شب ِ قدر بخشش و مغفرت کی رات

شب ِ قدر بخشش و مغفرت کی رات

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

رمضان المبارک کے بابرکت و مقدس مہینہ میں وہ ”شب ِ قدر“ بھی آگئی ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ہزار مہینوں سے افضل اور بہتر قرار دیا ہے اور ہزار مہینے تراسی برس چار ماہ ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کو ہزار مہینوں سے افضل قرار دیا ہے یعنی جس قدر اخلاص و محنت اور للہیت کے ساتھ اس ”شب ِ قدر“ میں عبادت و ریاضت اور دعا وغیرہ کی جائے اس قدر اس کے اجر و انعام میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا……
حضور ﷺ نے اس شب قدر سے محروم رہنے والے شخص کو خیر سے محروم اور حقیقی محروم قرار دیا ہے۔
درحقیقت یہ اللہ رب العزت کی طرف سے امت محمدیہ ﷺ کی بخشش و مغفرت کیلئے بہانے ہیں کس قدر خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کو اس رات کی عبادت نصیب ہو جائے اور آسمانوں پر اس کی بخشش و مغفرت کے فیصلے کر دیئے جائیں …… اور کتنے بد نصیب ہیں وہ لوگ جنھوں نے رمضان المبارک جیسا مغفرت کا مہینہ مصیبت و نافرمانی اور غفلت میں گزارنے کے بعد اب شب قدر سے بھی محروم رہے اس سے بڑھ کر اس رات کی فضیلت کیا ہو سکتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں ”سورۃ القدر“ کے نام سے پوری ایک سورت اس کی عظمت میں نازل فرمائی جس میں شب قدر کی خصوصیات ذکر کی گئی ہیں۔
(1)اس رات میں قرآن مجید نازل ہوا(2) اس رات میں فرشتے آسمانوں سے اترتے ہیں (3) یہ رات ہزار مہینوں سے افضل و بہتر ہے (4) اس رات میں صبح صادق تک خیر و برکت اور امن و سلامی کی بارش ہوتی ہے۔
ایک روایت میں ہے شب قدر میں ملائکہ (فرشتوں) کی پیدائش ہوئی اور اسی رات میں حضرت آدم علیہ السلام کا مادہ جمع ہونا شروع ہوا، اسی رات میں جنت میں درخت لگائے گئے اور اس رات میں عبادت کا ثواب دوسرے اوقات کی عبادت سے کہیں زیادہ ہوتا ہے اور یہی وہ مقدس رات ہے جس میں بندہ کی زبان و قلب سے نکلی ہوئی دعا اللہ رب العزب کی بارگاہ میں قبولیت سے نوازی جاتی ہے اسی مقدس رات میں اللہ رب العزت کی رحمتِ خاص کی تجلی آسمانِ دنیا پر غروب آفتاب کے وقت سے صبح صادق تک ہوتی ہے، بعض روایات کے مطابق اسی رات (شب قدر) کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر اٹھائے گئے اور اسی رات میں بنی اسرائیل کی توبہ قبول ہوئی (مظاہر حق)
مفسرین نے قرآن مجید میں اس رات کا نام ”لیلۃ القدر“ رکھنے کی مختلف وجوہات ذکر کی ہیں،
ایک وجہ یہ ہے کہ لیلۃ القدر میں جو لفظ ”قدر“ ہے اس کا معنیٰ ”تقدیر و حکم“ کے ہیں، چونکہ اس رات میں تمام مخلوقات کیلئے جو کچھ تقدیر ازلی میں لکھا ہے اس کا جو حصہ اس سال رمضان سے اگلے رمضان تک پیش آنے والا ہے وہ ان فرشتوں کے حوالہ کر دیا جاتا ہے جو کائنات کا تدبیر اور تنفیذِ امور کے لئے مامور ہیں اس لیے اس کا نام لیلۃ القدر رکھا گیا ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ ”قدر“ کے معنیٰ عظمت و شرافت کے بھی آتے ہیں …… چونکہ یہ رات بھی عظمت و شرافت والی رات ہے اس لیے اس کا نام بھی ”لیلۃ القدر“ رکھا گیاہے۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ ایک تو اس میں بڑی عظیم مرتبہ و شان والی کتاب (قرآن مجید) نازل ہوئی ہے دوسرا یہ کہ ذی مرتبہ فرشتہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعہ نازل ہوئی ہے، تیسرا یہ کہ ذی مرتبہ فرشتہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعہ نازل ہوئی ہے، تیسرا یہ کہ ذی مرتبہ امت پر نازل ہوئی ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے سورۃ القدر میں لفظ ”قدر“ تین مرتبہ ذکر کیا ہے۔
اس رات کو لیلۃ القدر کہنے کی چوتھی وجہ یہ ہے کہ ”قدر“ کے ایک معنیٰ ”ضِیْق’“‘ یعنی تنگی کے بھی آتے ہیں …… چونکہ اس رات میں زمین پر فرشتے اس قدر زیادہ اور کثیر تعداد میں اترتے ہیں کہ زمین باوجود اپنی وسعت و کشادگی کے تنگ پڑ جاتی ہے۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا کہ جو شخص ”شبِ قدر“ میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے (عبادت کیلئے) کھڑا ہوا، اس کے پچھلے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں (بخاری و مسلم) حضور ﷺ نے فرمایا کہ پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پوشیدہ رکھا گیا ہے (1) لوگوں کی عبادت پر اللہ تعالیٰ نے اپنی رضا مندی ظاہر کرنے کو (2) گناہوں پر اپنے غضب اور غصہ کو ظاہر کرنے کو (3) وسطیٰ نماز کو دوسری نمازوں سے (4) اپنے دوستوں کو عام لوگوں کی نظروں سے (5) اور رمضان کے مہینہ میں شب ِ قدر کو (غنیۃ الطالبین)
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا کہ ”شب ِ قدر“ اللہ تعالیٰ نے میری امت کو عطا فرمائی ہے پہلی امتوں کو نہیں ملی۔
اس کے بارے میں مختلف روایات ہیں کہ اس امت پر اس انعام و اکرام کا سبب کیا ہے؟ بعض احادیث میں ہے کہ حضور ﷺ نے پہلی امتوں کی عمروں کو دیکھا کہ بہت لمبی لمبی عمریں ہوئیں ہیں اور آپ ﷺ کی ”امت“ کی عمریں بہت تھوڑی اور کم ہیں اگر وہ نیک اعمال میں ان کی برابری بھی کرنا چاہیں تو ناممکن ہیں اس پر حضور ﷺ کو بہت رنج و افسوس ہوا، اس کی تلافی کیلئے اللہ تعالیٰ نے یہ رات (شبِ قدر) مرحمت فرمائی۔
بعض روایت میں ہے کہ حضور ﷺ نے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا ذکر فرمایا کہ وہ ایک ہزار مہینے تک اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کرتا رہا…… صحابہ کرامؓ کو اس پر ”رشک“ آیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی تلافی کے لئے اس رات (شبِ قدر) کا نزول فرمایا……
حضرت عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور ؐ سے ”شبِ قدر“ کے بارے میں دریافت کیا تو آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ رمضان کے اخیر عشرہ کی طاق راتوں میں ہے، 29'27'25'23'21 یا رمضان المبارک کی آخر رات میں ہے۔
ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا حضور ؐ سے نقل فرماتی ہیں لیلۃ القدر کو رمضان المبارک کے اخیر عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو (بخاری شریف) حضرت ابی ابن کعبؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ لیلۃ القدر ستائیسویں رات ہے (مسلم)
حضرت ابن عباسؓ، حضرت ابن عمرؓ اور سیدنا حضرت امیر معاویہؓ بھی حضور ﷺ سے یہی نقل کرتے ہیں کہ وہ (لیلۃ القدر) رمضان المبارک کی ستائیسویں شب ہے (ابن کثیر)
حضورؐ نے فرمایا کہ اس رات (شب قدر) کی علامتوں میں سے یہ ہے کہ وہ چمکدار اور کھلی ہوئی ہوتی ہے، صاف و شفاف، نہ زیادہ گرم نہ زیادہ ٹھنڈی، بلکہ معتدل گویا کہ اس میں (انوار و برکات کی کثرت کی وجہ سے) چاند کھلا ہوا ہے، اس رات میں صبح تک آسمان کے ستارے شیاطین کو نہیں مارے جاتے، نیز اس کی علامتوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس کے بعد کی صبح کو آفتاب بغیر شعاع کے طلوع ہوتا ہے،…… بالکل ہموار ٹکیہ کی طرح ہوتا ہے جس طرح چودھویں رات کا چاند، اللہ تعالیٰ اس دن کے افتاب کے طلوع کے وقت شیطان کو اس کے ساتھ نکلنے سے روک دیتے ہیں۔ حضرت عبدہ‘ بن ابی لبابہؓ کہتے ہیں کہ میں نے رمضان المبارک کی ستائیسویں شب کو سمندر کا پانی چھکا تو بالکل میٹھا تھا……۔
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضورؐ اس لیے باہر تشریف لائے تاکہ ہمیں شب قدر کی اطلاع فرما دیں …… مگر د ومسلمانوں میں جھگڑا ہو رہا تھا، آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں اس لیے آیا تھا کہ تمہیں شب قدر کی خبر دوں، مگر فلاں فلاں شخص میں جھگڑا ہو رہا تھا جس کی وجہ سے اس کی تعیین اٹھا لی گئی کیا بعید ہے کہ یہ اٹھا لینا اللہ تعالیٰ کے علم میں بہتر ہو،لہٰذا اب اس رات کو 29ویں، 27ویں اور 25ویں شب میں تلاش کرو……
حضور ؐ کے فرمان کے مطابق ”شب قدر“ کی تعیین اٹھا لینے میں بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں کے لئے کوئی بہتری ہے اگر شب قدر کا علم باقی رکھا جاتا اور بتا دیا جاتا تو پورا رمضان المبارک سستی و غفلت میں گزرتا اور صرف شب قدر میں عبادت کی جاتی یا جس کی شبِ قدر بغیر عبادت کے گزر جاتی تو باقی رمضان المبارک کے ایام دکھ اور افسوس میں گزر جاتے اسی طرح اللہ تعالیٰ کی رحمت نے گوارا نہ کیا کہ اس عظمت والی رات کے معلوم ہونے کے بعد کوئی گناہ پر جرأت کرے کیونکہ اگر اس شب کے پانے پر ہزار مہینوں کی عبادت کا ثواب ملتا ہے اسی طرح اس شب میں گناہ کرنے پر ایک ہزار مہینوں کا گناہ بھی ہوتا…… اب انسان شب قدر کی تلاش میں ہر وقت عبادت و ریاضت میں مصروف رہتا ہے اور اسی شب قدر کی تلاش میں اعتکاف کرتا ہے اور زیادہ سے زیادہ وقت اللہ تعالیٰ کی عبادت و بندگی میں گزارتا ہے لیکن شب قدر کا زیادہ احتمال ستائیسویں شب میں ہے……۔
ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے حضور ﷺ سے پوچھا کہ یارسول اللہ (ﷺ) اگر مجھے شب قد کا پتہ چل جائے تو کیا دعا مانگوں؟ حضور ﷺ نے یہ دعا بتائی! اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوّ’‘ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنْیِّ (ترمذی، مشکوٰۃ)
ترجمہ! اے اللہ بے شک تو معاف کرنے والا ہے اور معاف کرنے کو پسند کرتا ہے، پس تو میری خطائیں بھی معاف فرما دے“
احادیث میں دعا مانگنے کی بڑی فضیلت و عظمت بیان کی گئی ہے، اس لیے ”شب قدر“ میں اور ہر وقت اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنی چاہیے، دعا زبان سے نکلے ہوئے ان الفاظ کو کہا جاتا ہے جو نہایت عاجزی و انکساری سے اللہ تعالیٰ کے حضور فریاد کرتے ہیں، دعا کے لئے وہ الفاظ زیادہ قیمتی اور مؤثر ثابت ہوتے ہیں جو دل سے اٹھتے ہیں اور زبان کی پوری تاثیروں کو ساتھ لیے بارگاہ ایز دی میں پہنچتے ہیں، ایسے الفاظ رحمت خداوندی اور بخشش و مغفرت کو گناہ گار کے دامن میں لاڈالتے ہیں، اللہ تعالیٰ ہم کو شبِ قدر کا حق ادا کرنے اور اللہ کی رحمت و بخشش و مغفرت کو سمیٹنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین

مزید :

ایڈیشن 1 -