بگرام جیل سے رہا ہونیوالے پاکستانیوں سے امریکی فوجی کی معذرت
کابل/اسلام آباد(اے این این )افغانستان کی بگرام جیل میں ناکردہ جرم کی نوسال قیدکاٹنے والے پاکستانی عمران نے کہاہے کہ اگرچہ رہائی کے موقع پر ایک امریکی فوجی افسر نے ان سے کہاتھاکہ ہم بے گناہ قیدرکھنے پرآپ سے معافی چاہتے ہیں تاہم نو سال میں نے اذیت میں گزارے، ہر وقت پنجروں کے اندر رہتے تھے،نہ پیٹ بھر کھانا نصیب ہوا نہ چین کی نیند، بہت سے پاکستانی ذہنی مریض بن چکے ہیں ،محض معافی مانگ لینے سے ناانصافی کا ازالہ نہیں ہو سکتا ،ادھرکابل میں امریکی سفارتخانے کے ترجمان نے کہاہے کہ وہ غیر ملکی قیدیوں کی واپسی کے لیے متعلقہ اداروں کی مدد سے مناسب راستہ تلاش کر ر ہاہے ۔ برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق پاکپتن کے ایک گاو¿ں میں فاطمہ گذشتہ ساڑھے تین برس سے اپنے بھائی کے گھر رہ رہی ہیں۔ ان کے میاں ایک کمپنی کے ساتھ مختلف شہروں بورنگ کا کام کرتے تھے۔ ایک دن وہ کام کے سلسلے میں چمن گئے اور پھر واپس نہیں آئے۔ کئی ماہ فاطمہ اپنے میاں کی تلاش میں دربدر ہوتی رہیں اور پھر چھ ماہ بعد انھیں انٹرنیشنل کمیٹی آف دی ریڈکراس کی جانب سے ایک خط موصول ہوا جس میں انھیں بتایا گیا کہ ان کے میاں افتخار اس وقت بگرام جیل میں قید ہیں۔۔ فاطمہ کے شوہر پر الزام کیا ہیں، یہ تو انھیں معلوم نہیں، تاہم ان کے شوہر کی قید نے انھیں دو وقت کی روٹی کے لیے بھی رشتے داروں کا محتاج بنا دیا ہے۔ فاطمہ کو اطلاع ملی ہے کہ بگرام سے ان کے میاں اور نو دوسرے قیدیوں کو رہا کر دیا گیا ہے لیکن وہ ہیں کہاں انھیں کچھ معلوم نہیں ۔ یہ کہانی صرف فاطمہ کی نہیں۔ بگرام کی جیل میں اب بھی 24 پاکستانی قید ہیں۔ بگرام میں قید پاکستانیوں کی رہائی کے لیے کوشش کرنے والے ادارے جسٹس پراجیکٹ پاکستان کی ڈائریکٹر بیرسٹر سارہ بلال کہتی ہیں کہ ہمیں زیادہ امید نہیں ہے کہ سب پاکستانی قیدی امریکہ کے افغانستان سے انخلا سے پہلے رہا ہو سکیں اور اگر وہ رہا نہ ہو سکے تو انھیں افغان حکام کے حوالے کیا جاسکتا ہے۔