کرکٹ اشراف کھیلتے ہیں، فٹ بال دیہاتیوں کا کھیل ہے جٹ گنواروں کا! ہڈیاں تڑوانے کے اوربھی مہذب طریقے ہوسکتے ہیں(مشتاق احمد یوسفی کی مزاح سے بھرپور تحریر)

کرکٹ اشراف کھیلتے ہیں، فٹ بال دیہاتیوں کا کھیل ہے جٹ گنواروں کا! ہڈیاں تڑوانے ...
کرکٹ اشراف کھیلتے ہیں، فٹ بال دیہاتیوں کا کھیل ہے جٹ گنواروں کا! ہڈیاں تڑوانے کے اوربھی مہذب طریقے ہوسکتے ہیں(مشتاق احمد یوسفی کی مزاح سے بھرپور تحریر)

  

قسط:3

ہماری جو شامت آئی تو بول اٹھے، ”مرزا! کرکٹ رئیسوں کا کھیل ہے۔ دیکھتے نہیں یہ مر رہاہے۔ اس کا کوئی مستقبل نہیں کیونکہ نہ اسے روسی کھیلتے ہیں نہ امریکی۔“ 
”اسی سے کچھ امید بندھتی ہے کہ شایدیہ کھیل زندہ رہ جائے۔“ مرزا نے چھوٹتے ہی دہلا لگایا۔ 
”ایسا مہنگا اور پیچیدہ کھیل جس کا میچ مسلسل پانچ دن گھسٹتا رہے اور جسے ہمارے غریب عوام نہ کھیل سکیں اور نہ دیکھ پائیں، ہرگز لائق التفات نہیں۔“ ہم نے دکھتی ہوئی رگ پکڑی۔ 
”پھر کون سا کھیل لائق التفات ہے، حضور؟“ مرزا نے چڑاؤنے انداز میں پوچھا۔ 
”اس سے بہتر تو بیس بال رہے گی۔“ ہم نے کہا۔ 
”بات ایک ہی ہے، آدھا بیٹ ٹوٹ جانے کے بعد بھی کرکٹ جاری رہے تو امریکہ میں اسے بیس بال کہتے ہیں۔ کسی اور کھیل کا نام لو۔“ مرزا نے کہا۔ 
”ٹینس۔“ ہمارے منہ سے بے ساختہ نکلا۔ 
”اگر تم نے کبھی ٹینس میچ میں گیند کے ساتھ سینکڑوں تماشائیوں کی گردنیں ایک ساتھ پنڈولم کی طرح دائیں گھومتی دیکھی ہیں تو بخدا تمہیں اس کھیل ہی سے نفرت ہو جائے گی۔“ مرزا نے کہا۔ 
”اس کے یہ معنی ہوئے کہ تمہیں ٹینس دیکھنے پر اعتراض ہے۔ مت دیکھو مگر کھیلنے میں کیا حرج ہے؟“ ہم نے دبایا۔ 
”جی نہیں! یورپ میں ٹینس بیمار مردوں اور تندرست عورتوں کا کھیل ہے۔ 
صاحب! اچھے کھیل کی خوبی یہ ہے کہ 
کچھ ہاتھ ہلیں، کچھ پاؤں ہلیں، اچھلیں بازو، پھڑکے سب تن۔“ 
مرزا نے ایکاایکی ہمارے مقابلے پر نظیر اکبرآبادی کولا کھڑا کیاجن سے نبٹنا فی الجملہ ہمارے لئے مشکل تھا۔ 
”چلو ہاکی سہی۔“ ہم نے سمجھوتے کے انداز میں کہا۔ 
”چھی! ہماری یہ بڑی کمزوری ہے کہ اپنی ٹیم کسی کھیل میں جیت جائے تو اسے قومی کھیل سمجھتے لگتے ہیں اور اس وقت تک سمجھتے رہتے ہیں جب تک کہ ٹیم دوسرا میچ ہار نہ جائے۔“ مرزا نے فتویٰ دیا۔ 
”تمہیں پسند نہ آئے ،یہ اور بات ہے۔ مگر کراچی میں ہاکی کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ اگر کہیں دوستانہ میچ بھی ہورہا ہو تو خلقت اس بری طرح ٹوٹتی ہے کہ فیلڈ تک میں کھیلنے کی جگہ نہیں رہتی۔“ ہم نے کہا۔ 
”خدا آباد رکھے، کراچی کا کیا کہنا۔ بندر روڈ پر کوئی شخص راہ چلتے یونہی پان کی پیک تھوک دے اور پھر اس کی طرف ٹکٹکی باند ھ کر دیکھنے لگے تو دو منٹ میں ٹھٹ کے ٹھٹ لگ جائیں اور سارا ٹریفک رک جائے۔ یاد رکھو! تماشے میں جان تماشائی کی تالی سے پڑتی ہے، نہ کی مداری کی ڈگڈگی سے!“ مرزانے بات کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ 
”فٹ بال کیسی رہیگی؟“ ہم نے عاجز آکر آخر ان ہی سے پوچھا۔ 
مرزا کہنے لگے، ”کرکٹ اشراف کھیلتے ہیں، فٹ بال دیہاتیوں کا کھیل ہے۔ جٹ گنواروں کا! ہڈیاں تڑوانے کے اوربھی مہذب طریقے ہوسکتے ہیں۔ لاحول ولاقوة! 
اس باجماعت بد تمیزی کو کھیل کس نے کہہ دیا؟ آپ نے شاید وہ لطیفہ نہیں سنا کہ ایک پرانا کھلاڑی چند سکھوں کو فٹ بال سکھا رہا تھا۔ جب کھیل کے سب قاعدے ایک ایک کر کے سمجھا چکا تو آخر میں یہ گر کی بات بتائی کہ ہمیشہ یاد رکھو، سارے کھیل کا دارومدار فقط زور سے کک لگانے پر ہے۔ اس سے کبھی نہ چوکو۔ اگر گیند کو کک نہ کر سکو تو پروا ہ نہیں۔ اپنے مخالف ہی کو کک کر دو۔ اچھا اب کھیل شروع کرو، گیند کدھر ہے؟ یہ سن کر ایک سردار جی اپنا جانگیا چڑھاتے ہوئے بے تابی سے بولے، گیند دی ایسی تیسی! تسی کھیل شروع کرو، خالصہ!“ 
”لیکن گنواروں اور دیہاتیوں کے ساتھ کھیلنے میں کون سی ہیٹی ہوتی ہے؟“ ہم نے اپنے جمہوری جذبے سے تقریباً نڈھال ہوکر پوچھا۔ 
”تفریح میں بری صحبت سے پرہیز لازم ہے۔ یاد رکھئے آپ تجارت اور عبادت تو کسی کے ساتھ بھی کرسکتے ہیں لیکن تاش صرف اشرافوں کے ساتھ کھیلنے چاہئیں۔ یہی نہیں یوروپ میں بھی اس فرق کو ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ وہاں بڑے بڑے اسٹاک ایکس چینج اور گرجا میں ہرکس و ناکس کو بے روک ٹوک جانے کی اجازت ہے مگر کلب اور کسینو (قمار خانہ) میں فقط خاندانی شرفا بار پاتے ہیں۔“ 
کیا عرض کریں، کرکٹ کے مخالفوں کو قائل معقول کرنے کیلئے مرزا کیسی کیسی دھاندلی روا سمجھتے ہیں اور آن واحد میں بات کو تنگنائے منطق سے نکال کر اس مقام پر پہنچا دیتے ہیں جہاں بات کرتے دشمنوں کی زبان کٹتی ہے۔ بات گنجلک ہوئی جاتی ہے۔  (جاری ہے )

کتاب " چراغ تلے " سے اقتباس