بیرونی قوتو ں کے حملے ،ملکی سا لمیت اور ہم

بیرونی قوتو ں کے حملے ،ملکی سا لمیت اور ہم
 بیرونی قوتو ں کے حملے ،ملکی سا لمیت اور ہم

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


1988 ءمیں لندن میں ایک پرہجوم پریس کانفرنس ہو رہی تھی۔انگلینڈ کی خاتون وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر سوالات کے جواب دے رہی تھیں۔ اسی دوران ایک صحافی نے سوال کیا، میڈم روس ٹوٹ گیا ہے اب تو یقینی طور پر نیٹو کو ختم ہوجانا چاہیے۔مارگریٹ نے جواب دیا کہ ابھی اسلام باقی ہے اور جب تک اسلام باقی ہے ،سوچوں کے اغوا کا کھیل جاری رہے گا۔ یہ سرد جنگ کا بظاہر اختتام تھا، مگر صلیبی جنگوں کا تسلسل جاری تھا۔یہاں سے امریکہ کے نیو ورلڈ آرڈر نے ایک نیا موڑ لیا۔

امریکہ اور یہودی لابی کو ہمیشہ سے اپنی طاقت کے اختتام کا ایک ہی ممکنہ ڈر نظر آتا ہے اور وہ مسلم ممالک کا اتحاد ہے۔ خلافت عثمانیہ کے ختم ہونے کے بعد جس طرح پوری دنیا کے مسلمانوں کو تیل کے کنوﺅں اور ساتھ شیعہ سنی سمیت مختلف فرقوں میں بانٹا گیا وہ سب تاریخ کے اوراق میں درج ہے۔ روس کے ختم ہونے کے بعد امریکہ کا پرائم ٹارگٹ مسلم دنیا میں موجود وہ ڈکٹیٹر حکمران تھے، جنہیں امریکہ اپنے مقاصد کے لیے خوب استعمال کر چکا تھا، اور ان میں سے اکثریت امریکہ کو آنکھیں دکھانے لگے تھے اور دوسرا ٹارگٹ وہ اسلامی ریاست تھی کہ جو جلد ایٹمی طاقت بننے والی تھی۔ یوں امریکہ نے گوریلا جنگوں کی طرز کی دہشت گردی پوری دنیا پر مسلط کردی۔ اس کا مرکز افغانستان تھا اور یوں یہ پوری دنیامیں پھیل گئی۔ اسی طرح عرب سپرنگ کے نام پر لیبیا،مصر،عراق،شام جیسے ممالک میں حکمرانوں کے خلاف بغاوت شروع کروا دی گئی۔ امریکہ کے پاکستان بھارت اور افغانستان کی وجہ سے قدرے سافٹ حدف تھا۔ پھر یہاں مذہب کے نام پر آگ لگانا بھی آسان تھا، چنانچہ امریکہ اپنے ہی پلان بی کو یہاں آزمانے لگے۔ امریکہ نے اپنے ان طالبان کے خلاف جنگ کا آغاز کردیا جو کبھی روس کے لیے امریکہ نے خود پیدا کیے تھے۔چونکہ اس جنگ میں پاکستان امریکہ کا اتحادی رہ چکا تھا، یہی طالبان رنگ،مذہب ،زبان اور بارڈر کی آڑ میں ایک آمر کی اجازت سے پاکستا ن کے ہر تیسرے گھر میں آبسے تھے۔
ادھر امریکہ نے طالبان کے خلاف جنگ کا اعلان کیا ، ادھر پاکستان کو تورا بورا بنانے کی دھمکی دے دی، اب اسے پاکستان کی بد قسمتی کہیں یا پھر امریکی تھنک ٹینکس کا تحفہ ،پاکستا ن پر پھر آمر کی حکومت تھی ،یو ں وہ جنہیںہم نے گھروں میں بٹھا کے پالا تھا، ہماری انہی سے جنگ کروا دی گئی اور پاکستان میں تاریخ کی بدترین گوریلا جنگ شروع ہوگئی۔ مسلمان مسلمان کو مارنے لگے اور ہماری سالمیت پر حملہ کیا جانے لگا۔ اس طرح جہاں ہم نے ایک طرف امریکہ کے نیو ورلڈ آرڈر میں خود کو بطور شکار پیش کردیا ،وہیں ہم نے اپنے سب سے بڑے دشمن بھارت کو بھی کشمیر کاز کے لیے وہ مجاہدین جو آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے ،دہشت گردوں کے ساتھ ضم کرنے کا موقع دے دیا۔ الغرض ہم ہر محاذ پر ہارنے لگے اور اس کی بنیادی وجہ ایک ہی تھی کہ ہمارا سیاسی ڈھانچہ شدید کمزور تھا، ہم حقیقی جمہوریت سے دور تھے اور آمروں کے ذریعے ایسے حدف حاصل کرنا امریکہ کے لیے بہت آسان تھا۔بلیک واٹر اور نجانے کتنے ایسے چہرے کبھی بیرونی امداد، کبھی زلزلے کے فلاحی کام کرنے والوں کی آڑ میں امریکہ ، دبئی ، بھارت اور اسرائیل سے ہمارے ملک میں گھس آئے۔کلبھوشن یادو جیسے چہروں کی شکل میں بھارت بلوچستان پر الگ ہی کھیل کھیلنے لگا اور ہم ہر طرف سے پھنس گئے۔شمالی اور جنوبی وزیرستان میں عالمی قوتیں اپنے مہرے اتار چکی تھیں یہاں تک کہ سوات جیسے پر امن علاقوں میں بھی دہشت گرد پھیل چکے تھے۔یہ ایک ایسا جال تھا کہ امریکہ کی طرف سے برملا یہ کہہ دیا گیا تھا کہ 2015 ءمیں پاکستان دنیا کے نقشے پر نہیں ہوگا۔ حالات اس سے بھی کہیں آگے جانے کو تیار تھے۔ اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے ان حالات کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے، دہشت گردوں کو بھارت سے بھی بڑا دشمن قرار دیا اور سوات سے دہشت گردوں کی صفائی کے سلسلے کو پورے ملک میں پھیلا دیا۔ یہ وہ وقت تھا جب بھارت کولڈ سٹارٹ کے منصوبے پر کام کررہا تھا کہ پاکستان کو کمزور کرتے جاﺅ اور جب موجود شام جیسی صورتحال ہوجائے تو حملہ کردو۔ سب بدتر ہوتا جارہا تھا، مگر دفاعی اداروں نے نہ صرف انٹیلی جنس کو مضبوط رکھا ، بلکہ دہشت گردوں کو بھی ٹھکانے لگایا۔
سائنسدانوں نے میزائیل ٹیکنالوجی میں مزید اہداف حاصل کیے اور پاک فوج آپریشن ضرب عضب سمیت کئی کامیابیاں سمیٹتے ہوئے تاریخ میں پہلے بار سب سے بڑی گوریلا جنگ جو یہاں موجود ہ شام جیسے حالات پیدا کرنے کے لیے پھیلائی جارہی تھی، جیت لی اور پاکستان بہت بڑی تباہی سے بچ گیا۔ پاکستان میں ستر سال سے وڈیرانہ ، جاگیردارنہ ، آمرانہ نظام پر مبنی جو آمرانہ جمہوریت چلتی آرہی ہے،اس میں موجود کمزوریوں نے یقیناً آمروں کو جمہوریت پر سب خون مارنے کا موقع دیا ہے اور اسی وجہ سے اپنا کیا خاندان اور اشرافیہ کے نظام پر راج کرنے والے حاکم ، ملکی سلامتی کے ستونوں پر ڈالنے کی کوشش بھی کرتے آئے ہیں۔ مگر کیا ہم یہ سب ملکی سلامتی کی قیمت پر برداشت کرنے کو تیار ہیں؟ منظور پشتین جیسے چند چہروں اور پھر انہی کی طرز کے چند سیاست دان اگر اس بغاوت کو ہوا دے رہے ہیں ،جس نے شام کو راکھ کر ڈالا ہے ،تو کیا ہم ایسے ہونے دیں گے۔ شام میں عرب سپرنگ سے متاثر ایک تیرہ سالہ لڑکے نے بشار الاسد کی فوج کے خلاف چند نعرے لکھے تھے، اور پھر فوج نے اس لڑکے کو اٹھا لیا اور بدلے میں نکلنے والے جلوس پر فائرنگ کے نتیجے میں پورے ملک میں خانہ جنگی چھڑ گئی۔ مگر جہاں ایسا کرنے سے پہلے وہ لڑکا یہ بھول گیا تھا کہ بشار الاسد کی فوج ،اس کے ملک کی فوج بھی ہے اور سرحدوں کی محافظ بھی ہے، اسی طرح عوام شیعہ سنی میںتقسیم ہوتی اپنی ہی فوج کے خلاف اس پلان پر کھڑی ہوگئی جس پلان کے تحت آج پشتین جیسے کردار پاکستان کی عوام کے ذہنوں میں زہر گھول رہے ہیں۔اسی طرح سوشل میڈیا پر حیران کن طور پایا جانے والا مواد جس طرح لوگوں کے ذہن تبدیل کرنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے وہ سب ہولناک حد تک خطرناک ہے ۔ ہمیں یہ بات جاننا ہوگی کہ بطور مسلم ایٹمی ریاست اور دنیا میں جغرافیائی طور پر انتہائی اہم مقام رکھنے کی وجہ سے ہم جہاں صلیبی جنگوں کے تسلسل کا سب سے بڑا نشانہ ہیں ،وہیں سی پیک اور ایران پاکستان گیس پائپ لائن جیسے منصوبوں کی وجہ سے ہم ان طاقتوں کا بھی بھرپور ساتھ دے رہے ہیں جو امریکہ کی نظر میں اگلی ممکنہ سپر پاور ہیں۔ اس لیے مذہب کے نام پر، سیاست کے نام پر اور نجانے کس کس طرح سے ہمیں تباہ و برباد کرنے کی کیا کیا کوشش نہیں کی جاچکی اور کیا مزید کرنا باقی ہے۔ اب یہ ہوش کے ناخن باشعور عوام کو لینا ہوں گے، کہ آپ سالمیت سے جڑے اداروں کے تقدس میں اپنی اس محبت کو حب الوطنی کے جذبے سے جوڑے رکھیں۔ ہم وہ قوم ہیں کہ جس کا ہر شخص خاکی وردی کا سپاہی ہے، جس نے تن پر نہیں پہنی ،وہ بھی من سے خاکی کے ہی مجاہد ہیں اور ہمیں ہماری اور ہماری نسلوں کی خاطر سرحدوں پر روزانہ شہید ہونے والوں کے خون کی قیمت ملک کی بقا ،اور ان سے والہانہ محبت و عقیدت کے ساتھ چکانی ہے۔آخر میں بس اتنا ہی،
آﺅ محبت سے سلام کرلیںانہیں جن کے حصے میں یہ مقام آتا ہے
بہت خوش نصیب ہوتے ہیں وہ جن کا لہو وطن کے کام آتا ہے

..

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں,ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -