سونامی کا رُخ تحریک انصاف کی طرف!
کئی برسوں سے عمران خان تحریک انصاف کو عوام کے سونامی سے تشبیہہ دے رہے ہیں،جو بوسیدہ سیاسی نظام کو بہا کر لے جائے گا اور ایک نئے پاکستان کی بنیاد بنے گا۔
سونامی ایک طوفان کا نام ہے اور طوفان کے بعد تو صرف تباہی کے مناظررہ جاتے ہیں،لیکن عمران خان نے اسے تعمیری معنوں میں استعمال کیا ہے۔
کل تک تو تحریک انصاف کے سونامی کا رخ دوسری جماعتوں کی طرف تھا،لیکن اب تحریک خود ایک سونامی کی زد میں ہے، خاص طور پر مسلم لیگ(ن) کے ارکانِ اسمبلی اس طرح تحریک انصاف کی طرف آ رہے ہیں، جیسے سیلابی پانی میں کچے گھروں سے نکلا ہوا سامان آتا ہے۔ کوئی دن جاتا ہے جب مسلم لیگ(ن) کے دو چار ارکان بنی گالہ جا کر تحریک انصاف کا ’’دوپٹہ‘‘ نہ پہنتے ہوں، جسے کپتان اپنے ہاتھوں سے پہناتے ہیں۔ایک زمانے میں مریدوں کو خلعت پہنائی جاتی تھی، چادریں اوڑھائی جاتی تھیں، مگر اب پارٹی پرچم کے رنگوں کا دوپٹہ پہنایا جا رہا ہے۔
مرد و زن کی کوئی تخصیص نہیں، جو شامل ہوا دوپٹہ پا گیا۔ حالت یہ ہو گئی ہے کہ کئی اضلاع خالی ہو گئے ہیں، جھنگ کے سبھی ارکان اسمبلی حلقہ بگوش بنی گالا ہو چکے ہیں، راجن پور میں بھی یہی صورت حال ہے۔
سُنا ہے جہانگیر ترین ایک گڈریئے کی طرح اس مشن پر لگے ہوئے ہیں اور روزانہ اس مشن پر نکلتے ہیں اور شام تک دو چار شکار مار لاتے ہیں۔ یہ کیا مشن ہے اور اس کے آگے چل کر سیاسی اثرات کیا ہوں گے؟ یہ تو وقت ہی بتائے گا،مگر مَیں یہ سوچ رہا ہوں کہ تحریک انصاف جیسی جماعت، جس میں پہلے ہی امیدواروں کی لائن لگی ہوئی ہے،ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے اچھے دِنوں کی آس میں پارٹی کا دامن نہیں چھوڑا، تحریک انصاف کے ساتھ رہے،اُن کی موجودگی میں یہ ریلا کیا رنگ دکھائے گا اور اُنہیں کیسے مطمئن کیا جائے گا؟ اگر جہانگیر ترین تحریک انصاف کے ٹکٹوں کی بوری کندھوں پر اُٹھا کر نگر نگر جا رہے ہیں اور مسلم لیگ(ن) کے ہر ر کن اسمبلی کو تحریک انصاف کے ٹکٹ کی پیشکش کر کے اپنے ساتھ ملا رہے ہیں تو کیا یہ عمل پارٹی میں ایک نئے تنازعے کا باعث نہیں بنے گا؟ ابھی سے یہ آوازیں اُٹھنے لگی ہیں کہ فصلی بٹیروں کو ٹکٹیں دی گئیں تو الیکشن کا بائیکاٹ کریں گے۔ کیا آگے کی طرف بھاگتی ہوئی تحریک انصاف پیچھے بھی مڑ کے دیکھے گی، کیا اس تکنیک سے انتخابات میں کامیابی کی سو فیصد امید رکھی جا سکتی ہے؟
تحریک انصاف ایک سونامی پارٹی تھی، مگر اب جو ارکانِ اسمبلی کی شمولیت کا ایک ریلا چلا ہے تو اس پر کنگ پارٹی کا گمان ہونے لگا ہے۔ یہ گمان چند دن بعد یقین میں بدل سکتا ہے۔
یہ تو آمروں کی ضرورت ہوا کرتی تھی کہ وہ اِدھر اُدھر سے بندے توڑ کر ایک پارٹی بناتے تھے، پھر برائے نام انتخابات کرا کے اُنہیں ایک ڈمی حکومت سونپ دیتے تھے۔
ایک مقبول جماعت کو کیا پڑی ہے کہ وہ بندے توڑنے کا مشن لے کر سیاست کرے اور یہ تاثر دے کہ دیکھو لوگ کتنی تیزی سے تحریک انصاف میں شامل ہو رہے ہیں، جو اس امر کی دلیل ہے کہ 2018ء کے انتخابات میں تحریک انصاف نے کامیابی حاصل کرنی ہے۔ ایسا ہو بھی سکتا ہے، کیونکہ پاکستان میں شخصیات کی اپنے حلقوں میں مضبوط گرفت ہوتی ہے۔
لوگ پارٹیوں سے بالاتر ہو کر انہیں ووٹ دیتے ہیں،مگر سوال یہ ہے کہ اُس تشخص کا کیا بنے گا، جو تحریک انصاف نے اتنے برسوں میں بنایا اور جس میں اس بات کو واضح کیا کہ تحریک انصاف ایک نیا نظام لے کر میدان میں آئے گی، فرسودہ اور کرپٹ نظام کو اکھاڑ پھینکے گی۔
یہ تک کہا گیا کہ عمران خان نوجوان قیادت کو سامنے لانا چاہتے ہیں اور انتخابات میں زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو ٹکٹ دیں گے۔ موجودہ صورتِ حال میں یہ ممکن نظر نہیں آتا۔ آزمودہ کار امیدواروں کی تحریک انصاف میں شمولیت کے لئے جو دوڑ لگی ہوئی ہے، اُس سے تو یہی لگتا ہے کہ تحریک انصاف کے بیشتر امیدوار وہی ہوں گے،جو پہلے بھی اسمبلیوں میں کئی بار جا چکے ہیں۔۔۔ پھر تو یہ اعتراض بھی ہو گا کہ عمران خان پارلیمینٹ میں بیٹھنے والے جن ممبران کو ڈاکو، چور اور لٹیرے کہتے رہے ہیں۔۔۔ پھر وہی لٹیرے اور ڈاکو تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لے کر نیک و پارسا کیسے ہو جائیں گے؟ اب یہ دلیل تو مَیں بھی اکثر دیتا رہتا ہوں کہ جو بھی تحریک انصاف میں شامل ہو رہا ہے، وہ اس نظریے اور ایجنڈے کو مان کر آ رہا ہے،جو عمران خان نے دے رکھا ہے۔ عمران خان چونکہ ایک مضبوط لیڈر ہے، بلیک میل نہیں ہو گا اور کمان کرنی جانتا ہے، اِس لئے جو لوگ شامل ہو رہے ہیں، وہ اُس پر حاوی نہیں ہو سکیں گے۔
کہنے کو یہ بات بڑی خوشنما ہے۔ رجائیت اور امید سے بھری،مگر کیا ہم بھول رہے ہیں کہ بھٹو جیسا مقبول لیڈر بھی بالآخر پارٹی میں موجود جاگیرداروں کے ہاتھوں شکست کھا گیا تھا۔
نہ تو وہ زرعی اصلاحات پر عمل کرا سکا اور نہ ہی اپنی حکمرانی کو منوا سکا، قدم قدم پر مصلحت سے کام لینا پڑا، جس کے باعث عوام سے کئے گئے وعدے پورے نہ ہو سکے۔
جب لوگ منتخب ہو کر اسمبلیوں میں پہنچ جاتے ہیں تو اُن کے طور اطوار مختلف ہوتے ہیں، انہیں اپنے حلقوں میں من مانی سے کوئی نہیں روک سکتا اور انہیں انتظامیہ کو بے بس کرنا بھی خوب آتا ہے۔
اگرچہ عمران خان کا اپنا ایک ایجنڈا ہے اور اُس کے تحت وہ ایک نیا طرزِ حکمرانی متعارف کرانے کا ارادہ رکھتے ہیں، مگر یہ سب کام انہیں پارلیمینٹ کے ذریعے ہی کرنا پڑیں گے۔ اگر پارلیمینٹ میں اُن کی گرفت مضبوط نہیں رہتی اور اُن کے اپنے ارکانِ اسمبلی بھی عدم اعتماد کا مظاہرہ کرتے ہیں تو کوئی ایجنڈا بھی مکمل نہیں ہو سکتا۔۔۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت عمران خان کی مقبولیت ساتویں آسمان پر ہے، سیاسی حالات کچھ ایسے بن رہے ہیں کہ سوائے عمران خان کے اور کوئی امید ہی نظر نہیں آ رہی۔
مسلم لیگ (ن) روز بروز اُلجھتی جا رہی ہے، تو پیپلز پارٹی ابھی تک کوئی ایسا قدم نہیں اٹھا سکی،جو اُسے پنجاب میں پاؤں رکھنے کی جگہ بھی لے دے۔ عوام بھی چاہتے ہیں کہ اس بار تیسرا آپشن استعمال کریں۔ لگتا ہے مسلم لیگ(ن) نے رفتہ رفتہ پنجاب کو فوکس کرنا ہے۔
وفاقی نہیں تو پنجاب حکومت پر مسلم لیگ(ن) ہر قیمت پر اپنا قبضہ برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ دراصل جوڑ یہاں پڑے گا۔ اب پنجاب سے مسلم لیگ (ن) کے ارکانِ اسمبلی بڑی تعداد میں وفاداری تبدیل کر کے تحریک انصاف میں جا رہے ہیں۔ جب اتنی بڑی تعداد میں سیاسی ہجرت ہوتی ہے تو اُس کے منفی اثرات بھی ہوتے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) یہ بھی کہہ سکتی ہے کہ ان ارکانِ اسمبلی کی اپنے حلقوں میں بُری کارکردگی کے باعث ٹکٹ دینے سے انکار کر دیا گیا تھا،اِس لئے وہ پارٹی چھوڑ گئے۔ پھر اس حقیقت کو بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ عوام آزمائے ہوؤں کو دوبارہ آزمانے سے عموماً گھبراتے ہیں، اِن حالات میں تو پوزیشن یہ ہو گی کہ مسلم لیگ(ن) نئے امیدوار میدان میں اُتارے گی، جبکہ تحریک انصاف اُن امیدواروں کو ٹکٹ دے گی،جو پہلے ہی عوام کی نظر میں پرائے ہوں گے۔
عوامی نمائندوں کی کارکردگی گزشتہ پانچ برسوں میں کون سی مثالی رہی ہے، جس کی بنیاد پر یہ کہا جا سکے کہ عوام اس بار بھی انہیں ووٹ دیں گے۔ نجانے تحریک انصاف کی قیادت کو فی الوقت ان پہلوؤں پر توجہ دینے کی فرصت ہے یا نہیں،کیونکہ فی الحال تو اس کی ساری توجہ اس مشن پر ہے کہ زیادہ سے زیادہ منحرفین مسلم لیگ(ن) کو تحریک انصاف میں شامل کیا جائے۔
مسلم لیگ(ن) اگر اپنا بیانیہ بدل لے، محاذ آرائی ترک کر دے، عدلیہ اور فوج کو نشانہ نہ بنائے، تو اُس کی سیاسی ساکھ بڑی تیزی سے بحال ہو سکتی ہے۔
اُس صورت میں نہ صرف اُسے کامیاب سیاسی مہم چلانے میں آسانی رہے گی،بلکہ تحریک انصاف میں شامل ہو کر اُن کا امیدوار بننے والوں کو تنقید کا نشانہ بنا کر عوام کو متوجہ کرنا بھی مشکل ثابت نہیں ہو گا۔حقیقت یہ ہے کہ اس وقت سیاسی منظر نامے پر جو کچھ بھی ہو رہا ہے، اُسے کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے کے لئے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
نواز شریف ایک بڑی اننگ کھیل رہے ہیں، جس کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) سخت دباؤ کا شکار ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس وقت ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ لگا کر عوام کو اپنی طرف متوجہ کیا جا سکتا ہے،لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا بیانیہ وہ قومی اداروں کی ساکھ پر حملہ آور ہو کر استوار کرنا چاہتے ہیں۔اس کھیل میں انہیں ابھی تک کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی،اُلٹا بہت زیادہ نقصان ضرور ہو گیا ہے۔
جس دن انہوں نے مسلم لیگ(ن) کی کارکردگی کو اپنی انتخابی مہم کا حصہ بنا لیا اور اپنی بحالی کی خواہش کو کڑوا گھونٹ سمجھ کر پی گئے، مسلم لیگ(ن) میں نئی جان پڑ جائے گی، مثلاً جتنی بڑی تعداد میں لوگ مسلم لیگ(ن) چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہوئے ہیں،اگر وہ اور شہباز شریف اسی نکتے کو اپنی اپنی انتخابی مہم کا حصہ بنا لیں اور بتائیں کہ اِن لوگوں نے پانچ برسوں میں کتنے فنڈز حاصل کئے اور اُن حلقوں کی حالت کیا ہے، تو شاید انہیں منہ چھپانے کو جگہ نہ ملے۔
ایک بات جو اظہر من الشمس ہے وہ عوام کی وفاداریاں تبدیل کرنے والوں کے لئے ناپسندیدگی ہے۔ مسلم لیگ(ن) عوام کے اس جذبے کو ہوا دے سکتی ہے۔ دوسری طرف مَیں سوچ رہا ہوں کہ جس طرح انٹرا پارٹی الیکشن کے غلط فیصلے نے تحریک انصاف میں حد درجہ انتشار پیدا کر دیا تھا، اب کہیں ٹکٹوں کی تقسیم کے وقت ہڑبونگ نہ مچے۔
کچھ عرصہ پہلے جب عمران خان کی ہدایت پر ممبر سازی مہم شروع کی گئی تھی تو اس میں ایک فارمولا دیا گیا تھا کہ اتنے ممبر بنانے والے کو ٹکٹ کے لئے زیر غور لایا جائے گا۔ اس کے لئے لاکھوں روپے کے ممبر شپ کارڈ بھی جاری کئے گئے تھے۔
اگر مسلم لیگ(ن) سے اسی طرح درآمد شدہ امیدوار آتے رہے تو ان امیدواروں کو کون مطمئن کرے گا، جنہوں نے ممبر سازی کیمپ لگائے، ہزاروں ممبر بنائے، پیسے خرچ کئے اور شب خون کوئی اور مار گیا۔
ابھی تو سب کچھ طوفانی انداز میں ہو رہا ہے، لیکن جب تھوڑا طوفان تھمے گا، گرد بیٹھ جائے گی تو کھلے گا کہ کس نے کیا کمایا اور کیا گنوایا، جو پردے میں ہے سب نمایاں ہو جائے گا۔