ڈی جی ایکسائز نے لگثرری گاڑیوں پر عائد ٹیکس کے واجبات کا قانون ختم کر دیا
لاہور(شہباز اکمل جندران/انویسٹی گیشن سیل پنجاب اسمبلی کی منظوری سے قبل ہی ڈائریکٹر جنرل ایکسائز اینڈٹیکسیشن پنجاب نے لگثرری گاڑیوں پر عائد ٹیکس کے واجبات کا قانون بیک جنبش قلم ختم کردیا۔فنانس ایکٹ 2010کے تحت محکمے کو نادہندہ لگژ ری گاڑیوں سے ٹیکس وصولی کا پابند ٹھہرایا گیا۔ لیکن نسیم صادق نے حکومت کو سمری ارسال کئے اور پنجاب اسمبلی کی طرف سے قانون کے خاتمے کے بغیر ہی صوبے بھر کی تمام موٹر رجسٹریشن اتھارٹیوں کو تحریری طورپر حکم دیا ہے کہ وہ نادہندہ گاڑیوں سے لگثرری ٹیکس کی وصولی کی بجائے ، گاڑی مالکان کے دیگر مسائل نمٹائیں۔ادھر صوبائی وزیر ایکسائز اینڈٹیکسیشن پنجاب میاں مجتبیٰ شجاع الرحمن کا کہنا ہے کہ اسمبلی کے بنائے گئے قانون کا خاتمہ یا اس میں رد وبدل بھی اسمبلی ہی کرسکتی ہے۔ معاملے کا جائزہ لیا جائیگا۔ معلوم ہواہے کہ پنجاب حکومت نے فنانس ایکٹ 1997کے ذریعے ملک بھر میں ایسی تمام لگثرری گاڑیوں پر لگثرری ٹیکس عائد کیا جو 30جون1994کے بعد رجسٹرڈ ہوئیں۔ اس سلسلے میں دو ہزار سی سی کے انجن کی حامل لگثرری گاڑیوں پر 2لاکھ روپے، جبکہ اس سے زائد طاقت کے حامل انجن کی گاڑیوں پر 4لاکھ روپے لگثرری ٹیکس عائد کیا گیا۔ پھرفنانس ایکٹ 2000کے تحت یہ ٹیکس ختم کردیا گیا۔ لیکن فنانس ایکٹ2008کے تحت ایک با ر پھر سے یہی ٹیکس عائد کردیا گیا۔ اور دو ہزار سی سی کے انجن کی حامل لگثرری گاڑیوں پر 2لاکھ روپے، جبکہ اس سے زائد طاقت کے حامل انجن کی گاڑیوں پر 3لاکھ روپے لگثرری ٹیکس عائد کیا گیا۔اور قرار دیا گیا کہ یہ ٹیکس جون 2005کے بعد رجسٹرڈ ہونے والی تمام لگثرری گاڑیوں سے وصول کیا جائیگا۔ اور2010تک محکمے نے لگ بھگ تین ہزار سے زیادہ گاڑیوں سے کروڑوں روپے بطور لگثرری ٹیکس وصول کئے۔فنانس ایکٹ 2010کے تحت ایکبار پھر سے یہ ٹیکس ختم کردیا گیا۔لیکن محکمے کو پابند کیا گیا کہ نادہندہ لگثرری گاڑیوں سے ٹیکس کی وصولی کی جائیگی۔ ذرائع کے مطابق پنجاب بھر میں تاحال سینکڑوں لگثرری گاڑیوں کے مالکان نے ٹیکس ادا نہیں کیا۔ جن میں بڑی تعداد لاہور میں رجسٹرڈ گاڑیوں کی ہے۔محکمے کو ان گاڑیوں کے مالکان سے لگثرری ٹیکس کی وصولی کے سلسلے میں ناکامی کا سامنا ہے۔ کہیںگاڑی دوسرے صوبے میں جاچکی ہے۔ تو کہیں خریدار کا کہنا ہے کہ ٹیکس کی ادائیگی پہلے مالک کی ذمہ داری تھی۔لگثرری گاڑیوں کی نادہندگی کے باعث ایسی گاڑیوں کی ٹرانزکشن کا عمل اور ٹوکن ٹیکس کی ادائیگی بھی بند تھی۔ جس پر محکمے نے فیصلہ کیا کہ آڈٹ پیروں سے بچنے کے لیے نادہندہ لگثرری گاڑیوں کے ذمے بقایا جات ختم کرنے کے لیے پنجاب حکومت کو سمری ارسال کی جائے تاکہ فنانس ایکٹ2014کے ذریعے مذکورہ واجبات ختم کئے جاسکیں۔لیکن ڈائریکٹر جنرل ایکسائز اینڈٹیکسیشن پنجاب نسیم صادق نے صوبے کے تمام ایم آر ایز کو تحریری طورپر ہدایات جاری کی ہیں۔کہ ٹوکن ٹیکس و ٹرانزکشن فیس کے حصول کے لیے نادہندہ لگثرری گاڑیوں سے لگثرری ٹیکس کو زیر بحث لائے بغیر ہی ان کی ٹرانسفر اور موٹر وہیکلز ٹیکس کی وصولی کو یقینی بنایا جائے۔حالانکہ اس سے قبل تمام موٹر رجسٹریشن اتھارٹیوں کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ نادہندہ لگثرری گاڑیوں سے لگثرری ٹیکس کی وصولی کے بغیر کسی صورت ان کی ٹرانسفر (ٹرانزکشن ) اور ٹوکن ٹیکس کی وصولی نہ کی جائے۔اس سلسلے میں گفتگو کرتے ہوئے صوبائی وزیر ایکسائز اینڈٹیکسیشن پنجاب میاں مجتبیٰ شجاع الرحمن کا کہنا ہے کہ اسمبلی کے بنائے گئے قانون کا خاتمہ یا اس میں رد وبدل بھی اسمبلی ہی کرسکتی ہے۔ لگثرری ٹیکس کے واجبات کے خاتمے کے لیے پنجاب حکومت کو سمری ارسال کی جائیگی۔اور حکومت کی منظوری کے بعد یہ معاملہ پنجاب اسمبلی کو بھجوایا جائیگا۔اس حوالے سے گفتگو کے لیے صوبائی سیکرٹر ی ایکسائز اینڈٹیکسیشن پنجاب خالد مسعود اور ڈائریکٹر جنرل ایکسائز اینڈٹیکسیشن پنجاب نسیم صادق سے رابطہ کیا گیا لیکن انہوں نے موقف دینے
میں دلچسپی ظاہر نہ کی۔
ڈی جی ایکسائز