بلوچستان کے ماہی گیر صرف 18مچھلیاں پکڑ کر راتوں رات لکھ پتی بن گئے
کوئٹہ(مانیٹرنگ ڈیسک) بلوچستان میں ماہی گیروں کا ایک گروپ 18کروکر مچھلیاں پکڑ کر راتوں رات لکھ پتی بن گیا۔ نیوز ویب سائٹ’پروپاکستانی‘ کے مطابق ان ماہی گیروں کا تعلق جیونی سے ہے، گزشتہ ہفتے ان کے ہاتھ یہ مچھلیاں لگیں۔ ان کی پکڑی گئی سب سے بڑی کروکر مچھلی 5لاکھ روپے میں فروخت ہوئی جبکہ باقی تمام 17مچھلیوں کے عوض انہیں صرف 8لاکھ روپے دیئے گئے۔
ماہی گیروں کے اس گروپ کے سربراہ کا نام سجاد عمر ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ اس سے پہلے بھی صرف ایک مچھلی 8لاکھ روپے میں فروخت کر چکے ہیں۔ برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق یہ ایک نایاب قسم کی مچھلی ہے جس کا شکار بہت مشکل ہوتا ہے۔ یہ مچھلی مارکیٹ میں بہت مہنگی فروخت ہوتی ہے۔ لہٰذا یہ ماہی گیر بدقسمت ہیں کہ جنہیں آٹھ سے دس لاکھ روپے ہی ملے ہیں۔
برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق گزشتہ سال جیونی سے ہی پکڑی گئی ایک کروکر مچھلی 72لاکھ روپے میں فروخت ہوئی تھی۔ واضح رہے کہ کروکر ایک نایاب مچھلی ہے جو مئی سے جولائی تک پاکستان کے سمندر میں پائی جاتی ہے۔ مختلف وجوہات کی بناءپر دنیا بھر میں اس مچھلی کی بہت مانگ ہے جس کی وجہ سے یہ بہت مہنگی فروخت ہوتی ہے۔ اس مچھلی کو اس کی مخصوص کر کر کی آواز کی وجہ سے کروکر کہا جاتا ہے۔ مچھلی یہ آواز اپنی مادہ کو بلانے یا دیگر ساتھیوں کے ساتھ رابطے کی وجہ سے نکالتی ہے اور اس کی یہی آواز اس کے شکار کا سبب بنتی ہے۔
گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر ماحولیات اور ماہر سمندری حیات عبدالرحیم بلوچ نے بتایا کہ یہ مچھلیاں اپنے گوشت کی وجہ سے بھی قیمتی ہوتی ہیں تاہم ان کے قیمتی ہونے کی سب سے بڑی وجہ ان کا ایئربلیڈر ہے جو طبی استعمال میں آتا ہے اور چین، جاپان اور یورپ میں اس کی بہت مانگ ہے۔ ان مچھلیوں کی قیمت کا تعین بھی ان کے ایئربلیڈر کے سائز کے لحاظ سے کیا جاتا ہے۔ کروکرمچھلی کا ایئربلیڈر جتنا بڑا ہو، اس کی قیمت اتنی ہی زیادہ ہوتی ہے۔