پشتونخواملی عوامی پارٹی کی تاریخی پیش رفت

پشتونخواملی عوامی پارٹی کی تاریخی پیش رفت
پشتونخواملی عوامی پارٹی کی تاریخی پیش رفت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پشتونخواملی عوامی پارٹی کے سیاسی سفر کا عینی شاہد ہوں....سب جانتے ہیں کہ خان عبدالصمد خان اچکزئی شہید 1956ءسے نیشنل عوامی پارٹی میں شامل تھے اور خان شہید کی پارٹی ورور پشتون تھی، انہوں نے اپنی پارٹی کونیپ میں ضم کردیا، پھر 1970ءتک پہنچتے پہنچتے 15 سالہ سیاسی رفاقت ختم ہوگئی۔ خان عبدالولی خان سے خان شہید کے اختلافات ون یونٹ کے خاتمے اور بلوچستان کے نام سے نئے صوبے کی تشکیل پر ہوئے۔ خان شہید کا موقف تھا کہ بلوچستان کے نام سے جو صوبہ جنرل یحییٰ خان بنانے چلے ہیں، وہ تاریخی طورپر درست نہیں ہے، لیکن عبدالولی خان بلوچوں کو ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے، اس لئے انہوں نے خان شہید کو کہا کہ اس مرحلے پر برٹش بلوچستان کو صوبہ سرحد کے ساتھ شامل کرنے کے حق میں نہیں ہوں، آپ بلوچوں کے ساتھ رہیں۔ یوں اس مسئلے پرخان شہید اور ولی خان کی نیپ سے علیحدگی ہوگئی۔ خان عبدالصمد خان شہید کاموقف تاریخی طور پرتھا کہ برٹش بلوچستان کے پشتون کبھی بھی ریاست قلات اور بلوچ ریاستوں کے ماتحت نہیں تھے، بلکہ ان کی حیثیت خودمختا رتھی اور پشتون بلوچ ریاستوں کے باجگزار نہیں تھے۔
جنرل یحییٰ خان سے خان شہید نے کوئٹہ میں ملاقات کی اور نیپ سے ہٹ کر علیحدہ ملے۔ اتفاق سے ہم طالب علم رہنما بھی جنرل یحییٰ خان سے ملاقات کے لئے موجودہ گورنر ہاﺅس میں گئے تھے اور وہاں دیکھا کہ خان شہید اکیلے بیٹھے ہوئے تھے، جنرل یحییٰ خان سے ملاقات کے منتظر تھے۔ نواب بگٹی شہید، نواب خیربخش مری اور سردارعطاءاللہ خان مینگل نے نیپ کے قائدین کی حیثیت سے جنرل یحییٰ سے ملاقات کی اور ون یونٹ توڑنے کا مطالبہ کیا۔ بلوچستان کے بہت ہی کم لوگوں کو معلوم ہے کہ اس ملاقات کے نتیجے میں نواب بگٹی اور نیپ کے درمیان دراڑپڑنے کا آغاز ہوا، جب یحییٰ خان سے ملاقات کاذکر بگٹی سے کیا تو انہوں نے پہلی بار مجھے بتایا کہ میرا اختلاف نیپ سے پہلی بار کب ہوا اور یہ میرے لئے انکشاف تھا....فی الحال اس کو صرف نظر کرتے ہوئے پشتونخوا بننے کے تجربے پر محدود رہنا چاہتا ہوں۔گورنر ہاﺅس مےں خان شہید کے راستے نیپ سے علیحدہ ہوگئے اور نواب بگٹی شہید کے راستے کی جدائی کا آغاز بھی گورنر ہاﺅس میں جنرل یحییٰ خان سے ملاقات کے بعد ہی ہوگیا۔
قارئین محترم! یہ بھی بہت کم لوگوں کو علم ہوگا کہ جب 1979ءمیں جنرل ضیاءالحق بلوچستان کے دورے پر آئے اور گورنر ہاﺅس میں نواب خیر بخش مری، سردارعطاءاللہ مینگل اور میرغوث بخش بزنجو سے مشترکہ ملاقات کی تو اس ملاقات کے بعد جب یہ محترم قائدین باہرنکل رہے تھے تو نواب مری، سردار مینگل کی راہیں میر غوث بخش بزنجو سے جدا ہونے کا مرحلہ شروع ہوگیا تھا۔ بات چل نکلی تھی تو اس کا بھی ذکر کردیا، آج کی نوجوان سیاسی سوچ رکھنے والی نسل، جس کے ہاتھ میں سیاست ہے، وہ ان واقعات سے بالکل بے خبر ہے۔ اس سیاسی خلیج نے خان شہید کو الگ پارٹی بنانے پرمجبور کردیا۔ ایک لحاظ سے نیپ کے قائدین نے خان شہید کو نیپ سے علیحدگی کی راہ بھی جبراً دکھائی، یہ بڑی زیادتی تھی۔ خان شہید اپنے تاریخی موقف سے دستبردار ہوجاتے یا نرم رویہ اختیار کرلیتے تو تاریخ میں پشتونخوا کا وجود ہی نہ ہوتا۔
تاریخ کے بعض فیصلے بالکل نیا نقشہ ترتیب دیتے ہیں۔ پشتونخوا نیپ کے قائدین کے رویے کی وجہ سے وجود میں آئی۔ نیپ کے قائدین کا خیال یہ تھا کہ خان عبدالصمد خان اچکزئی علیحدہ ہوئے تو ان کی سیاسی موت واقع ہوجائے گی، لیکن خان عبدالصمد خان ایک فولادی عزم والے انسان بن کر سامنے آئے۔ جیل کی طویل قید نے انہیں بہت مضبوط اعصاب والی شخصیات میں ڈھال دیا تھا۔ یوں نیپ سے علیحدگی کے بعد خان شہید کا نیا سفر شروع ہوا۔ پشتون قائدین نیپ ولی خان سے علیحدہ ہوگئے،پھر یہ تھوڑے عرصے کے لئے خان عبدالصمد کے ساتھ چلے، بعد میں الگ ہوگئے۔ خان شہید کے لئے یہ انتہائی خطرناک صدمہ تھا جو ان کے دوستوں نے پہنچایا، ان میں سے چار افراد نے خان شہید کے خلاف پریس کانفرنس کی اور اعلان کیا کہ ہم نے خان عبدالصمد خان کو پارٹی سے نکال دیا ہے، اس اخبار کی کٹنگ میرے پاس طویل عرصہ تک موجود تھی بعد میں کہیں کھوگئی، مگر مَیں ان کے نام جانتا ہوں۔
قارئین محترم، موجودہ پشتونخواملی عوامی پارٹی کے ماضی کے سفر کا ایک طائرانہ جائزہ لیا ہے تاکہ ہم تاریخ کو بھلا نہ دیں۔ خان شہید کا موقف پشتونستان تھا اور جب پارٹی کی امامت نوجوان فرزند محمودخان اچکزئی کے سپرد کردی گئی تو ایک نیاسفر شروع ہوا، اب یہ پارٹی پشتونخواملی عوامی پارٹی کے نام سے موجود ہے۔ یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ 1970ءمیں خان شہید کی پارٹی نے قومی اور صوبائی اسمبلی کی کئی نشستوں پر انتخاب لڑا ،مگر تمام پر شکست ہوئی، صرف ایک نشست خان شہید نے جیتی۔ یوں پارٹی کی پارلیمانی سیاست کا آغاز ہوگیا۔ 1973ءمیں خان پر اس وقت حملہ کیاگیا، جب وہ اپنے گھر میں محو خواب تھے اور بم دھماکے کے نتیجے میں وہ ابدی نیند سوگئے۔ گھر کے روشندان سے بم پھینکا گیا۔ بھٹو وزیراعظم تھے، اس کے بعد یہ ذمہ داری نوجوان محمودخان کے کاندھوں پر آگئی۔ خان شہید کی نشست پر محمودخان نے انتخاب لڑا اور کامیاب ہوگئے، یوں محمود خان کی سیاست کا آغاز ہوا۔
1977ءکے انتخابات میں محمودخان اور ان کی پارٹی کوئی نشست نہیں جیت سکی۔ پیپلزپارٹی نے پورے ملک میں تاریخی دھاندلی کی، اس کے نتیجے میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت ختم ہوگئی اور انہیں پھانسی کے تختے پر لے جایا گیا۔1977ءکی اسمبلی صرف تین ماہ سے کچھ دن چل سکی، جبکہ 5 جولائی کو جنرل ضیاءالحق نے اقتدار پرقبضہ کرلیا۔ 1985ءمیں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات ہوئے تو محمودخان اچکزئی افغانستان چلے گئے۔ 1988ءمیں واپس آگئے اور انتخابات میں حصہ لیا۔ پارٹی صوبائی اسمبلی میں دو نشستوں پر پارٹی کامیاب ہوئی۔ 1990ءکے انتخابات میں کوئٹہ پی بی 1پر ڈاکٹر کلیم اللہ، پی بی 2 پشین سے عبدالقہار ودان اور پی بی 4 سے عبدالحمید خان اچکزئی نے نشستیں جیتیں۔ 1993ءمیں پی بی 1 سے ڈاکٹر کلیم اللہ، پی بی 7 پشین سے قہار ودان، پی بی 9 پشین سے عبدالحمید خان اچکزئی (مرحوم محمودخان کے چچاتھے) پی بی 11 سے عبیداللہ جان نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔
1997ءمیں پی بی 1کوئٹہ سے عبدالرحیم مندوخیل، پی بی 6 پشین سے سردار غلام مصطفی ترین نے نشستیں حاصل کیں۔ 1970ءمیں بلوچستان میں صوبائی اسمبلی کے ممبران کی تعداد بیس تھی اور ایک نشست خواتین کی تھی۔ 2002ءمیں بلوچستان اسمبلی کی تعداد 65 ہوگئی، 51 نشستیں عام تھیں اور باقی خواتین اور اقلیتوں کی تھیں۔ اس انتخاب میں پشتونخواملی عوامی پارٹی کو ایم ایم اے کی وجہ سے زبردست سیاسی جھٹکا لگا۔ محمودخان اچکزئی کو ایم ایم اے کے مولوی نورمحمد نے22111 ووٹ لے کر شکست دی، محمودخان اچکزئی نے 17240 ووٹ حاصل کئے اور صوبہ میں بمشکل 3 نشستیں حاصل کرسکے، ایک خاتون نشست حاصل کی۔ 2008ءمیں انتخابات کا بائیکاٹ کیا، اے پی ڈی ایم سیاسی پارٹیوں کااتحاد تھا، یوں پشتونخواملی عوامی پارٹی پانچ سال پارلیمنٹ سے باہر رہی، اس عرصے میں نوجوان شخصیت عثمان خان کاکڑ صوبائی صدر کے عہدے پرفائز ہوئے۔ ان پانچ برسوں میں عثمان خان کا کڑ نے اپنی بہترین ٹیم کے ساتھ مسلسل پانچ سال پورے پشتون علاقوں میں پارٹی کومنظم کیا اور اس کے ساتھ نوجوان نصراللہ نے، جو سیکرٹری اطلاعات تھے۔ انتہائی مخلص اور بہترین ورکر کی حیثیت سے کام کیا۔ نوجوان نصراللہ زیرے ہنس مکھ اور انتہائی ملنسار شخصیت کے مالک ہیں۔
عبدالرحیم زیارتوال ،عبدالقہار ودان نے عثمان خان کاکڑ کے ساتھ مل کر کام کیا اور پارٹی کو ایک بہت اچھے مقام پر پہنچایا۔ ان سب کی پشت پر محمودخان اچکزئی کی شخصیت اور رہنمائی موجود تھی۔ پانچ سال کی غیر حاضری کے بعد 2013ءکے انتخابات میں حیرت انگیز کامیابی حاصل کی اور آج دس نشستوں کے ساتھ اسمبلی میں بڑی پارٹی کی حیثیت سے موجود ہے، جنوبی پشتونخوا میں سیاسی شعور اور بیداری میں پارٹی کی قیادت کا اہم کردار ہے، اس کا اعتراف ہر سیاسی سوچ رکھنے والا ذہن کرے گا۔ عثمان کاکڑ نے مولانا عبدالواسع کا زبردست مقابلہ کیا، لیکن جیت نہ سکے، لیکن بہترین صلاحیتوں کی بنیاد پر آج پارٹی کو انتہائی اہم مقام پرپہنچادیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ پارٹی انہیں سینٹ میں ضرور پہنچائے گی اور سینٹ میں ایک بہترین پارلیمنٹرین کی خوبصورت شخصیت کا اضافہ ہوجائے گا، ان کی مدلل تقاریر یادگار ہوں گی۔ عثمان خان کاکڑکو اور جیتنے والے ممبران کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور آخر میں اپنے استاد محترم پروفیسر رضا محمد بڑیچ کو دل کی گہرائیوں سے مبارکبادپیش کرتا ہوں۔ آپ ڈگری کالج میںسیاسیات کے استاد تھے، صوبائی اسمبلی میں ایک اعلی تعلیم یافتہ شخصیت کی موجودگی اسمبلی کے وقار میں اضافے کاباعث ہوگی، پارٹی حکومت میں شریک ہوگی، بس اتنی گزارش ہے کہ سابقہ حکومت کے کرپٹ اور بدعنوان وزراءاور نااہل پارٹیوں کی لوٹ مار اور منافقت سے دامن بچائیں تو قوم پر اور اپنی پارٹی پر احسان ہوگا۔  ٭

مزید :

کالم -