امریکی ایما پر فلسطینیوں کا قتل عام
فلسطین کی ستر سالہ تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو فلسطینیوں پر گزرنے والا ہر دن ہی یوم نکبہ سے کم نہیں ہے، یوم نکبہ فلسطینیوں کے لئے ایک ایسا دن ہے جسے فلسطین کی گزشتہ اور موجودہ نسل کسی طور فراموش کر ہی نہیں سکتی، یہی وہ سیاہ ترین دن ہے کہ جس دن صیہونیوں کی غاصب اور جعلی ریاست جسے اسرائیل کا نام دیا گیا ہے کا ناجائز وجود سرزمین فلسطین پر قائم ہوا تھا اور اسی ایک دن میں ہی آٹھ لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکال دیا گیا تھا جو بالآخر مجبوری میں فلسطین کی پڑوسی ریاستوں اردن، شام، لبنان اور مصر میں پناہ گزین ہونے پر مجبور ہوئے تھے اور آج ستر سال بیت جانے کے باوجود بھی یہ فلسطینی اور ان کی تیسری انہی ممالک کے مہاجر کیمپوں میں پناہ گزینوں کی طرح زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔یہ دن 15مئی سنہ1948 ء کا دن تھا جسے فلسطینی تاریخ میں یوم نکبہ یعنی تاریخ کی بدترین تباہی اور ہولناک بربادی کا دن قرار دیتے ہیں کہ جہاں ایک طرف مجموعی طور پر ان کے وطن پر صیہونیوں کا تسلط قائم کیا گیا تو دوسری طرف ان فلسطینیوں کو ان کے اپنے ہی گھروں سے نکال باہر کیا گیا۔
2018ء میں بھی فلسطینی عوام یوم نکبہ پر سراپا احتجاج رہے اور عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کرتے رہے لیکن اس مرتبہ یہ دن کچھ انوکھے انداز سے ہی فلسطینیوں پر شب خون مار گیا کیونکہ دنیا میں انسانی حقوق کے دفاع کا راگ الاپنے والی سپر پاور امریکہ نے کھل کر یہ ثابت کر دیا کہ گذشتہ ستر برس سے فلسطین میں ہونے والی انسانی حقوق کی پائمالیوں کو امریکہ ہی سرپرستی کرتا آیا ہے۔اس سال فلسطینی عوام گذشتہ سات ہفتوں سے حق واپسی فلسطین کا مطالبہ کر رہے ہیں اور مسلسل غزہ اور مغربی کنارے کے مابین غاصب اسرائیل کی طرف سے جبری طور پر قائم کی گئی لائن آف کنٹرول پر جمع ہیں اور ان سب فلسطینیوں کا نعرہ ہے کہ فلسطین کی طرف واپسی، القدس کی طرف واپسی، لیکن جواب میں پہلے تیس مارچ کو غاصب صیہونیوں نے ان مظلوم اور نہتے فلسطینیوں پر وحشت ناک مظالم ڈھائے جس کے نتیجہ میں سات ہفتوں میں 70سے زائد فلسطینی شہید ہوئے تھے جبکہ سات ہزار سے زائد زخمی ہو گئے تھے لیکن 14مئی کو امریکی سرپرستی میں صیہونیوں نے فلسطینیو ں پر وحشیانہ دہشت گردی کا نمونہ اس وقت پیش کیا جب فلسطین کے عوام امریکی سامراج کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے مطالبہ کر رہے تھے کہ امریکی سفارتخانہ کی القدس شہر میں منتقلی روکی جائے جو کہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے لیکن جواب میں چند لمحوں میں ساٹھ سے زائد معصوم اور نہتے فلسطینیوں کو وحشت کا نشانہ بنا کر موت کی نیند سلا دیا گیا اور دنیا کے لئے انسانی حقوق کے بڑے بڑے نعرے لگانے اور بلند وبانگ دعوے کرنے والی امریکی سامراج نے ان فلسطینی بچوں اور خواتین کی لاشوں پر اپنا سفارتخانہ القدس شہر میں کھول کر ہی دم لیا اور دنیا کو یہ پیغام بھی دیا کہ امریکی سامراج کے سامنے انسانی جانوں کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے ۔
دراصل امریکہ نے بیت المقدس شہر میں امریکی سفارتخانہ کھول کر نہ صرف غاصب صیہونی جعلی ریاست کی سرپرستی کا ثبوت دیا ہے بلکہ پورے عالم اسلام میں موجود حریت پسندوں کوبھی جھنجھوڑ دیا ہے کیونکہ امریکہ کی جانب سے القدس میں سفارتخانہ کی منتقلی کے پس پردہ امریکی ناپاک عزائم آشکار ہیں کہ جس کے تحت وہ فلسطین کے اس تاریخی شہر یروشلم (القدس) کی شناخت بلکہ اسلامی و عربی و جغرافیائی شناخت کو تبدیل کر کے غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے حق میں کرنا چاہتا ہے۔القدس میں امریکی سفارت خانہ فلسطینی قوم کی امنگوں کا خون کرنے کے ساتھ ساتھ لاکھوں فلسطینی پناہ گزینوں کے حق واپسی، فلسطینی قوم کے حق خود ارادیت پر ڈاکہ اور فلسطینی قوم کی لاشوں پر قائم کیا گیا۔
امریکہ نے جہاں ایک طرف فلسطینیوں کے حقوق کی کھلم کھلا پائمالی کی وہاں بین الاقوامی قوانین کو بھی روند ڈالا ہے اور اس کے ساتھ ہی اگر بین الاقوامی اداروں اور بالخصوص اقوام متحدہ کی قرار داد کی بات کی جائے تو امریکہ نے غاصب اور جعلی ریاست اسرائیل کے حق میں اس قرار داد کو بھی ردی کی ٹوکری کا حصہ بنا دیا ہے۔ جو گذشتہ برس جنرل اسمبلی میں ایک قرارداد منظور کی گئی جس میں 193 ملکوں میں سے128 نے القدس سے متعلق امریکی فیصلہ کو مسترد کیاتھا اور مخالفت کی تھی۔مخالفت کرنے والوں میں برطانیہ، فرانس اور جرمنی جیسے امریکا کے حلیف ممالک بھی شامل ہیں۔ تاہم عالمی دباؤ اور مخالفت کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ نے عالمی قوانین کو دیوار پر مارا اور 14 مئی کو امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقل کر کے تاریخ کا ایک نیا سیاہ باب رقم کیا ہے۔
مقبوضہ بیت المقدس دو حصوں پر مشتمل ہے۔ اس کے مغربی حصے پر اسرائیل نے سنہ 1948ء کی جنگ کے بعد غاصبانہ تسلط جمایا جب کہ 1967ء کی جنگ میں مشرقی بیت المقدس پر قبضہ کر لیا گیا۔ سنہ 1980ء میں اسرائیل نے متحدہ القدس کو صہیونی ریاست کا دارالحکومت قرار دیا تاہم آج تک امریکا سمیت عالمی برادری اسرائیل کے اس دعوے کی مخالفت کرتی آئی ہے۔ فلسطینی قوم نے القدس کی آزادی کے لیے ہرسطح پر مزاحمت کی۔ القدس فلسطین میں اٹھنے والی انقلابی تحریکوں اور انتفاضہ کا عنوان بنتا رہا۔
گذشتہ برس 6 دسمبر کو جب امریکی صہیونیت نواز صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے القدس کو اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پرتسلیم کیا تو فلسطینی قوم نے ایک نئی تحریک انتفاضہ شروع کی۔ اب تک اس تحریک کے دوران 140 فلسطینی شہری شہید کیے جا چکے ہیں۔ ہزاروں زخمی اور گرفتار کیے گئے۔
گذشتہ برس امریکی صدر کے القدس سے متعلق فیصلہ کے سامنے آنے کے بعد مسلم امہ بالخصوص او آئی سی نے بھی کوئی خاطر خواہ اقدام نہ اٹھایا جس کے باعث نوبت یہاں تک آئی ہے کہ بالآخر فلسطینیوں کی لاشوں پر امریکہ نے اپنا سفارتخانہ منتقل کر کے مقبوضہ فلسطین میں اپنی سفاکیت کا جشن منایا ہے۔
۔۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں,ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔