عالمِ اسلام کا اتحاد اور صدر اردوان

عالمِ اسلام کا اتحاد اور صدر اردوان

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ترک صدر رجب طیب اردوان نے مسلم دُنیا پر زور دیا ہے کہ وہ فلسطینیوں کی حمایت میں عظیم اتحاد کا مظاہرہ کریں، مسلمان ممالک کے رہنما اسرائیلی جارحیت کے معاملے پر اپنے اختلافات ختم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا القدس صرف ایک شہر نہیں، ایک علامت ، ایک امتحان اور ایک قبلہ ہے۔ القدس کے امتحان میں عالمِ اسلام ہی نہیں، پوری دُنیا ناکام رہی، القدس پر قبضے پر خاموشی اختیارکرنے والی اقوام متحدہ ظلم و ستم میں برابر کی شریک ہے۔ ترک صدر نے سوال کیا کہ قبلہ اول کو تحفظ فراہم نہیں کر سکتے تو خانہ کعبہ کے تحفظ پر کس طرح مطمئن ہو سکتے ہیں۔ ترک صدر نے استنبول میں او آئی سی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل دہشت گرد ریاست ہونے کے ثبوت فراہم کر رہا ہے، معصوم انسانوں کے خون کا حساب ایک دن لازمی طور پر عدالت کے سامنے دینا ہو گا، مسئلے کی مذمت،ناراضگی کے اظہار اور چیخنے چِلانے سے کچھ نہیں ہو گا۔ او آئی سی کے اجلاس میں چالیس ممالک کے نمائندے شریک ہیں جن میں صدور اور وزرائے اعظم سمیت کئی ممالک کے اعلیٰ سطح کے وفود شامل ہیں۔
اسرائیل کے قیام کو فلسطینی یوم نکبہ کے طور پر مناتے ہیں،اِس سال بھی جب یہ دن آیا تو فلسطینیوں نے حسبِ سابق اس کی تلخ یادوں کو تازہ کیا، اسی موقع پر امریکہ بھی اپنا سفارت خانہ مقبوضہ بیت المقدس میں منتقل کر رہا تھا، فلسطینیوں کے پُرامن مظاہروں پر اسرائیلی سیکیورٹی فورسز نے سیدھی گولیاں چلائیں اور نشانے لے کر فلسطینیوں کو شہید کیا گیا، جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے،62 فلسطینی شہید اور تین ہزار کے لگ بھگ زخمی ہوئے،اتنے زخمیوں کا علاج بھی مناسب طور پر نہیں ہو سکتا۔ اگرچہ دُنیا کے بہت سے ممالک نے فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کیا، پاکستان میں بھی جمعتہ المبارک کو یہ دن منایا گیا۔ ترکی نے اس معاملے پر غور کے لئے فوری طور پر اوآئی سی کا ہنگامی اجلاس طلب کیا، ترکی دُنیا کا واحد مُلک ہے، جس نے اسرائیلی سفیر کو نکال دیا ہے، حالانکہ ترکی کے ساتھ اسرائیلی رہنماؤں کے تعلقات قیام اسرائیل سے بھی بہت پہلے سے چلے آ رہے ہیں۔ صدر طیب اردوان نے او آئی سی کے اجلاس کے موقع پر پانچ لاکھ ترکوں کی ایک پُرجوش ریلی سے بھی خطاب کیا، یہ دُنیا بھر میں اپنی نوعیت کی واحد بڑی ریلی ہے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ فلسطین کے معاملے پر عالمِ اسلام(بلکہ دُنیا) کی قیادت ترکی نے سنبھال لی ہے اور وہ اس معاملے پر ایسے اقدامات اُٹھا رہا ہے، جو وقت کی ضرورت ہے اور عالمِ اسلام اور دُنیا کو احساس دِلا رہا ہے کہ وہ فلسطینیوں کے معاملے میں اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اقوام متحدہ نے بھی اِس ضمن میں وہ کردار ادا نہیں کیا، جس کی اس سے امید تھی۔
بدقسمتی کی بات تو یہ ہے کہ عالمِ اسلام اِس مسئلے پر متحد و متفق بھی نہیں ہے اور مصر جیسے ممالک فلسطینیوں کے ضمن میں سنگدلانہ رویہ اپنائے ہوئے ہیں، یہ تک کہا جاتا ہے کہ عالمی طاقتوں نے مصری افواج کے ذریعے اخوان المسلمون کے نمائندے محمد مرسی کی حکومت بھی اسی لئے ختم کرائی کہ یہ فلسطینیوں کے بارے میں نرم گوشہ رکھتی تھی، اسرائیل کی سرحد کے ساتھ واقع مصر میں اس طرح کی حکومت یہود نواز قوتوں کو گوارا نہیں تھی، فوج نے صدر مرسی کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا اور کمانڈرانچیف جنرل السیسی نے صدر کا عہدہ بھی سنبھال لیا، اب وہ اسی طرح کے منتخب صدر ہیں، جس طرح کے صدور کرنل ناصر سے لے کر منتخب ہوتے رہے ہیں ان میں محمد مرسی واحد براہ راست منتخب صدر تھے جن کی حکومت کو بمشکل ایک سال تک گوارا کیا گیا، اب اخوان المسلمون کی قیادت سمیت صدر مرسی جیل میں ہیں اور مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ بعض عرب ممالک کی بادشاہتیں مصری صدر سے اسی لئے خوش ہیں کہ اُس نے اخوان رہنماؤں کو جیلوں میں ڈال کر عرب بادشاہتوں کے لئے خطرات کم کر دیئے ہیں، جو مصر میں اخوان کی حکومت مستحکم ہونے کی صورت میں ان عرب بادشاہوں کے اقتدار کے لئے خطرہ بن سکتی تھی۔ مصری صدر السیسی کے اس کردار سے خوش ہو کر سعودی عرب نے مصر کو بھاری مالی امداد بھی دی۔
امریکی صدر ٹرمپ جب سے سعودی عرب کا دورہ کر کے گئے ہیں اور عرب ممالک نے ایران کے خلاف ایسی پالیسی اختیار کی ہے جو امریکہ کو پسند ہے،اس وقت سے سعودی عرب سے ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ فلسطینیوں کو ایک ایسے حل پر آمادہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو امریکہ کو خوش آئے اور امریکہ وہی حل چاہے گا،جس سے اسرائیل نہال ہو جائے،امریکہ نے ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدہ بھی اسرائیل کو خوش کرنے کے لئے ہی ختم کیا،حالانکہ معاہدے کے باقی فریق اس کو جاری رکھنے کے حق میں تھے اور اب بھی وہ اس کے لئے کوشاں ہیں،لیکن اسرائیل کو یہ معاہدہ قطعی طور پر پسند نہیں تھا، اِس لئے صدر ٹرمپ اسے جاری رکھنے کے حق میں نہیں تھے، ایسے میں تصور کیا جا سکتا ہے کہ سعودی عرب مسئلہ فلسطین کا کس قسم کا حل چاہے گا۔ یہی وجہ ہے کہ حال ہی میں ولی عہد شہزادہ محمد اور فلسطینی رہنماؤں کے درمیان بعض امور پر تلخی بھی ہوئی ہے۔
صدر اردوان نے فلسطین کے مسئلے پر عالمِ اسلام کو اتحاد کی دعوت تو دی ہے اور اُن سے متحد ہونے کی اپیل بھی کی ہے، لیکن مسلمان ممالک کے اندر اس وقت جس قسم کی سیاست چل رہی ہے اور جس انداز میں وہ سامراجی قوتوں کے آلۂ کار کا کردار ادا کر رہے ہیں اس سے تو پہلے والا اتحاد بھی قائم رہتا نظر نہیں آتا، نیا اتحاد کیا وجود میں آئے گا۔ سعودی عرب اور ایران کے تعلقات میں بہتری کا دور دور تک کوئی امکان نہیں، ایک سال سے قطر اور سعودی عرب کے تعلقات میں جس خرابی کا آغاز ہوا تھا وہ بھی ابھی تک جاری ہے۔ ایران پر امریکہ کی دوبارہ اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے ایران اور قطر ایک دوسرے کے زیادہ قریب آ گئے ہیں،جس کا مطلب قطر کی سعودی عرب سے زیادہ دوری ہے اِس وقت مسلمان دُنیا میں ایران اور سعودی عرب ہی دو مُلک ہیں جن کے اثرات دوسرے ممالک میں بھی محسوس کئے جاتے ہیں ایسے میں بعض اوقات محسوس ہوتا ہے کہ صدر اردوان کہیں صحرا میں ہی اذان دیتے نہ رہ جائیں۔ بہرحال وہ فلسطین کے مسئلے پر جو قائدانہ کردار سنبھال چکے ہیں وہ تو ادا کرتے رہیں گے،لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ عالمِ اسلام بھی پوری قوت کے ساتھ اُن کی حمایت میں کھڑا ہو، جس کے امکانات بہت زیادہ نہیں ہیں۔

مزید :

رائے -اداریہ -