سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں کاروبار
سپریم کورٹ نے حکومت کی جانب سے ہفتے اور اتوار کو مارکیٹیں اور کاروباری سرگرمیاں بند کرنے کا حکم کالعدم قرار دیتے ہوئے تجارتی مراکز روزانہ کھولنے کا حکم دیا ہے۔ فاضل عدالت نے سندھ حکومت کو بھی وفاق سے اجازت لے کرشاپنگ مال کھولنے کا حکم دیا ہے، عدالت نے دو روز کاروبار کی بندش کو آئین کے آرٹیکل4،18 اور25 کی خلاف ورزی قرار دیا اور ہدایت کی کہ تاجروں کو ہفتے کے تمام دن کاروبار کرنے کی اجازت ہو گی تاہم اُنہیں ایس او پیز کی پابندی کرنا ہو گی۔ سربمہر کی گئی دکانیں بھی کھولنے کا حکم دیا گیا ہے، سپریم کورٹ میں از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران سندھ کے سوا تمام صوبوں نے رپورٹ پیش کی کہ وہ پیر کے روز ہی سے شاپنگ مالز کھول رہے ہیں۔فاضل عدالت نے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی(این ڈی ایم اے) کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ کو غیر تسلی بخش قرار دیا اور کورونا وائرس سے بچاؤ کے متعلق خرچ ہونے والی رقم کا جواز پیش کرنے کے لئے اٹارنی جنرل کو طلب کر لیا۔ دورانِ سماعت جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے ریمارکس دیئے کہ جب باقی مارکیٹیں کھلی ہوں گی تو شاپنگ مالز بند کرنے کا کیا جواز ہے؟استفسار پر کمشنر کراچی ڈویژن نے عدالت کو بتایا کہ کچھ مارکیٹوں کو ایس او پیز پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے سیل کیا گیا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ انہیں ڈرانے دھمکانے کی بجائے سمجھائیں اور کراچی کی تمام مارکیٹیں کھول دیں، مارکیٹوں میں چھوٹے طبقے کا کاروبار ہے۔ عدالت نے اپنے تحریری حکم نامہ میں قرار دیا ہے کہ پاکستان ایسا ملک نہیں ہے جو کورونا وائرس سے بُری طرح متاثر ہوا ہے۔ کورونا وائرس بظاہر وبائی صورت میں ظاہر نہیں ہوا کہ پورے مُلک کو ہی بند کر دیا جائے۔ این ڈی ایم اے اربوں روپے کورونا سے متعلق خریداری پر خرچ کر رہا ہے،لیکن سمجھ نہیں آتی کہ اتنا پیسہ کیوں خرچ کیا جا رہا ہے۔ ایک مریض پر25لاکھ کا خرچ، مگر نظر نہیں آ رہا، شریان پھٹنے اور دِل کے دورے کی اموات بھی شامل کی جا رہی ہیں، سرکاری ٹیسٹ مثبت اور پرائیویٹ منفی آ رہے ہیں۔ کورونا اِس لئے نہیں آیا کہ کوئی پاکستان کا پیسہ لے جائے، ٹڈی دل کے لئے این ڈی ایم اے نے کیا کِیا یہ آئندہ سال فصلیں نہیں ہونے دے گا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے نے بظاہر وہ ابہامات اور تضادات ختم کر دیئے ہیں، جو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے اقدامات اور احکامات کی وجہ سے نظر آتے تھے۔ ہفتہ اور اتوار کو کاروبار بند رکھنے کو بھی آئینی دفعات کی خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے۔اِن دو دِنوں میں کاروبار سختی سے بند کرائے جا رہے تھے۔ فاضل عدالت نے اس کے جواز کو بھی چیلنج کیا اور پابندی ختم کر دی اس فیصلے کی روشنی میں اب کاروبار میں یکسانیت نظر آئے گی اور ایسا نہیں ہو گا کہ کوئی بازار تو کھلا ہوا ہے اور وہاں دکانوں پر رونق اور بازار میں چہل پہل ہے،جبکہ اسی طرح کا کوئی دوسرا بازار بند یا سربمہر ہے اور اُجڑا اُجڑا دکھائی دیتا ہے، یکساں کاروباری مواقع کی دستیابی کے اصول کے تحت اس فیصلے کے جو بھی اثرات مرتب ہوں گے، وہ چند ر وز میں سامنے آ جائیں گے۔ تاجروں نے جو کئی دِن سے اپنے مطالبات کے لئے اِدھر اُدھر سر ٹکراتے پھرتے تھے اور کہیں انہیں کامیابی ہوتی تھی تو کہیں ناکامی، اب اُنہیں اس فیصلے کی وجہ سے اطمینان کی ایک صورت نظر آتی ہے۔ بڑے شاپنگ مالز بھی کھولنے کا حکم دیا گیا ہے تاہم ایک حلقے کی رائے یہ رہی ہے کہ یہ شاپنگ مالز ائر کنڈیشنڈ ہونے کی وجہ سے وائرس کے زیادہ پھیلاؤ کا سبب بھی بن سکتے ہیں،لیکن ایک دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ ان شاپنگ مالز میں داخلہ بعض شرائط کے ساتھ مشروط کیا جا سکتا ہے، ان میں داخلے کے وقت ہینڈ سینی ٹائزرز کا استعمال کیا جا سکتا ہے، چہرے پر ماسک پہنا جا سکتا ہے اور جو لوگ مال کے اندر جانا چاہتے ہیں، داخلی دروازے پر اُن کے جسم کا درجہ ئ حرارت بھی چیک کیا جا سکتا ہے،جبکہ عام بازاروں میں ایسا ممکن نہیں،حالیہ دِنوں میں جو بازار کھلے ہوئے تھے وہاں بے احتیاطی بھی دیکھی گئی، دکانوں پر ہجوم بھی تھا،سماجی فاصلے کا خیال بھی نہیں رکھا جا رہا تھا اب سپریم کورٹ کے حکم کے بعد یہ ضروری ہو گیا ہے کہ ہر طرح کے کاروباری حضرات ضابطوں کا پہلے سے زیادہ خیال رکھیں۔ سپریم کورٹ کے حکم کے نتیجے میں جو سہولت دستیاب ہوئی ہے اس سے ذمے داری کے ساتھ استفادہ ہونا چاہئے۔اس میں کاروبار کرنے والوں اور خریداری کرنے والوں سب کا فائدہ ہے۔اگر ایسا نہ ہوا تو اس کے نتائج بہت ہولناک بھی ہو سکتے ہیں۔
وفاقی حکومت تو پہلے ہی کاروبار کھولنے کے حق میں تھی اور وزیراعظم نے تو کبھی لاک ڈاؤن کی کھل کر حمایت ہی نہیں کی،بلکہ وہ یہ تک کہہ چکے ہیں کہ لاک ڈاؤن اشرافیہ نے کرایا، انہوں نے بار بار یہ بھی کہا کہ کاروبار بند رہنے کی صورت میں بھوک سے اموات ہوں گی اور لوگ سڑکوں پر آئیں گے۔ سپریم کورٹ کے ریمارکس میں بھی اِس سے ملتے جلتے خیالات کا اظہار کیا گیا تاہم کورونا کے علاج پر اُٹھنے والے اخراجات پر سپریم کورٹ نے جو سوالات اٹھائے ہیں اُن کا جواب سرکاری اداروں کے ذمے ہے۔ این ڈی ایم اے کی رپورٹ پر فاضل عدالت نے عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ سپریم کورٹ کو حیرت ہے کہ اربوں روپے ٹین کی چار پائیوں پر لگ گئے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں جہاں حکومت کے لئے اطمینان کے پہلو موجود ہیں،وہیں کارکردگی پر بھی ایسے سوالیہ نشانات ہیں جن کا جواب سامنے آنا چاہئے، کورونا کے متاثرہ طبقات میں جو اربوں روپے تقسیم کئے گئے ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں تو اس پر بھی حرف گیری کر رہی ہیں اور اُن کا خیال ہے کہ یہ سلسلہ شفاف نہیں ہے، لیکن اسے سیاسی نکتہ طرازی بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ مسلم لیگ(ن) کے رہنما احسن اقبال نے اپنے ایک بیان میں یہ انکشاف کیا تھا کہ اُنہیں بھی12ہزار روپے وصول کرنے کا ایس ایم ایس ملا تھا اگر واقعتا ایسا ہوا ہے تو پھر قیاس کیا جا سکتا ہے کہ ایسے پیغامات کئی دوسرے صاحب ِ حیثیت افراد کو بھی گئے ہوں، جہاں ہزاروں،بلکہ لاکھوں لوگوں میں روپے تقسیم ہو رہے ہوں وہیں ایسے کسی واقعے کا امکان تو رد نہیں کیا جا سکتا تاہم یہ معلوم کرنا ہو گا کہ ایسے پیغامات غلطی سے گئے یا پیغام بھیجنے سے پہلے مستحقین کے بارے میں مناسب تحقیق نہیں کی گئی۔
کاروباری طبقات کو اپنے کاروبار کے سلسلے میں جو شکایات تھیں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد وہ تو ختم ہو گئی ہیں،لیکن اب اُن کی ذمے داریوں میں اضافہ بھی ہو گیا ہے۔اس فیصلے میں سرکاری افسروں کے لئے بھی واضح احکامات موجود ہیں کہ وہ اپنے اختیارات کا اندھا دھند استعمال کرتے ہوئے دکانیں اور مارکیٹیں سربمہر کرنے کی بجائے دکانداروں کو احسن طریقے سے سمجھائیں کہ وہ ضوابط کی خلاف ورزی کے مرتکب نہ ہوں،فاضل عدالت نے کراچی کی ایک مارکیٹ کا نام لے کر کمشنر کراچی کو حکم دیا کہ وہاں غریب لوگ خریداری کے لئے جاتے ہیں،اِس لئے وہاں کی سربمہر دکانیں کھول دیں،توقع ہے کہ اس فیصلے کے بعد سرکاری حکام اپنے اختیارات کے استعمال میں حدود سے تجاویز نہیں کریں گے اور نرم رویہ اختیار کریں گے،دکاندار بھی انتظامیہ سے تعاون کا مظاہرہ کریں گے،کاروبار کا پہیہ بھی چل پڑے گا اور بھوک سے اموات کے خطرات بھی کم سے کم ہو جائیں گے۔یہ توقع بھی بے جا نہیں ہو گی کہ قواعد و ضوابط کا خیال نہ رکھا گیا تو سیلاب کا دروازہ بھی کھل سکتا ہے۔ایسی صورت میں کوئی بھی مقتدر حلقہ اپنے آپ کو بری الزمہ قرار نہیں دے سکے گا۔