم تھے۔ بڑی مشکل سے وہ ٹریس ہوئے اور ایک تھرڈ کلاس ہوٹل میں رات بس کرنی پڑی۔ تنگ، بد بو دار اور گندے کمرے جہاں سونا تو درکنار بیٹھنا بھی امتحان تھا۔ یہ اس قدر گندے تھے کہ اپنے کمرے سے اکبر کو استعمال شدہ فرنچ لیدر(ایف ایل) ملا۔ وہ جھاڑو کے تیلے پر اسے لٹکائے سب کو دکھاتا رہا تھا۔ ہم میں سے زیادہ تر نے یہ پہلی بار دیکھا تھا۔ جب ہوٹل والوں کو اس کی شکایت کی تو وہ بڑی ڈھٹائی سے بولے؛”ایسا یہاں اکثر ہوتا ہے جی۔“ ایسے میں یہاں نیند کا آنا ناممکن تھا۔ سبھی رات بھر تاش کا کھیل رنگ کھیلتے رہے تھے اور کچھ رنگ میں بھنگ ڈالتے رہے۔
اگلے روز بسکٹ فیکٹری کی شاندار گراؤنڈ میں بڑا تگڑا میچ ہوا تھا۔ ضیاء نے زندگی کی بہترین اننگز کھیلتے ستر(70) رنز بنائے تھے۔(کالج کی پڑھائی کے بعد ضیاء نے بینک جوائن کیا۔ کہتے ہیں اس کی ریٹائرمنٹ پر بینک والوں نے بھی خوشی منائی تھی۔ریٹائر منٹ کے سال بھر بعد ہی وہ اس جہاں فانی کو چھوڑ گیا۔وہ ہنس مکھ، زندہ دل اور یار دوست تھا۔ کہا کرتا تھا؛ ”گھر وچ ساڈے حکم ای چلد اے۔ کوئی نہ منے تے اسی اپی کھانا پکا لینداں ان۔“ اس کا انتقال سخت گرم اور حبس کے موسم میں ہوا تھا لیکن تد فین کے وقت پر باران رحمت برسی، ایسی ٹھنڈی ہوا چلی جس کا اس روز تصور ہی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ریٹائیر منٹ کے بعد وہ 5 وقت کا نمازی ہو گیا تھا۔ اللہ ہی جانتا ہے کون کیا ہے؟ اللہ اس کے درجات بلند کرے۔آمین۔)راشدعثمان، ندیم غوری اور میری باؤلنگ کی وجہ سے ہم بسکٹ فیکٹری کی سٹار سڈڈ ٹیم کو ہرانے میں کامیاب ہوئے تھے۔ اسی شام لاہور روانگی تھی۔ نیند میں ڈوبتے گرتے پڑتے لاہور پہنچے تھے۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔