عمران خان مان جاؤ، صدر علوی کا مشورہ!
صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ایک انٹرویو میں 9 مئی کو قومی املاک پر حملوں اور گھیراؤ جلاؤ کی بھرپور مذمت کی اور کہا ہے کہ جو افراد ملوث ہیں،ان کو قرار واقعی سزا بھی ملنا چاہئے۔ صدرِ مملکت نے اس سلسلے میں یہ بھی کہا کہ کارروائی کے دوران مار پیٹ سے گریز کیا جائے اور آزادانہ تفتیش ہو،انہوں نے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو بھی مشورہ دیا کہ وہ بھی اس شرپسندی کی مذمت کریں خان صاحب نے اب تک توجہ نہیں دی اور تجاہل عارفانہ سے کام لے کر اپنا موقف دہرائے جا رہے ہیں کہ ان کے خلاف سازش ہوئی ہے،اس دوران جمعیت علماء اسلام کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمن نے ذرا کھل کر بات کو آگے بڑھایا اور انہوں نے60امریکی کانگریس مینوں کی طرف سے وزیر خارجہ بلنکن کو لکھے گئے خط پر غصے کا اظہار کیا اور اسے غیر ملکی مداخلت سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ ایسا نہیں ہونے دیا جائے گا۔
ملک میں 9 مئی کے واقعات کے بعد جو حالات بنے ہیں وہ قابل توجہ ہیں کہ حکومت نے ان کی طرف عوامی توجہ دلانے کی بھرپور کوشش کی، اس سے کامیابی بھی مل رہی ہے۔اس کا سب سے بڑا ثبوت خان صاحب کے زمان پارک والے ڈیروں کی ویرانی اور نگران حکومت کا دباؤ ہے، الزام یہ ہے کہ30سے40 ملزم زمان پارک میں پناہ گزین ہیں ان کو حوالے کرنے کا مطالبہ کیا گیا جس کے جواب میں عمران خان نے یہ پیشکش کی کہ باقاعدہ وارنٹ لے کر آ جائیں تو تلاشی دی جا سکتی ہے، اس کے بعد انہوں نے میڈیا کو اجازت دی اور گھر کا علاقہ دکھا بھی دیا، اب نگران حکومت نے طے کیا کہ آج (جمعہ) دو بجے کمشنر لاہور ڈویژن کی قیادت میں ٹیم زمان پارک مذاکرات کے لئے جائے گی اور مطالبہ کرے گی کہ جو دہشت گرد یہاں چھپے ہوئے ہیں ان کو حوالے کیا جائے کہ مصدقہ طور پر وہ لوگ یہیں پناہ لئے ہوئے ہیں۔زمان پارک والا گھر پولیس کے گھیرے میں ہے اور یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ 8 اور بعد میں 6مبینہ دہشت گردوں کو فرار کی کوشش کرتے ہوئے گرفتار کر لیا گیا ہے اور کسی کو فرار کا موقع نہیں دیا جائے گا یہ تناؤ جاری ہے اور عدالتی کارروائی بھی چل رہی ہے،جمعہ کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے عمران خان کی تین مقدمات میں عبوری ضمانت منظور کی اور ان کو تفتیش کے لئے دستیاب اور پیش ہونے کے لئے کہا،ان کی درخواست ضمانت میں یہ استدعا کی گئی تھی کہ وہ تفتیش میں شامل ہونا چاہتے ہیں اس لئے ان کو تحفظ دیا جائے۔ اس سلسلے میں استغاثہ والوں کو شکایت ہے کہ وہ نہ صرف کسی بھی مقدمہ میں شامل تفتیش نہیں ہوئے بلکہ ضمانتوں کے لئے بھی عدم موجودگی کا سلسلہ دراز کیا اور ان کو حفاظتی ضمانتیں ملتی رہیں، آج نگران وزیراعلیٰ نے فیصل آباد آئی ایس آئی کے دفتر پر مبینہ حملہ آوروں کی رہائی کے حوالے سے سہولت کاری کا الزام لگایا اور فاضل جج کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا اعلان کر دیا ہے جن کے احکام کے تحت ملزم رہا کیے گئے۔
الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کی بدولت حالات سے آگاہی رہتی ہے، میں خود جب جائزہ لیتا ہوں تو دُکھ ہی ہوتا ہے کہ اس محاذ آرائی کی وجہ سے ملک بھر میں گورننس کا نام نہیں، چہ جائیکہ کہ ”گڈگورننس“ کہا جائے۔ عوام مہنگائی، بیروزگاری کے علاوہ سرکاری محکموں کی غفلت اور لاپرواہی سے بھی نالاں ہیں اور حالات کے جلد معمول پر آنے کے لئے دعا کرتے ہیں لیکن ایسا ہو نہیں پا رہا،اس وقت حکومتی کوشش اور انتظامیہ کی فکر یہ ہے کہ جو افراد سی سی ٹی وی فوٹیج کی وجہ سے جلاؤ گھیراؤ میں نظر آئے ان کو گرفتار کر کے سزا دلائی جائے جبکہ تحریک انصاف کی لیڈر شپ کو بھی جیلوں میں ڈالا گیا ہے۔
مئی کے واقعات کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے ردعمل سے جوڑا جا رہا ہے۔حتیٰ کہ صدرِ مملکت نے بھی یہ کہا کہ محترمہ کی شہادت کے ردعمل میں بھی بہت نقصان ہوا اور آصف علی زرداری نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر ان کو سنبھالا،ایسا محسوس ہوا کہ محترمہ کی شہادت کے بعد والے ردعمل کو عمران خان کی گرفتاری کے ردعمل سے ملا کر یہ کہنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ پہلے بھی ایسا ہو چکا لیکن یہ امر فراموش کر دیا گیا کہ ایک ایسی خاتون لیڈر کو سرعام قتل کر دیا گیا جو حقیقتاً مقبول تھیں اور اس وقت ”میثاق جمہوریت“ ہو چکا تھا اور انتخابی مہم جاری تھی،کیا محترمہ کی شہادت اور عمران خان کی گرفتاری کو ایک پلڑے میں رکھا جا سکتا ہے؟پوچھا جا رہا ہے کہ کسی دفاعی پوزیشن یا فوج پر حملہ ہوا؟یہ تو جذبات پر تیل چھڑکنے والی بات ہے کہ محترمہ کی جان لی گئی اور یہاں صرف گرفتاری ہوئی وہ بھی ایک روز سے زیادہ نہ چل سکی۔ صدرِ مملکت نے بہت سی باتیں دِلی ہمدردی سے کی ہیں لیکن ان کا یہ موازنہ قطعاً درست نہیں، کیا وہ محترمہ کی شہادت کو کمتر ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے پیپلزپارٹی کے اعتدال پسند رہنماؤں کو بھی اس بیان کو رد کرتے ہوئے سنا ہے ان کا تو موقف ہے کہ عمران خان کو کسی آئین اور قانون کی پرواہ نہیں اور وہ تو پہلی بار گرفتار ہوئے تھے ان کی بے نظیر یا بھٹو سے مماثلت بنانے والے ان کا قد بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
جہاں تک عمران خان کی اپنی سیاست کا مسئلہ ہے تو ریاستی اور قومی املاک کو نقصان کی وجہ سے خان صاحب کو نقصان ہوا، ان کی حمایت میں کمی کا اندازہ تو نہیں لگایا جا سکتا، لیکن لوگوں نے بوجوہ ان کو چھوڑنا شروع کیا ہے تو یقینا کچھ فرق تو پڑے گا اور پڑا ہے۔ اس لئے کپتان کو اب واقعی ٹھنڈے دِل و دماغ سے سوچنا چاہئے کہ ان کی سیاست کا رخ اور متعین مقصد کیا ہے جہاں تک ان کی طرف سے انتخابات کے مطالبے کا تعلق ہے تو اس سے کسی نے انکار نہیں کیا البتہ وقت کا فرق ہے، موجودہ حکومت اسمبلیوں کی اصلی مدت گذر جانے کے بعد الیکشن میں جانا چاہتی ہے، مقصد صاف نظر آتا ہے کہ اتحادی کچھ وقت بھی چاہتے ہیں کہ وہ عوام کے لئے کچھ کر سکیں اور ان کا ووٹر ناراض ہو کر نہ بیٹھا رہے اس لئے بہتر رویہ یہی تھا کہ مذاکرات کے دوران انتخابی مدت پر بات کی جاتی اور14مئی پر اصرار نہ کیا جاتا۔اس طرح مسئلہ حل ہو جاتا اور امکانی طور پر انتخابات ستمبر میں ہونا طے پا جاتے،لیکن خان صاحب اپنے موقف پر مصر رہے۔
ہمارے سینئر سیاست دان حالات سے دلگیر اور چاہتے ہیں کہ حالات بہتر ہوں اور ملک کو معاشی دلدل سے نکالا جائے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حالات حاضرہ کی وجہ سے پاکستان کو خاص قسم کی سرد جنگ میں بھی دھکیلا جا رہا ہے۔آئی ایم ایف کے کار پردان کو غور کرنا چاہئے کہ ان کی طرف سے پاکستان کو معاشی استحکام سے روکنے کے لئے جو کوشش کی گئی ہے اسے ایک کیمپ سے نکال کر بتدریج دوسری طرف لے جائے گی۔ اس وقت پاکستان کے ہمدرد ممالک میں سے چین واحد ملک ہے جس نے بہت ہی کھل کر پاکستانیت کی حمایت کی اور برملا اعلان کیا ہے کہ پاکستان کو گرنے نہیں دیا جائے گا۔ گو چین بھی امن پر یقین رکھتا اور اعلان کرتا ہے حتیٰ کہ روس،یوکرین مسئلہ بھی بات چیت سے حل کرنے پر زور دیتا ہے لیکن معاشی میدان میں وہ مغرب کے ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں ہے۔اس وقت اُس کے پاکستان سے مفادات جڑے ہوئے ہیں صرف سی پیک ہی نہیں دیگر ترقیاتی منصوبوں میں اس کی بہت زیادہ سرمایہ کاری ہے اس کے لئے ہمارے ملک کا تحفظ لازمی ہے، اس کا ایک ثبوت تو اب پاک ایران سرحدی مارکیٹ اور گوادر کے لئے ایک سو میگاواٹ کا معاہدہ بھی ہے جو پاکستان اب تک گیس پائپ لائن معاہدے کو تکمیل کرنے سے گریز پا ہے وہ اب ایران سے تجارتی مراسم بھی ہموار کر رہا ہے،ان حالات میں امریکہ کے60 کانگرس مینوں کا خط بھی بامعنی ہے۔ یوں بھی عمران خان کی امریکہ میں لابی کے لئے دو کمپنیاں کام کر رہی ہیں یہاں سے محترم شہباز گل بھی پہنچ چکے ہوئے ہیں اور انہوں نے بھی9مئی کو خواتین کے مظاہرے منظم کر کے پاک فوج کے خلاف روایتی نعرے لگوائے تھے جبکہ امریکی اخبارات میں ایک بار پھر ”روگ آرمی“ والا اشتہار بھی چھپوایا گیا ہے۔