روزہ اور ارادہ میں ایسا تعلق جو روح کو جاندار بنا دیتا ہے
ہر روزے دار یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ روزہ ایک مضبوط ارادے کے بغیر نہیں رکھا جا سکتا۔ روزے کی حالت میں انسان صبحِ صادق سے غروبِ آفتاب تک بھوکا پیاسا رہتا ہے ۔ یہ کیفیت اپنے اندر بیک وقت تین چیزیں رکھتی ہے ۔ پہلی یہ کہ انسان اپنی پسند اور خواہش کی چیزوں سے رک جاتا ہے ۔ بھوک میں پیاز اور چٹنی بھی انسان کو لذیذ کھانوں سے بڑ ھ کر محسوس ہوتی ہیں ، مگر روزے دار خود پر قابو رکھتا ہے اور ہر طرح کا کھانا اور مشروبات دسترس میں ہونے کے باوجود ان سے خود کو روکتا ہے ۔ یہ مضبوط ارادے کے بغیر ممکن نہیں ۔
دوسری چیز ضرورت ہے ۔ کھانا پینا انسان کی بنیادی ضرورت ہے جس کے بغیر وہ نقاہت محسوس کرتا اور معمولات کی انجام دہی میں اسے مشکل پیش آنے لگتی ہے ۔ مگر روزے دار اپنی قوتِ ارادی کو استعمال کر کے نقاہت جھیل کر بھی خود کو کھانے پینے سے دور رکھتا ہے ۔ تیسری اور سب سے بڑ ی چیز وہ تکلیف اور اذیت ہے جو بھوک اور پیاس کو برداشت کرنے سے ہوتی ہے ۔ مگر ایک دفعہ پھر روزے دار اپنے ارادے کی مضبوطی کی بنا پر موسم اور بھوک و پیاس کی مشقت اٹھا کر بھی ایک ماہ تک روزے کی عبادت پر ڈٹا رہتا ہے ۔
بدقسمتی یہ ہے کہ ایک ماہ تک اپنی خواہشات، ضروریات اور سخت مشقتوں کے سامنے ڈٹ جانے والا یہ روزے دار رمضان کے فوراً بعد اپنی اس مضبوط قوت ارادی کو بھول جاتا ہے ۔ وہ معمولی نوعیت کے گناہ، خواہشات، شیطانی ترغیبات کا شکار ہوجاتا ہے ۔ تاہم اگر ایک روزے دار رمضان کے مہینے میں یہ فیصلہ کر لے کہ جس قوتِ ارادی کے بل پر اس نے روزے کی مشقت کو جھیلا ہے ، اس کو استعمال کر کے وہ رمضان اور اس کے بعد ہر گناہ چھوڑ دے گا تو بلاشبہ انسان کی قوتِ ارادی کے لیے یہ ایک معمولی بات ہے ۔ اگر رمضان میں یہ بات کسی کو حاصل ہوگئی تو بلاشبہ رمضان میں اس نے جنت کی کامیابی یقینی طور پر حاصل کر لی۔