ادویات سیکٹر کا بحران

ادویات سیکٹر کا بحران
 ادویات سیکٹر کا بحران

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

انگریز دور میں ادویات کی تیاری اور تقسیم کو ڈرگز ایکٹ 1940ء کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا تھا۔ ڈرگز ایکٹ 1940ء کے تحت جو ڈرگز انسپکٹراور ڈرگز اینا لسٹ تعینات ہوتے تھے، ان کے پاس فارمیسی کی کوئی ڈگری (Degree) نہیں تھی، کیونکہ اس دور میں پاکستان میں فارمیسی ایجوکیشن کا کوئی باقاعدہ وجود نہیں تھا۔1958ء میں پہلی بار ویسٹ پاکستان ڈرگز رولز 1958ء بنائے گئے۔ ان ہی ڈرگز قوانین کے تحت میڈیکل کے کاروبار کو باقاعدہ قانون کے تحت لایا گیا۔ ایسے افراد جن کو ادویات کے نسخے Dispense کرنے کا 4سالہ تجربہ تھا، ان ادویات کی فروخت کے لئے ڈرگز سیل لائسنس نمبر 20اور ڈرگز سیل لائسنس نمبر 21جاری کیا گیا۔ یہ افراد ڈرگز سیل لائسنس ہولڈر تسلیم کئے گئے۔ ان کے پاس کوئی ڈگری یا فارمیسی ڈپلومہ نہیں تھا۔1967ء میں پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار پیشہ فارمیسی کوباقاعدہ طور پر ریگولیٹ کرنے کے لئے فارمیسی ایکٹ 1967ء بنایا گیا۔ فارمیسی ایکٹ بننے کے نتیجے میں پاکستانی یونیورسٹیوں میں فارمیسی ڈگری کی تعلیم کو متعارف کرایا گیا اور فارمیسی ایکٹ 1967ء کے تحت ڈپلومہ ان فارمیسی کی تعلیم کا آغاز کیا گیا۔ فارمیسی ڈگری کی تعلیم کے لئے بنیادی تعلیم ایف ایس سی پری میڈیکل یا بی ایس سی پری میڈیکل قرار پائی، جبکہ فارمیسی ڈپلومہ کے لئے بنیادی تعلیم میٹرک متعین کی گئی۔ اس عمل کے نتیجے میں ملک میں ہزاروں فارمیسی گریجوایٹ پیدا ہوئے۔ جنہوں نے اپنی قابلیت کا لوہا پوری دنیا میں منوایا۔ امریکہ اور برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ملکوں میں پاکستانی فارما سسٹ کو آج تک قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ دوسری کیٹگریBہولڈرز نے بھی A گریڈ فارما سیوٹیکل کی طرح ملک میں میڈیکل سٹورز کے شعبے میں دن رات محنت کی، اس شعبے کو اس قابل بنایا کہ آج ملک کے ہرکو نے میں زندگی بچانے والی ادویات انسانوں کو میسر ہیں۔پسماندہ اور دور دراز علاقوں میں، جہاں ہسپتال یا علاج کی بنیادی سہولتیں میسر نہیں تھیں، وہاں میڈیکل سٹورمالکان اپنی تعلیم تجربے کی بنیاد پر فرسٹ ایڈ کی سہولت آج تک مہیا کرتے آرہے ہیں، جبکہ بہت سے کیٹگریB-ہولڈر ملک سے باہر چلے گئے اور آج قیمتی زر مبادلہ ملک کو کما کر بھیج رہے ہیں۔ ان کیٹگری B-ہولڈرز کی کثیر تعداد آج بھی مڈل ایسٹ کے ممالک میں بطور اسسٹنٹ فارما سسٹ خدمات سر انجام دے رہی۔


وطن عزیز میں فارمیسی کے شعبے کو ملک دشمن عناصر پھلتا پھولتا نہیں دیکھنا چاہتے تھے، چنانچہ ایک مخصوص ٹولے نے 1981ء میں فارمیسی اپرنٹس کی رجسٹریشن پر پابندی عائد کردی اور 1985-86ء میں کیٹگری B- فارمیسی ڈپلومہ امتحان پر مکمل بین لگا دیا گیا۔ ملک کی آبادی قدرتی رفتار سے بڑھ رہی تھی۔ اس دور میں Aگریڈ فارما سسٹ یا تو بیرونِ ملک چلے گئے، جبکہ کچھ نے ملک میں موجود فارما سیوٹیکل مینو فیکچرنگ یونٹ کو ترقی دینے کو ترجیح دی۔ چند A گریڈ فارماسسٹ فارمیسی ایجوکیشن سے منسلک ہوگئے ، جبکہ بقیہ ڈرگز ایڈمنسٹریشن کا حصہ بن گئے۔ بطور ریٹیل فارما سسٹ رجحان کم تھا اور فارما سسٹوں کی تعداد بھی کم تھی ، آج بھی 1967 ء سے لے کر 2017ء تک پنجاب میں رجسٹرڈ A-گریڈ فارما سسٹ کی کل تعداد 7011(سات ہزار گیارہ) ہے ، اس کمی کو آج بھی ہر شہر اور قصبے میں کیٹگری B-ہولڈزر پورا کررہے ہیں۔ بہت سی جگہ کو الیفائڈ ڈسپینسرز خدمات سر انجام دے رہے ہیں، فارمیسی ایکٹ 1967ء کے بعد ڈرگز ایکٹ 1976ء نافذ کیا گیا۔ 1988ء میں پنجاب ڈرگز رولز 1988ء بنائے گئے۔ با اثر طبقے کی نظر اب میڈیکل سٹورز کے کاروبار پر پڑ چکی تھی۔ کیٹگری B-فارمیسی امتحانات پر پابندی عائد کرکے ڈاکٹروں کو اجازت دے دی گئی کہ وہ بغیر لائسنس ادویات کی خرید و فروخت کرسکتے ہیں، یہ دنیا کے کسی خطے میں تھا، نہ آج تک ہے۔1992ء میں کوالیفائیڈ ڈسپنسرز کو ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق ڈرگز Saleلائسنس جاری کرنا شروع ہوگئے، وہ ڈسپنسر جن کو 4سال کا تجربہ تھا، وہ میڈیکل سٹورکا کاروبار کرنے کے لئے اہل قرار پائے۔ اس طرح تقریباً 60ہزار کوالیفائیڈ ڈسپنسروں کو ڈرگز سیل لائسنس جاری ہوئے۔2001ء میں پاکستان کیمسٹ ریٹیلرز ایسوسی ایشن نے کیٹگری B-امتحانات پر پابندی کو ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا۔ سماعت جسٹس عزت مآب علی نواز چوہان نے کی۔ فیصلہ میڈیکل سٹورز کے حق میں آیا۔ڈرگز انسپکٹرز نے بھرپور مخالفت کی۔ فیصلے کے خلاف اپیل مسترد ہوگئی۔ 2003ء میں کیٹگریB- فارمیسی کا امتحان تقریباً 25سال بعد دوبارہ منعقد کرنے کا اعلان ہوا۔ ہائی کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کے لئے ایک الگ امتحان سے گزرنا پڑا۔ بہر حال کیٹگری B- کے امتحانات تاحال جاری ہیں۔ اب باقاعدہ کالج قائم ہو چکے ہیں، جہاں ڈاکٹر آف فارمیسی ، فارمیسی سٹوڈنٹس کو تعلیم دے رہے ہیں۔


2007ء میں ایک بار پھر بدنیتی کی بنیاد پر پنجاب ڈرگز رولز 2007ء بنائے گئے۔ ان رولز کو بنانے کے بڑے مقاصد میں موجود میڈیکل سٹورز کو بتدریج ختم کرکے ان کی جگہ ملکی اور غیر ملکی ملٹی نیشنل سرمایہ داروں کو موجودہ مارکیٹ کو ٹیکنیکل طریقے سے حوالے کرنا تھا۔ 1994ء میں ایک طاقتور حکمران نے ہسپتالوں میں پرائیویٹ فارمیسی چین بناکر اس منصوبے کا آغاز کیا، پھر 1998-1997ء تک ایک دوسرے سرمایہ دار حکمران نے قانون سازی کے ذریعے ہسپتالوں سے باہر فارمیسی چین قائم کرنا چاہیں، لیکن پاکستان کمیسٹ ریٹیلرز ایسوسی ایشن کی طرف سے 1998ء میں صوبہ گیر ہڑتال ہوئی، نہ قانون سازی ہوئی اور نہ ہی فارما مارکیٹ پر قبضے کا خواب پورا ہو سکا۔ 2007ء میں ڈرگز رولز کا محور بھی ملک کا اشرافیہ طبقہ اور حکمران مراعات یافتہ طبقہ تھا۔3اکتوبر 2007ء کو پاکستان کیمسٹ ریٹیلرز ایسوسی ایشن نے میڈیکل سٹورز پر شیڈول -جی کی پابندیوں کے خلاف ایک بار پھر غیر معینہ مدت کے لئے ہڑتال کا اعلان کردیا۔ بعد میں شیڈول-جی کی پابندیوں کو 10سال کے لئے موخر کردیا گیا۔2017ء میں حکومت نے ڈرگز ایکٹ 1976ء میں ترامیم کیں اور ڈرگز رولز 2017ء بنادیئے گئے۔ ان ترامیم کو قانونی شکل دینے سے پہلے نہ تو ریٹیلرز کو اعتماد میں لیا گیا اور نہ ہی مینو فیکچرز یا ہول سیلرز کو۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ ڈرگز پالیسی 2017ء کو فارما سیکٹر کے تمام سٹیک ہولڈرز، یعنی ریٹیلرز، ہول سیلرز اور مینو فیکچرز نے حکومت کی ڈرگز پالیسی 2017ء کو متفقہ طور پر مسترد کردیا ہے۔ مسلسل 90دن مذاکرات کے بعد کوئی نتیجہ تاحال برآمد نہیں ہوا۔ پنجاب کے بعد اسلام آباد اور دوسرے صوبوں میں بااثر طبقہ اس ڈرگز پالیسی کو نافذ کرنے کے لئے راہ ہموار کرنے میں مصروف ہے۔


میڈیکل سٹورز مالکان کی رجسٹرڈ نمائندہ تنظیم پاکستان کیمسٹ ریٹیلرز ایسوسی ایشن کا موقف ہے کہ حکومت جعلی ادویات کے نعرے کی آڑ میں ملک کی 3کھرب روپے سالانہ کی مارکیٹ پر من پسند افراد کو قابض کروانا چاہتی ہے، جس کے نتیجے میں ادویات کے کاروبار پر معاشی اور سیاسی غلبہ ہو جائے گا۔ادویات کی خرید وفروخت پر چند خاندانوں کی اجارہ داری کسی بھی طرح عوام اور ملک کے مفاد میں نہیں۔ادویات کا کاروبار بڑے بڑے فارماسیوٹیکل مگر مچھوں کے ہاتھوں میں جانے سے عوام کی صحت اور جان کو خطرات لاحق ہو جائیں گے۔ موجودہ فارما سیکٹر موجودہ سٹیک ہولڈرز اور میڈیکل سٹور مالکان کی 70سالہ محنت کا نتیجہ ہے، ان کی کئی نسلوں نے اس کاروبار کو آباد کیا، پھر کس قانون کے تحت کوئی ان کو کاروبار سے قانوناً بے دخل کرکے مخصوص افراد کو اس کاروبار پر قابض کرواسکتا ہے۔ دوسری طرف حکومت بار بار جعلی ادویات کانعرہ لگا رہی ہے۔ موجودہ صورت حال میں عوام انتہائی پریشان ہیں، کیونکہ پاکستان کیمسٹ ریٹیلرز ایسوسی ایشن نے 25مئی سے 25جون تک مسلسل ایک ماہ کے لئے میڈیکل سٹور بند کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ اسلام آباد، صوبہ سرحد اور دوسرے صوبوں کے میڈیکل سٹور مالکان میں بھی شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔ ہمارے خیال میں وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف اگر موجودہ بحران کے حل میں ذاتی دلچسپی لیں تو حل عین ممکن ہے۔ پاکستان میں تقریباً 2لاکھ افراد لائسنس کے ذریعے ادویات کا کاروبار کررہے ہیں۔ 2017ء سے پہلے سے جاری شدہ ڈرگز سیل لائسنس ہولڈرز کو موجودہ ڈرگز پالیسی سے مستثنیٰ قرار دے کر بحران کو گھمبیر ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔ اگر کچھ ملکی اور غیرملکی لوگ ادویات کے کاروبار میں آنا چاہتے ہیں، تو ان کی سہولت کی خاطر لاکھوں پاکستانیوں پر خوفناک کاروباری پابندیاں آئین پاکستان کی روح کے منافی ہیں۔

مزید :

کالم -