شکاری۔۔۔ شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان... قسط نمبر 12

شکاری۔۔۔ شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان... قسط نمبر 12
شکاری۔۔۔ شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان... قسط نمبر 12

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مارکوپولو شیپ کے شکارمیں سب سے بڑی دشواری ارتفاع کی ہے ..... بارہ ہزار فٹ سے اوپر آکسیجن کم ہوجاتی ہے ..... عام طور سے اگر ایک مرتبہ سانس لینے سے جسمانئی نظام صحیح رہتا ہے تو اس ارتفاع پر پانچ بار سانس لینے آکسیجن کی اتنی ہی گہی مقدار حاصل ہوتی ہے..... نتیجہ یہ کہ آدمی بہت جلد تھک جاتا ہے ..... زیادہ تھکاوٹ تکلیف دہ بھی ہو سکتی ہے ..... میں اس زمانے میں US AID میں کام کرتا تھا ..... اور مجھے میرے ایک ہم کار GORDON GARLICK نے آکسیجن کا ایک ٹیوب دیا تھا ..... میں نے اس کو صرف ایک بار استعمال کیا ..... اس وقت جبکہ میں تقریباً تیرہ چودہ ہزار فٹ پر تھا اور مارکوپولو شیپ کا ایک غول جھلک دکھا کر غائب ہوگیا تھا..... مجھے ان کی تلاش میں تیز تیز چلنا پڑا ..... شکار کی محویت میں ارتفاع آکسیجن کی کمی اور خطرات فراموش ہوگئے اور ذرا ہی دیر بعد سر میں درد ..... چکر ..... اور کسی قدر کمزوری محسوس ہونے لگی ..... میں فوراً ہی ٹھہر گیا ..... اور آکسیجن کے ٹیوب سے استفادہ کیا ..... فوراً ہی وہ اضمحلال اور درد سر جاتا رہا ..... اس کے بعد میں تیز نہیں چلا ..... میرے ساتھی ..... جو ہنزہ کے رہنے والے تھے ..... وہ اس ہوا کے عادی ضرور تھے لیکن وہ بھی تیز قدمی سے احتراز کرتے تھے .....
غرضیکہ ..... شاہ پسند کے گاﺅزرد کے لیے مجھے اس جھاڑی میں سات گھنٹے بیٹھنا پڑا ..... عام آدمی اتنی دیر جنگل اور سناٹے میں بیٹھنے سے ہی گھبراتا اور تھک جاتا ہے ..... میرے ساتھ ایک چھوٹا سا پنج سورہ تھا اور ان دونوں میں سورہ رحمٰن حفظ کرنے کی کوشش کر رہا تھا..... اس دن جھاڑی میں بیٹھ کر یہ نیک کام بہت اطمینان سے ہوا ..... اور ان سات گھنٹوں میں آخری رکوع میں سے حفظ کر کے پوری سورہ رحمٰن رواں کر لی .....

شکاری۔۔۔ شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان... قسط نمبر 11


میں عصر کی نماز کسی قدر تاخیر سے پڑھی ..... اور فارغ ہو کر رائفل ہاتھ میں لی ہی تھی کہ بلندی کی جانب سے کسی کھردار جانور کے دوڑے کی آواز آئی ..... میں ادھر متوجہ ہوگیا ..... چند لمحوں میں ہی تین سبز گاﺅزرد بلندی سے نشیب کی طرف اترتے نظر آئے فاصلہ ..... یہی کوئی سوگز ..... میں تیار تھا .....
تینوں اوپر سے اترے تو رفتار تیز تھی ..... لیکن نیچے اتر کر ان کی رفتار بدل گئی ..... جھاڑیوں میں داخل ہونے سے پہلے تینوں ذرا ٹھہرے ..... گردن لمبی کر کے جھاڑیوں کی طرف دیکھا ..... میرے لیے یہ عارضی حالت کافی تھی ..... میں نے گردن اور شانے کے جوڑ کے پاس جو سفیدی کی لائن ہوتی ہے اس کا نشانہ لیا ..... جس زاویے سے گولی لگنے کا یقین تھا اس کے پیش نظر ..... گردن کی ہڈی ٹوٹ جانا چاہیے تھی .....
میں نے ذرا تامل کے ساتھ ٹریگر پر دباﺅ بڑھایا ..... ایک ثانیہ ..... ابھی جانور نے حرکت نہیں کی ..... دباﺅ ..... اور بڑھایا ..... اور رائفل نے شانے کو دھکا دیا ..... ساتھ ہی دھوکا ..... دوسرے ہی لمحے منظر بدل گئے ..... دو گاﺅزرد تو جدھران کے منھ تھے اس طرف بھاگ کر جھاڑیوں میں غائب ہوگئے اور جس کا میں نے نشانہ لیا تھا.....غالباً وہ سکرات کی شدت میں اچھلا ..... سریکبارگی ہی ڈھل گیا..... میں چند لمحوں میں ہی اس کے سر پر تھا..... ابھی جان باقی تھی ..... میں نے چھرا نکال کر ایک ہاتھ سے سینگ پکڑے تو اس کی ٹانگوں میں حرکت ہوئی ..... میں نے ایک گھٹنا گردن پر رکھا اور بسم اللہ اکبر کہا جو ایک بار زور لگایا تو آدھا گلا صاف کھل گیا ..... میں نے ایک بار اور چھرے کو جنبش دی ..... خون کا ایک چشمہ اس کی گردن سے جاری ہوگیا .....
اس کی کھال نہایت عمدہ بنی جس پر دو آدمی بخوبی نماز پڑھ سکتے تھے ..... میں نے یہ کھال بالا خر شہزادے کے نذر کر دی ..... ساری کھال نے داغ تھی اس لیے کہ گولی لگی ہی گردن اور شانے کے جوڑ پر اور سیدھی گردن کی ہڈی میں گھس کر پھیل گئی جس سے ہڈی ٹوٹ گئی..... کھال اور سینگ محفوظ رہے ..... !
کھال کے معاملے میں ہر اس جانور کو مارتے وقت لحاظ کرنا پڑتا ہے جس کی کھال کو دیوار کی یا فرش کی زینب بنانا مقصود ہو ..... صرف ریچھ کے معاملے میں حفاظت درکار نہیں ہوتی ..... اس کے بال اتنے گھسے ہوتے ہیں کہ گولی کا نشانہ بہ آسانی ان میں چھپ جاتا ہے ..... پتہ بھی نہیں چلتا .....
ہ بھی ایک دلچسپ مسئلہ ہے کہ جانور کو ہلاک کرنے کے لیے کسی جگہ جا نشانہ لینا موثر ترین ثابت ہو سکتا ہے ..... تقریباً ہر تجربہ کار شکاری نے اس سوال کا جواب طے کرنے کی کوشش کی ہے .....
شکار پر فائر کرتے وقت دو باتیں پیش نظر ہوتی ہیں .....
۱۔ کیا فائرخطرناک درندے پر کیا جا رہا ہے ..... ؟
۲۔ کیا فائر چرندے پر کیا جا رہا ہے ..... ؟
ان دونوں سوالات کے جوابات بھی مختلف ہیں ..... میرا پچاس سالہ تجربہ شیر چیتوں ریچھوں کے شکار پر مشتمل ہے اور بحمدللہ چند مواقع کے علاوہ میں کبھی شیر یا چیتے یا ریچھ کو روک دینے میں نام کام ہوا ..... تین بار شیر نے ..... سات بار چینے نے اور دو بار ریچھوں نے مجھ پر حملہ کیا ..... اور بحمدللہ ہمیشہ حملہ آور فنا ہوگیا ..... اور اللہ تعالیٰ کی عنایت و نوازش کے تحت میں اب تک بخیرو عافیت ہوں .....
اب یہ کہ درندے ..... شیر چیتے اور ریچھ پر ان کے جسم کا کون سا مقام نازک ترین ہوتا ہے ..... وہ شیر جو میں نے اطمینان اور سکون کی حالت میں شکار کئے یعنی ایسی حالت میں جب وہ نہ تو مجھ پر حملہ آور تھے نہ بھاگ رہے تھے ..... نہ ان کو میری اطلاع تھی ..... میں نے ہمیشہ کو شش کی کہ گولی سر میں لگے ..... اگر شیر ترچھا کھڑا ہوتو اکثر کان کے عقب میں اس ذادے سے گولی دماغ میں جائے اگر وہ ممکن نہ ہوتو پھر شانے اور گردن کے جوڑ پر ..... ایسے زاویے سے کہ گردن کی ہڈی ٹوٹ جائے ..... اور ان دونوں مقامات پر لگی ہوئی گولی کبھی ناکام ثابت نہیں ہوتی ..... ہمیشہ فوری موت کا باعث ہوئی ..... خطرناک جانور کے شکار میں یہ بہت اہم بات ہے ..... شیر یا چیتے کا فوراً ہلاک ہونا قطعاً لازمی ہے .....
میں نے ان دونوں نشانوں کا انتخاب بھی اپنی مرضی سے کیا ..... اور اس میں میری منطقی دلیل یہ تھی کہ ان دونوں مقامات کا نشانہ نسبتاً باریک اور دشوار ہونے کے باوجود مہلک ہوتا ہے ..... اگر گولی صحیح جگہ لگی تو شیر قطعاً فنا ..... جنبش بھی نہیں ہوتی ..... اور اگر خطا گئی تو صاف خطا ہو جاتی ہے ..... ایسا نہیں کہ جانور زخمی ہو .....
شیر ‘ چیتے اور ریچھ کا زخمی ہو کر نظر سے چھپ جانا ..... انتہائی خطرناک صورت حال کا معاملہ ہوتا ہے زخمی شیر چیتا یا ریچھ ..... اس سارے علاقے کی آبادی کے لیے شدید خطرے کا باعث ہوتے ہیں ..... اور ان کو تلاش کر کے ہلاک کرنا شکاری پر فرض ہوتا ہے ..... دکن میں تو قانوناً زخمی جانور کو تلاش کر کے ہلاک کرنے کا قانون ہوا کرتا تھا ‘ زخمی شیر ‘ چیتے یا ریچھ کا تلاش کرنا خود شکاری کے لیے انتہائی خطرے کا کام ہے ..... اور اکثر حادثات ان ہی مواقع پر پیش آتے ہیں ..... کئی شکاری اس کوشش میں اپنی جان ہی گنوا بیٹھے .....
شیر پر فائر کیا جائے تو صرف اس وقت جب یقین ہو کہ گولی خطا نہیں جائے گی ..... اور یہ دونوں مقامات جن کی میں نے نشاندہی کی ایسے ہیں کہ ..... اگر گولی لگی تو حتماً کامیاب ..... نہیں تو صاف خطا ..... جانور زخمی نہیں ہوتا ..... بھاگ ہی جائے گا نا ..... پھر فائر کا موقعہ ملے گا ..... پھر نظر آئے گا ..... !
چرندوں کے شکار میں بھی میرے نظریات بعض دوسرے شکاریوں سے قطعاً مختلف ہیں..... میں جانور کا شکار صرف ٹرافی کے نقطہ نظر سے کرتا ہوں ..... گوشت میرا مقصد نہیں ہوتا ..... ٹرافی میں دو چیزیں آتی ہیں ..... سینگ اور کھال ..... سینگ تو خراب نہیں ہوتے ..... لیکن کھال گولی لگنے سے خراب ہوجاتی ہے ..... لہٰذا میں جانور کو ہلاک کرنے میں کھال کر خرابی سے بچانے کی سعی کرتا ہوں..... کا ن کے پیچھے ..... گردن کے جوڑ پو بغل کے قریب ..... یادونوں ٹانگوں کے درمیان گردن کے نیچے کی سفیدی پر .....
گڑھ مہاراجہ کے قریب فتخپور کے میدان میں ایک ہرن اس طرح بھاگا کہ اس کی دم میری طرف تھی میں نے دم کے ذرا نیچے فائر کیا..... گولی اسکی مقام فراغت سے ذرا نیچے لگی ..... اور سارے پیٹ اور سینے کے نرم علاقوں سے گزرتی ..... اگلی ٹانگوں کے درمیان سے ہوتی نکل گئی ..... ہرن کوئی بیس گز بھاگ کر گرا ..... میں نے جب اس کا پیٹ چاک کیا تو گولی کا سارا راستہ صاف جھلی ہوئی آنتوں..... سینے کی جلی ..... پھیپھڑوں ..... دل کے قریب کی نالیوں اور عضلات کی شکستگی سے متعین کر لیا ..... لیکن یہ فائر محض اتفاقی تھا..... میں نے جب فائر کیا تھا تو مجھے گولی لگنے کا یقین ہر گز نہیں تھا .....
اس طرح جہلم میں ایک ہڑیال کو صرف ایک گز ..... یا اس کے لگ بھگ فاصلے پر شاٹ گن سے مارا ..... اس طرح کہ میں نشیب میں تھا اور ہڑیال کوئی سات آٹھ فٹ بلند کنارے پر ..... اس کی موت اسے کھینچ کر کنارے پر لے آئی اور اس نے سرنکال کر نیچے جھانکنے کی کوشش کی میں نے فائر کر دیا ..... بارہ بور کی سیدھی نالی میں SG کے نو چھرے تھے سب اتنے قریب سے اس کے لگے اور وہ وہیں الٹ گیا..... اسلم ساتھ تھا میں نے اس کو چھرا دیا کہ اوپر جا کر ہڑیال کو ذبح کرے ..... (جاری ہے)

شکاری۔۔۔ شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان... قسط نمبر 13 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

مزید :

کتابیں -شکاری -