خطیب اسلام حضرت مو لا نا محمد اجمل خان کی تصنیفی خدمات پر اکابرین کا خراج تحسین
پروفیسر ابوالحسن
بہت سے کم انسان ہو تے ہیں جو میدان خطابت کے شہسوارہوں اور سیاست کی پر خاروادی میں بھی چلتے ہوں اور ساتھ ساتھ تصنیف اور تالیف کے میدان میں بھی قلم کا بے دریغ استعمال کرتے ہوں۔ اللہ کریم نے یہ کمال خطیب اسلام حضرت مولانا محمد اجمل خان ؒکو عطا کیا۔ آپ کا شمار عظیم انقلابی خطباء میں ہوتا تھا۔ آپ کو خطیب اسلام کے لقب سے یاد کیا جاتا۔ مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع رحمتہ اللہ علیہ نے آپ کی تصنیف آداب القرآن کے ابتداء میں تبصرہ کرتے ہوئے آپ کو خطیب اسلام لکھا۔ حضرت مفتی صاحب کے علاوہ دیگر کئی اکابر نے بھی آپ کو خطیب اسلام اور خطیب ختم نبوت کے لقب سے یاد کیا۔آپ کی خطابت کے بارے میں اکابر کے تربیت یافتہ آغا شورش کاشمیری مرحوم نے ہفت روزہ چٹان میں آپ کا تعارف”بلبل بستان ختم بنوت“ کے عنوان سے کروایا۔ اور لکھا کہ: پنجاب میں دینی خطابت کا عواسی طنطنہ بزرگان احرار کی رحلت کے بعد قریب قریب ختم ہو چکا ہے۔ اللہ تعالی خزاں کے سناٹوں میں بھی بہار کی رونق پیدا کرتا ہے۔ پاکستان بننے کے بعد دو تین ہی صاحب طرز خطیب پیدا ہوئے ہمارا خیال ہے ان میں مولانا محمد اجمل خان سرقہرست ہیں۔ وہ تقریر نہیں کرتے جادو پھونکتے تھے۔ انہیں اردو، فارسی اور عربی زبانوں کے شہسوار کی خصوصیت حاصل ہے۔ ان کے بیان کا رنگ منفردتھا۔ ان کی زبان سے الفاظ اس طرح نکلتے ہیں جس طرح موسم گل میں شاخوں پر کلیاں کھلکھلا اٹھتی ہیں۔ وہ قرات کرتے ہیں طبیعت جھوم اٹھتی ہے۔ خطابت کے تیور ان کے ہم رکاب رہتے ہیں۔ مطالب ان کے لہجہ کو بوسہ دیتے ہیں اور الفاظ کا بہاء و اس طرح ہوتا ہے گویا دریا اپنے جوبن پر ہے۔ طبیعت باغ و بہار پائی ہے، خرام گفتار ہر لحظہ کترتا ہے۔ ختم بنوت کی اس آخری تحریک میں اپنی شبانہ روز خطابت کے جادو سے عا متہ ا لمسلمین کی طبیعتوں کو یکجا کیا اور پھر انھیں طوفان بنا دیا۔ آخر کار اس طوفان میں قادیانی امت کا سفینہ ڈوب ہوگیا،جن شخصیتوں نے اس تحریک کو اجالا اور اس میں قرون اولی کے مسلمانوں کی تب و تاب پیدا کی حضرت مولانا محمد اجمل خان بلا شعبہ ان سربرآوردہ اصحاب میں سے ایک ہیں حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے اس عمر میں آخرت کا توشہ خرید لیا۔
آپ کی تصنیفی خدمات ایک طویل مضمون کا تقاضا کرتی ہے۔ درجنوں کتابیں آپ نے تصنیف فرمائیں۔ پھر عربی زبان میں قرآن مجید کی لغت پر مشتمل لغات القرآن تحریر فرمائی پھر اس مردہ درویش نے عربی میں قرآن مجید کی تفسیر لکھ کر قرآن کی خدمات کرنے والوں میں اپنا نام لکھوا یا۔
مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمود نور اللہ مرقدہ نے آپ کی تصنیف آداب القرآن کے بارے میں لکھا ہے کہ آج تک اس موضوع پر ایسی جامع کتاب میری نظر سے نہیں گزری۔
مجاہد ملت حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی رحمتہ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ خطیب اسلام نے قرآن کے آداب پر کتاب لکھ کر امت کی عجیب راہنمائی فرمائی ہے۔
ممتاز عالم دین اور مناظر اسلام علامہ ڈاکڑ خالد محمود (پی۔ ایچ۔ ڈی لندن) تحریر کرتے ہیں کہ خطیب اسلام اس کی راسخ العلم علماء میں سے ہیں جنہوں نے ملک کی تبلیغی اور سیاسی خدمات کے ساتھ ساتھ قرآن کریم کو اپنی خدمات کا محور بنا لیا۔ لاہور میں آپ کا درس قرآن بڑی شہرت کا حامل ہے۔
پنجاب یونیورسٹی شعبہ عربی کے سربراہ محترم پروفیسر ظہور اظہر صاحب نے آپ کی ایک تصنیف کے ابتداء میں لکھا کہ خطابت و تصنیف یا دوسرے لفظوں میں قلم اور زبان یکساں قدرت بہت کم لوگوں کا مقدر بنتی ہے۔ حضرت مولانا محمد اجمل خان بھی ان خوش نصیب شخصیات میں سے ایک ہیں۔ ہم حضرت مولانا محمد اجمل خان کی شعلہ نوائی اور سحر بیانی کے مداح ہیں اور ان کے ذوق تحقیق اور زور قلم کے بھی قائل ہیں۔
1977ء کی تحریک نظام مصطفی? میں کراچی سے خیبر تک حضرت مولانا محمد اجمل خان نے اپنی خطابت سے ایک جان ڈالی۔ لاہور شہر میں لوہاری میں واقع مسلم مسجد میں قومی اتحاد کے علماء مشاء خ کا پر امن جلوس تھالیکن اس جلوس پر جو تشدد کیا گیا وہ تاریخ کا سیاہ باب ہے پولیس مسجد میں جوتوں سمیت داخل ہو گئی۔ بدترین لاٹھی چارج کیا گیا۔ علماء کرام کی داڑھیاں نوچیں گئیں۔ قرآن مجید کی بے حرمتی کی گئی۔ اس تشدد کا نشانہ حضرت مولانا محمد اجمل خان خود بھی نبے۔ اس تحریک کے دوران مسجد کی بے حرمتی کے واقعہ کے حوالہ سے حضرت مولانا زخمی دل تھے اور پھر آپ نے اس افسوسناک بے حرمتی کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک کتاب اسلامی معاشرے میں مسجد کا مقام تحریر فرمائی۔
جس پر مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمود نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ آپ;231;نے مستند حوالہ جات کے ساتھ بڑی خوبی سے مساجد کی تکریم و تعظیم کے متعلق ایک جامع کتاب تحریر فرما دی ہے۔ لاہور کی مسلم مسجد کی بے حرمتی کا واقعہ تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ حضرت مولانا نے درد دل کا مداوا کرنے کی غرض سے عجیب کتاب تحریر فرمائی ہے۔
حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب قدس سرہ مہتمم دارالعلوم دیو بند نے خطیب اسلام حضرت مولانا محمد اجمل خان کی تصنیف اسلامی معاشرے میں مسجد کا مقام پر تبصرہ کرتے ہوئے تحریر فرمایا کہ آپ نے مساجد کے سلسلہ میں احکام اور مقامات و مراتب کے جتنے گوشے ہو سکتے ہیں وہ سب واضح کر دیئے ہیں۔
عالم اسلام کے نامور موئرخ مبلغ اسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی آپ کی کتاب اسلامی معاشرے میں مسجد کے مقام پر رقمطرازہیں کہ خطیب اسلام نے اس اہم موضوع پر بہت تلاش اور جستجو سے کام لیا ہے۔
جانشین شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید اسعد مدنی نور اللہ مرقدہ اس کتاب پر اپنی رائے دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حضرت مولانا محمد اجمل خان نے نہایت عرق ریزی اور محنت سے کام لیتے ہوئے ایک اہم عنوان پر قلم اٹھایا جو وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔
شیخ الحدیث جامعہ اشرفیہ حضرت مولانا محمد مالک کاندھلوی آپ کی اس تصنیف پر لکھتے ہیں کہ خطیب اسلام حضرت مولانا محمد اجمل خان اپنے علمی کمالات اور جذبہ تبلیغ دین میں اکابر علماء میں ایک ممتاز اور نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ آپ ;231; نے مساجد کی اہمیت پر ایک بلند یا یہ کتاب تحریر فرمائی جو علوم و حقائق اور معارف و لطاء ف کا خزانہ ہے۔ حضرت خطیب اسلام مولانا محمد اجمل خان کی دینی،علمی،تحقیقی، تصنیفی، تبلیغی، سیاسی و سماجی خدمات پر آپ کو جس قدر خراج تحسین پیش کیا جائے وہ کم ہے۔ آپ کی خدمات جلیلہ کی وجہ سے آپ کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا اللہ کریم آپ کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔ آمین