ایسا نہیں گھر اس کا بسایا نہ جائے گا ۔۔۔ بیٹی سے گھر یہ چھوڑ کے جایا نہ جائے گا
ایسا نہیں گھر اس کا بسایا نہ جائے گا
بیٹی سے، گھر یہ چھوڑ کے جایا نہ جائے گا
تخفیف اپنے فضل سے فرما دے یا خدا
فکروں کا اتنا بوجھ اٹھایا نہ جائے گا
کام آیا باوجود عداوت کے تو مرے
احساں یہ تیرا مجھ سے بھلایا نہ جائے گا
چہرے کی لوح پر لکھا پڑھ لیں جو پڑھ سکیں
رو رو کے دل کا حال بتایا نہ جائے گا
مجھ پر ہی خشک ہو گیا دریائے اشکِ خوں
اب میرے بعد کوئی رلایا نہ جائے گا
تکبندیا سخن کا ہنر تو مجھے بھی ہے
معیار لیکن اپنا گھٹایا نہ جائے گا
تفسیرِ کربِ خلق ہے عارفؔ کی شاعری
اس کو حصارِ ذات میں لایا نہ جائے گا
کلام :سید عارف لکھنوی( بھارت )