صحافت کا اختر....حےات چھوڑ گےا
اُسے شاعری سے لگاﺅ، شاعروں سے محبت تھی۔ وہ ادب شناس تھا اور ادےبوں سے عقےدت رکھتا تھا۔ وہ دانش کدوں مےں بےٹھتا تھا اور دانشوروں کا احترام کرتا تھا، مگر اُس نے خود کبھی شاعر، ادےب ےا دانشور ہونے کا دعویٰ نہےں کےا تھا۔ اُس کا ذرےعہ ¿ روزگار صحافت تھا اور اُسے لوگ صحافی کی حےثےت سے ہی جانتے اور پہچانتے تھے۔ اُس نے کبھی بھی” زرد صحافت “کا لبادہ نہےں اوڑھا تھا۔ گفتار مےں شائستگی، چال مےں وقار، کردار مےں پختگی اُس کا طرہ¿ امتےاز تھا۔ اُس نے ساری زندگی اپنے پاﺅں پر چلنے کو اہمےت دی۔ لاہور بھر کی سڑکوں پر اُس کے قدموں کے نشان ہمےشہ اُس کی مسافتوں کا پتہ دےتے رہےں گے،جس دن وہ حادثے کا شکار ہوا، اُس دن بھی وہ پاﺅں پاﺅں چلتے ہوئے سڑک پار کرنے کے لئے آگے کےا بڑھا کہ وہ موت کی شاہراہ عبور کر گےا۔ اُس کی ناگہانی موت پر صحافت کی دنےا مےں صف ِ ماتم بچھ گئی۔ ہر آنکھ اشکبار تھی اور ہر خبر پڑھتے ہوئے ےہی گمان ہورہا تھا کہ ”اختر حےات کی موت کی خبر“جھوٹی ہے، جن لوگوں کو اس خبر کی صداقت کا علم تھا، اُنہےں بھی اس خبر پر ےقےن نہےں آ رہا تھا اور جن کو ےقےن تھا، وہ بھی دل سے ےہی چاہنے پر مجبور تھے کہ خدا کرے ےہ خبر جھوٹی نکلے، مگر خدائی تقدےر کے آگے انسان بے بس ہے، چنانچہ اُس کے ہزاروں چاہنے والوں نے اپنے ہاتھوں سے اُسے بے ےقےنی ، غم و حُزن اور ملال کے عالم مےں منوں مٹی کے نےچے دفنا دےا۔ اختر حےات اےک صحافی کی حےثےت سے مجھے کئی بار ملا، مگر اُس کی شخصےت کی وضع داری، مروت ، لحاظ اور محبت نے جلد ہمےں دوستی کے رشتے مےں منسلک کر دےا۔ وہ اپنی بذلہ سنج شخصےت کے باعث دلنشےں باتوں کے ذرےعے مےرے دل مےں اُترتا چلا گےا۔
جب وہ مجھے پہلی بار ملاتھا تو اخلاقی تقاضوں کے پےش ِ نظر ہم اےک دوسرے کو آپ جناب کہہ کر بلاےا کرتے تھے، مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اگرچہ ہمارے تعلقات مےں مضبوطی اور ذہنی ہم آہنگی مےں اضافہ ہوتا چلا گےا، لےکن وہ آپ اور جناب کہہ کر بلانے کا تعلق آخر دم تک قائم رہا۔ ہماری دوستی مےں اتنی بے تکلفی تھی کہ بعض اوقات محفل مےں بےٹھے کسی تےسرے شخص کو ےہ اندازہ لگانا مشکل ہو جاتا تھا کہ ہم دونوں مےں سے کون کسے بات لگا رہا ہے ۔اگر مَےں اُس کی محبت مےں مبالغہ آرائی سے کام نہےں لے رہا تو مَےں ےہ کہنے مےں حق بجانب ہوں کہ وہ شعبہ صحافت کا اےسا ضوفشاں ستارہ تھا جو قبر کی مٹی کے اندر بھی جگمگاتا رہے گا اور صحافت کی دنےا مےں اُس ستارے کی ضوفشانی کو دےکھ کر قافلے منزلِ مسافت کی طرف بڑھتے رہےں گے اور امرِ واقعہ ےہ ہے کہ اختر حےات خدائی تقدےر کے مطابق دنےا چھوڑ گےا، مگر اےک دنےا ہے جو اُس سے محبت کرتی ہے اور کرتی رہے گی اور ےہی وہ دنےا ہے، جو کبھی اختر حےات کی ےادوں کو فراموش نہےں کرے گی ۔ اُس سے محبت کرنے والے ہزاروں انسان مرتے دم تک اپنی دعاﺅں مےں اُسے ےاد رکھےں گے اور اُس کے درجات کی بلندی کے لئے بارگاہ ِ اےزدی مےں سجدہ رےز ہوتے رہےں گے۔ وہ پاکستان کے کثےر الاشاعت اخبارات اور معتبر ٹی وی چےنلوں مےں کام کرتا رہا، مگر وہ کبھی متکبر نہےں ہوا۔ عاجزی وانکسازی اُس کا شےوہ تھا۔ وہ خوش مزاج ، ملنسار اور مرنجاں مرنج شخصےت کا مالک تھا۔ وہ دوستوں اور دشمنوں کا دل جےتنے کا ہنر جانتا تھا۔
وہ کڑوے پھولوں کو بھی شےرےں لبوں سے بوسہ دےتا اور کانٹوں سے دامن بچا کر گزر جاتا۔ وہ اتنا سُلجھا ہواتھا کہ مےں نے کسی کو اُس سے اُلجھتے ہوئے نہےں دےکھا ۔ اختر حےات کی وفات پر ”چےک پوسٹ“ پر کھڑے پروفےسر ناصر بشےر نے اپنے کالم مےں لکھا ہے کہ ”اختر حےات کو لاہور سے عشق تھا:“ مَےں سمجھتا ہوں محترم ناصر بشےر نے ےہاں پر اجتہادی غلطی کی ہے حقےقت ےہ ہے کہ لاہور کو اختر حےات سے عشق تھا اور اُس کا ثبوت ےہ ہے کہ جس دن سے اختر حےات کے قدموں کی چاپ اور سانسوں کی مہک سے لاہور محروم ہو ا ہے اُس دن سے لاہور کی مسموم فضائےں سوگوار دکھائی دےتی ہےں اور وہ پاک ٹی ہاﺅس جو اختر حےات کی پسندےدہ جگہ تھی وہ ہر لحظہ ماتم کناں ہے اور حلقہ ¿ ارباب ذوق تو گوےا اےسا بدذوق ہوا ہے جےسے شہد کے چھتے مےں سے شہد نچوڑ لےنے کے بعد چھتہ بدذائقہ ہو جاتا ہے۔ لاہور کی گلےاں اور کوچے، سڑکےں اور بازار اُن قدموں کو ترستے دکھائی دےتے ہےں جو قدم جب، جہاں اور جےسے کی بنےاد پر جدھر کوبھی اُٹھ جاتے ادھر حےات کا اختر چلتا ہوا دکھائی دےتا ۔ اختر حےات نے اپنی زندگی کی زےادہ تر مسافتےں پےدل طے کی تھےں۔ اُسے اگر حج کرنے کا موقع ملتا تو غالب امکان ہے کہ وہ حج کی مسافت بھی پےدل ہی طے کرنے کی سعادت پاتا۔ اُسے پےدل چلنا گوےا راس آ گےا تھا۔ وہ ہر منزل پر پےدل پہنچنے کا عادی ہو چکا تھا۔
جس روز وہ حادثے کا شکار ہوا، اُس دن بھی وہ پرےس کلب سے اپنے دوستوں سےف اللہ خالد، عبدالسلےم، مجےد شےخ، احسان غنی اور اطہر سلےم کو فون پر ےہ کہہ کر نکلا کہ مَےں آپ کے دفتر واقع اےجرٹن روڈ پر چائے پےنے آرہا ہوں۔ ابھی وہ پےدل چلا ہی تھا کہ تقدےر کا فےصلہ اُس کی منزل کے خلاف جاری ہو گےا۔ اےک تےز رفتار موٹر سائےکل سوار اُس کے قدموں سے اُلجھ گےا اور اُس کے منزل کی طرف اُٹھے ہوئے قدم اُس کا ساتھ چھوڑ گئے۔ وہ پرےس کلب سے ”بےلنس اےڈ“ کے دفتر پہنچنے کے بجائے ہسپتال جا پہنچا اور ےہ سفر اُس کی زندگی کا اےک اےسا سفر بن گےا، جس مےں اُس نے زندگی کے قدموں سے ناتہ توڑ تے ہوئے خود کو اپنے چاہنے والوں کے کندھوں کے حوالے کر دےا ۔ سسکےوں کے کفن مےں لپٹا ہوا اختر حےات سےنکڑوںسوگواروں کے کندھوں پر سفر کرتے ہوئے لحد مےں اُتر گےا۔ موت نے اُسے اس قابل بھی نہ چھوڑا کہ وہ اپنا آخری سفر اپنے قدموں پر طے کر سکتا۔ اُس کی نمازِ جنازہ اےک تارےخ ساز اہمےت کی حامل ہے، کےونکہ لاہور کی سر زمےن پرمعروف صحافی عباس اطہر کے جنازے کے بعد اختر حےات وہ واحد صحافی ہے، جس کی نمازہ جنازہ مےں پرنٹ و الےکٹرانک مےڈےا سے وابستہ غےر معمولی صحافےوں سمےت مختلف مکاتب فکر کے لوگوں کی کثےر تعداد شرےک ہوئی۔ نماز ِ جنازہ کی ادائےگی کے بعد ہر چہرہ غم کی آماجگاہ دکھائی دےتا تھا۔ اُس موقع پر سےنکڑوںصحافی، شاعر، دانشور ، ادےب، سےاسی و سماجی شخصےات گوےا اےک ہی دکھ کا اظہار کررہے تھے کہ آج صحافت کا اختر ، حےات، چھوڑ گےااور گوےا اختر حےات ےہ کہہ رہا تھا کہ:
شکرےہ ، اے قبر تک پہنچانے والو شکرےہ
اب اکےلے ہی چلے جائےں گے اس منزل سے ہم
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اختر حےات کو کروٹ کروٹ جنت نصےب کرے اور پسماندگان کو صبر جمےل کی توفےق عطا فرمائے(آمےن) ٭