جوارِ رحمت میں جا بسے ”چودھری رحمت علی“
یکم اپریل2019ءبروز پیر، صبح دس بجے کے قریب مَیں اپنے دفتر بیٹھا معمول کے کام کر رہا تھا کہ یکایک فون کی گھنٹی بجی۔مَیں نے فون اُٹھایا تو دوسری طرف تحریک ِ عظمت ِ اسلام کے دفتر سے قاری نصیب علی بول رہے تھے۔انہوں نے یہ افسوسناک اطلاع دی کہ ”چودھری رحمت علی صاحب بقضائے الٰہی انتقال فرما گئے ہیں۔مَیں نے (انا للہ وانا الیہ راجعون) پڑھ کر فون بند کر دیا۔ فون بند کر کے مَیں گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ خوشگوار لیکن حسرت ناک یادوں کی ایک بارات چشم ِ تخیل میں چلتی پھرتی نظر آنے لگی۔ کبھی دیکھتا کہ چودھری صاحب اپنے اچھرہ والے گھر میں اپنی بیٹھک میں لاﺅڈ سپیکر کھولے درس قرآن دے رہے ہیں۔
چودھری صاحب سے خاکسار کے تعلقات کم و بیش35برسوں کو محیط ہیں۔چودھری صاحب نے اپنی دعوتی اور تبلیغی سرگرمیوں کا آغاز اپنے اچھرہ والے گھر ہی سے کر دیا۔میرا بھی گھر قریب ہی تھا۔اس طرح چودھری صاحب سے تعارف ہو گیا اور وہ میرے بزرگ دوست بن گئے۔اس وقت واپڈا کے شعبہ ترقی آب میں پراجیکٹ ڈائریکٹر تھے،لیکن ایک لگن اور جذبہ بڑی شدت کے ساتھ ان میں بیدار ہو چکا تھا اور اس جذبے کی شدت اتنی بڑھی کہ انہوں نے واپڈا میں اپنے منصب سے استعفیٰ پیش کر دیا اور پورے خلوص اور للہیت کے ساتھ ”خلافت“ کے حوالے سے اپنی سرگرمیوں میں مشغول و منہمک ہو گئے۔انہوں نے اپنی سوچوں کا مرکز اس نکتے کو بنا لیا کہ اُمت ِ مسلمہ کیوں زوال گرفتہ اور ذلت و پستی سے ہمکنار ہے۔ اُمت ِ مسلمہ ایسی تو نہ تھی۔ اُمت ِ مسلمہ تو وہ اُمت تھی کہ بقولِ اقبال:
تھمتا نہ تھا کسی سے سیلِ رواں ہمارا
پھر ان کی فکر نے ان کو اس نتیجے تک پہنچایا کہ اُمت ِ مسلمہ کی زبوں حالی کی وجہ ادارہ ”خلافت“ کا بے وجود ہو جاتا ہے اس کے بعد انہوں نے اپنی پوری زندگی اسی تخیل و تصور کو اُجاگر کرنے میں کھپا دی۔ کبھی مَیں چشم ِ تصور میں دیکھتا کہ چودھری صاحب ایف ایکس کار میں میرے برابر والی سیٹ پر بیٹھے ہیں اور ڈرائیونگ کر رہا ہوں۔چودھری صاحب نے شروع شروع میں ایک ایف ایکس گاڑی خرید تو لی تھی اور مَیں نے انہیں ڈرائیونگ سکھانے کی اپنی سی کوشش بھی کر لی تھی،لیکن وہ تمام تر کوشش کے باوجود ڈرائیونگ نہ سیکھ سکے۔
نتیجتاً وہ گاڑی چودھری صاحب نے1990ءمیں مجھے بیچ دی اور مَیں نے آسان قسطوں میں اس کی قیمت ادا کر دی۔ان دِنوں میں سعودی ایمبیسی کی ریلجیس ایٹیچی جسے مکتب الدعوہ کہا جاتا ہے، ملازم تھا۔ یہ دفتر پہلے لاہور میں تھا۔پھر اسلام آباد منتقل ہو گیا۔ مَیں بھی اسلام آباد منتقل ہو گیا۔پھر میرے ابا جی ؒ کو انجائنا کی تکلیف ہوئی تو مَیں استعفیٰ دے کر لاہور آ گیا۔اب مَیں چودھری صاحب کو لے کر علماءکے حلقوں میں جانے اور ان سے متعارف کروانے لگا۔میرے ایک بہت ہی پیارے دوست مولانا خورشید احمد گنگوہی تھے۔مَیں نے چودھری صاحب کو بتایا کہ مولانا خورشید احمد گنگوہی بھی یہی سوچ رکھتے ہیں تو چودھری صاحب کو ان سے ملنے کا اشتیاق ہوا۔
مَیں نے ملاقات کروا دی اور پھر یہ تعلق ایسا قائم ہوا کہ مولانا گنگوہیؒ کی وفات تک اس میں کوئی خلل نہ آیا۔ ہم تینوں نے باغِ جناح لاہور میں بیٹھ کر عالمی تحریک ِ خلافت کی بنیاد رکھی۔ چودھری صاحب امیر، مولانا گنگوہی نائب امیر اور خاکسار سیکرٹری جنرل بن گئے۔اس جماعت کے پلیٹ فارم پر ہم نے اسی ایف ایکس کار میں بیٹھ کر پورے پنجاب اور کشمیر کے دورے کئے۔تمام اخراجات کو ہم برابر تین حصوں میں تقسیم کر لیتے تھے اور کئی کئی دن سفر میں گزار دیتے۔اس دور میں گجرات سے ملحقہ ایک گاﺅں ”کڑیاں والا“ کے ایک بزرگ عنایت اللہ طور بھی ہمارے ساتھ منسلک ہو گئے تھے۔
کبھی میری چشم ِ تصور میں یہ منظر سامنے آ جاتا کہ لاہور کے جناح ہال میں سٹیج سجا ہوا ہے۔سٹیج پر ملک کے بڑے بڑے علماءاور دانشور رونق افروز ہیں۔ایک نشست پر مولانا عبدالرحمن مدنی تشریف فرما ہیں۔ایک نشست پر مولانا محمد اکرم اعوان رونق افروز ہیں۔ایک نشست پر جناب ڈاکٹر اسرار احمد صاحب اور ایک نشست پر حیدر آباد کے سابق میئر مولانا وصی مظہر ندوی۔ ملک کے منتخب اورنمائندہ علماءکا یہ اجتماع عالمی تحریک ِ خلافت ہی کی کاوشوں کا نتیجہ تھا۔ہماری تحریک کی کوششیں تھیں کہ ملک میں خلافت کے حوالے سے کام کرنے والے تمام حضرات کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جائے اور اس میں ہم بہت حد تک کامیاب ہو گئے تھے۔
یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ بعد میں جناب محترم ڈاکٹر اسرار احمد صاحب بھی خلافت کی دعوت لے کر اُٹھے اور اسے پوری دُنیا میں پہنچا دیا۔اللہ تعالیٰ نے ان کی دعوت کو بڑی قبولیت بخشی۔چودھری صاحب مرحوم دو بزرگوں کو اپنا روحانی استاد کہا کرتے تھے۔ ایک مولانا مودودیؒ اور ایک جناب ڈاکٹر اسرار احمدؒ۔افسوس یہ ہے کہ یہ اتحاد بھی زیادہ دیر تک نہ چل سکا اور اس کے ساتھ بھی وہی ہوا،جو اکثر ہوا کرتا ہے۔سب حضرات اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہو گئے۔ اس اتحاد کے اجتماعات کی میزبانی سب شریک جماعتوں نے باری باری کی۔ ایک اجتماع مولانا عبدالرحمن مدنی صاحب کے ہاں ہوا۔ایک اجتماع محترم جاوید احمد غامدی صاحب کے ہاں بھی ہوا۔ ایک اجتماع کی میزبانی ہم نے کی اور ایک اجتماع حیدر آباد سندھ میں ہوا، جس کی میزبانی مولانا وصی مظہر ندوی صاحب نے کی۔
انہی دِنوں علی گڑھ گریجویٹ جناب ڈاکٹر میر معظم علی علوی لندن سے اسلام آباد منتقل ہو گئے تھے۔بعدازاں وہ لاہور منتقل ہو گئے۔ہم تینوں حضرات خصوصی طور پر اُن سے تعارف کے لئے اسلام آباد گئے۔تعارف ہوا تو وہ بہت ہی خلیق اور شائستہ بزرگ نکلے۔اور پھر آخر کار اپنا بھاری بھر کم کتب خانہ لے کر لاہور منتقل ہو گئے۔ یادوں کا یہ سیل بے کراں تھمتا نظر نہیں آتا۔ داستان طویل بھی ہے اور دلگداز بھی۔مختصر طور پر یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ چودھری صاحب نے خلافت کے حوالے سے دیوانوں کی طرح کام کیا۔ سعی پیہم محبت اور لگن سے اپنے حصے کی شمع جلانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ اپنا مال، اپنا وقت اپنی خواہشات سب کچھ قربان کر دیا۔ان کا نام جب بھی آئے گا،ان کے دوستوں اور جاننے والوں کے سر عقیدت و احترام سے جھک جائیں گے۔جانا تو سب ہی کو ہے:
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ، کل ہماری باری ہے
لیکن اطمینان اِس بات کا ہے کہ وہ اپنے پیچھے ایسے جانشین چھوڑ گئے ہیں،جن کا عزم و ارادہ چودھری صاحب سے کسی طور کم نہیں۔ان کے فرزند ِ اکبر جناب عمران چودھری صاحب نے پوری فراخ دلی کے ساتھ یہ اعلان کیا ہے کہ ہم ہر وہ کام اسی طرح جاری رکھیں گے جس طرح چودھری صاحب (مرحوم و مغفور اِن شاءاللہ) اپنی زندگی میں کیا کرتے تھے۔” سبق پھر پڑھ“ کی ادارت کی ذمہ داری اس خاکسار کو سونپ دی گئی ہے۔اللہ ہمیں ان کے مشن کو آگے بڑھانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین (بشکریہ ماہنامہ ” سبق پھر پڑھ“ لاہور)