وفاقی اور پنجاب حکومت کے رمضان پیکج
وفاقی حکومت نے دو ارب روپے کے رمضان پیکج کا اعلان کیا تھا جس کے تحت یوٹیلیٹی سٹوروں کے ذریعے اس رقم کی سبسڈائز اشیاءفروخت کی جائیں گی، اب پنجاب حکومت نے بھی 5 ارب روپے کے رمضان پیکج کا اعلان کر دیا ہے۔ جس کے تحت صوبے میں 360 رمضان بازار لگائے جائیں گے۔ جہاں یوٹیلیٹی سٹورز کے سٹال بھی لگیں گے ضروری اشیاءتھوک کے نرخوں پر ملیں گی، اوپن مارکیٹ میں بھی آٹا سستا ملے گا، سحر و افطار کے وقت دو ہزار مدنی دسترخوان بھی لگائے جائیں گے۔ اس پیکج کے تحت برائلر مرغی کا گوشت اور انڈے 15 روپے سستے ملیں گے، اشیائے ضروریہ کے معیار پر سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا اور موثر مانیٹرنگ کی جائے گی۔
رمضان المبارک کے دوران پیکج کی روایت کئی سال پرانی ہو گئی ہے۔ 5 ارب روپے کا پیکج اگر فی الواقعہ عوام تک صحیح سالم حالت میں پہنچ جائے تو اس سے غریب غربا کو بہت فائدہ پہنچ سکتا ہے، لیکن ہرسال اس پیکج کے ساتھ کچھ علتیں بھی در آتی ہیں جن لوگوں کے لئے یہ پیکج شروع کئے جاتے ہیں ان تک ان کے فوائد کماحقہ نہیں پہنچ پاتے اور درمیان میں بہت سے لوگ اس سے ہاتھ رنگتے رہتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ملاوٹی اشیاءکا چلن اس حد تک عام ہو چکا ہے کہ یہ اشیاء یوٹیلیٹی سٹوروں تک بھی پہنچ جاتی ہیں اور ماضی میں ان سٹوروں سے ملاوٹی اور ناقص اشیاءپکڑی جا چکی ہیں، ا س کی وجہ غالباً یہ ہے کہ یوٹیلیٹی سٹوروں کو تھوک کے حساب سے سپلائی کرنے والے سپلائر کسی نہ کسی طریقے سے خریداری کرنے والے حکام سے مل کر ناقص اور ملاوٹی اشیاءسپلائی کرتے ہیں پیکنگ ناقص ہوتی ہے جو ٹرکوں پر مال اتارتے اور چڑھاتے وقت ٹوٹ پھوٹ جاتی ہے پھر یہی مال صارفین کو مڑھنے کی کوشش کی جاتی ہے، ماضی میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جن اشیاءکی رمضان المبارک میں زیادہ طلب ہوتی ہے ان کے ساتھ ساتھ صارفین کو ایسی اشیاءبھی فروخت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جو وہ خریدنا نہیں چاہتے بصورت دیگر انہیں مطلوبہ اشیاءفروخت کرنے سے بھی انکار کر دیا جاتا ہے۔
پنجاب میں رمضان المبارک کے دوران رمضان بازاروں میں سپلائی اور نرخوں کا معاملہ گزشتہ برس بہت بہتر تھا۔ جب تک بازار کھلے رہتے تھے اس وقت تک تمام سٹالوں پر ہر قسم کی اشیاءموجود ہوتی تھیں اور اگر کسی سٹال پر اشیاءختم ہو جاتیں تو بازار کی انتظامیہ فوری طور پر متعلقہ سٹال ہولڈر کو اشیاءلانے کی ہدایت کر دیتی تھی، سخت نگرانی کے اس نظام کی وجہ سے صارفین کو شکایات کا موقع کم سے کم ملا اور جن لوگوں نے شکایت کی اس کا ازالہ بھی موقع پر ہی کر دیا گیا۔ توقع ہے کہ اب کی بار زیادہ بہتر انتظامات کئے جائیں گے۔ اگر سرکاری خزانے سے دی جانے والی اس سبسڈی کے فوائد عام لوگوں تک نہ پہنچ پائیں تو اس کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے اور درمیانی لوگ فائدہ اٹھا کر چلتے بنتے ہیں۔ اس پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
ماضی میں مشاہدہ کیا گیا ہے کہ لوگ سستا آٹا خریدنے کے لئے رمضان بازاروں پر پل پڑتے ہیں، یوں سٹالوں پر رش ہو جاتا ہے اور خریداروں کے ساتھ ناخوشگور صورت حال پیش آتی ہے یہ بہت ہی افسوسناک بات ہے کہ چند روپے سستا آٹا خریدنے کے چکر میں لوگوں کو پولیس کے ڈنڈے کھانے پڑیں انتظامیہ کی کوشش ہونی چاہئے کہ گرمی کے موسم میں روزہ داروں کے ساتھ اس طرح کا برا سلوک نہ ہو، اور انہیں اشیائے خوردنی عزت و احترام کے ساتھ فروخت کی جائیں، صارفین کا بھی فرض ہے کہ وہ بھی سٹالوں پر غیر ضروری رش سے گریز کریں اور صرف اپنی ضرورت کے مطابق اشیا خریدیں۔ سستی اشیاءخریدنے کے لالچ میں غیر ضروری اشیاءنہ خریدیں۔
حکومت پنجاب غریبوں کے لئے جس رمضان پیکج کا اعلان کرتی ہے اس کا بنیادی مقصد ہی غریب طبقات کی بہبود ہوتا ہے، یہ سلسلہ اگر خوش اسلوبی سے انجام پا جائے تو حکومت کے حصے میں بھی نیک نامی آتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہو پائے تو مخالفین ایسے واقعات کو حکومت کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ اس لئے یہ بہت ضروری ہے کہ اس پیکج کی وجہ سے ”نیکی برباد گناہ لازم“ نہ ہو۔ انتظامیہ کے افسروں اور اہل کاروں کو اس کا خصوصی خیال رکھنا چاہئے۔
جہاں تک یوٹیلیٹی سٹوروں کا تعلق ہے یہ سٹور بعض لوگوں کے لئے جلبِ زر کا ذریعہ بن کر رہ گئے ہیں۔ مال سپلائی کرنے والوں کے ساتھ کمیشن طے کئے جاتے ہیں، اور پھر اس کے عوض انہیں ناقص مال سپلائی کرنے کی کھلی چھٹی دیدی جاتی ہے۔ یوں اس سے بھی مطلوبہ مقصد حاصل نہیں ہو پاتا، یہ سٹور جس مقصد کے لئے قائم کئے گئے تھے یعنی غریبوں کو معیاری اشیاءکی مناسب نرخوں پر فراہمی، وہ نگاہوں سے اوجھل ہو چکا اور کچھ اعلیٰ حکام کی کمائی کا ذریعہ بن چکا، ان سٹوروں پر ملازمین بھی سفارشی بھرتی کئے جاتے ہیں جن میں سے بیشتر اپنی ڈیوٹی پر حاضر نہیں ہوتے اور دوسرے ملازموں کے ساتھ مک مکا کر کے اِدھر اُدھر غائب ہو جاتے ہیںاور صرف تنخواہیں وصول کرتے ہیں، اس رجحان کی بھی حوصلہ شکنی کی جانی چاہئے۔
ایک اور پہلو کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے بددیانت تاجر رمضان المبارک سے پہلے اشیائے خوردو نوش کی ذخیرہ اندوزی کر کے قیمتیں بڑھاتے رہتے ہیں۔ رمضان میں جو اشیاءزیادہ استعمال ہوتی ہیں۔ اُن کے نرخ بھی پہلے سے بھی بڑھا دیئے جاتے ہیں تاکہ رمضان میں ان سے استفادہ کیاجائے، افطاری کے وقت چھوٹے سے چھوٹے دکاندارنے بھی گاہکوں کی مجبوری سے فائدہ اٹھانے کا رویہ اپنا لیتے ہیں اور من مانے نرخ وصول کرتے ہیں، یہ طرز عمل رمضان کے مبارک مہینے سے لگا نہیں کھاتا لیکن بد قسمتی سے ہمارے ہاں یہ معمول بن گیا ہے۔ اس کا حل صرف انتظامی نگرانی سے ممکن نہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ گاہک بھی ایسی اشیاءخریدنے سے گریز کریں جو بلا وجہ مہنگی فروخت ہوتی ہیں اگر چند دن تک گاہک ایسا کریں تو دکاندار بھی قیمتیں کم کرنے پر مجبور ہوں گے اور اگر گاہک قیمتوں کی پروا کئے بغیر خریداری کرتے رہیں گے تو دکاندار بھی من مانی کرتے رہیں گے۔ دیکھا گیا ہے کہ رمضان کے شروع کے دنوں میں یہ رجحان زیادہ ہوتا ہے اور ہفتہ عشرہ کے بعد قیمتیں کم ہونا شروع ہو جاتی ہیںپھر عید کے موقع پر دوبارہ بڑھتی ہیں ۔ پنجاب حکومت سے توقع ہے کہ جس نیک مقصد کے لئے 5 ارب کا رمضان پیکج منظور کیا گیا ہے وہ حاصل ہوں، اور حکومت کے حصے میں نیک نامی آئے، مطلوبہ مقاصد حاصل نہ ہوئے تو بھی خزانے سے رقم تو خرچ ہو ہی جائے گی مگر غریبوں کے پلے کچھ نہیں پڑے گا، اور فائدہ وہ لوگ اٹھا لے جائیں گے جو ایسے مواقع کی تاڑ میں رہتے ہیں۔