ایک سابق صدر کے بعد سابق وزیر اعظم بھی زد میں تجزیہ:چودھری خادم حسین
ایک سابق صدر کو مختلف مقدمات کے علاوہ اب آئین کو پامال کرنے کے الزام میں آئین کے آرٹیکل 6کی خلاف ورزی کا سامنا ہے اور امکان ہے کہ اب تک خصوصی عدالت بن چکی ہو گی یا ایک دو روز میں بن جائے گی۔ حکومت نے شاید زیادہ محفوظ راستہ تلاش کیا حالانکہ عدالت کے قیام کا اختیار اسی کے پاس ہے اور بقول آئینی ماہر، سابق وفاقی وزیر قانون ڈاکٹر خالد رانجھا اب اس خصوصی عدالت میں حکومت کو استغاثہ پیش کرنا اور پھر اس کے حق میں شہادتیں لانا ہے۔ عدالت بہرحال قانونی طریقہ اختیار کرے گی اور استغاثہ کی سماعت کا فیصلہ کرنے کے بعد ہی فریق ثانی کو نوٹس دے گی جو جنرل (ر) پرویز مشرف ہیں اور ان کو جواب دینا ہو گا حکومت کی طرف سے جس اختیار کا مظاہرہ کیا گیا اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس استغاثہ کو نمٹانے میں بھی جلدی کی جائے گی۔ بہرحال اس کا انحصار اس کارروائی پر ہے جو خصوصی عدالت میں ہو گی کہ خود پرویز مشرف تو الزامات سے انکار کریں گے اور اس انکار کا دفاع بھی کریں گے۔ اس کیس میں دلچسپ امر یہ ہے کہ سماعت کے لئے جو خصوصی عدالت تشکیل دی جا رہی ہے۔ وہ جن تین فاضل جج حضرات پر مشتمل ہے جن کا تعلق ہائی کورٹس سے ہے اس لئے اگر شواہد کے بعد فیصلہ جنرل(ر) پرویز مشرف کے خلاف ہوتا ہے ۔تو ان کو اس کے خلاف اپیل عدالت عظمیٰ میں کرنا ہو گی۔ یوں دیکھا جائے تو ان سے اپنے دفاع کا ایک مرحلہ چھن گیا ہے اور جہاں تک عدالت عظمیٰ کا تعلق ہے تو 3نومبر 2007ءکے اقدام کے حوالے سے اس کا فیصلہ موجود ہے۔ جنرل (ر) پرویز مشرف دعویٰ کر رہے ہیں کہ وہ دفاع کریں گے اور سرخرو ہوں گے اس کا علم تو سماعت کے اختتام پر فیصلے سے ہی ہو گا۔ بہرحال ایک بات طے ہے کہ یہ معاملہ کئی پہلو اجاگر کرنے کا باعث بنے گا اور ابھی تک یہ واضح نہیں کہ جنرل(ر) پرویز مشرف کے وکیل کون ہوں گے کہ بہت اندازہ اس نام سے بھی ہو جائے گا جو دفاع کے وکیل کے طور پر پیش ہوں گے۔
دوسری طرف گزشتہ روز ایک سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نیب کی طرف سے دائر کئے جانے والے ریفرنس میں ملزم نمبر10کے طور پر احتساب عدالت میں پیش ہوئے۔ یہ ریفرنس رینٹل پاور کے حوالے سے ہے اس میں بھی عدالت عظمیٰ ہی نے نوٹس لیا اور کارروائی کی ہدایت کی تھی۔ راجہ پرویز اشرف کو ریفرنس کی نقول دے کر آئندہ تاریخ کے لئے جواب طلب کیا گیا ہے۔ یہ کرپشن کا ایک کیس ہے اس کے علاوہ بھی حج کرپشن اور ای او بی آئی کیس ہیں ایک میں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور سابق وزیر حامد سعید کاظمی بھی ملزم ٹھہرائے گئے ہیں جبکہ ایک اور سکینڈل میں سابق وفاقی وزیر مخدوم امین فہیم بھی ریفرنس کا سامنا کریں گے۔
ان تمام تر حالات سے تو یہ احساس ہوتا ہے کہ حکومت جماعت نے تھوڑا عرصہ انتظار کیا اور اس دوران منصوبہ بندی کی گئی اور اب زیادہ اعتماد کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاملات کو آگے بڑھایا ہے۔ غیر ملکی ذرائع ابلاغ اسے خطرناک بھی قرار دے رہے ہیں لیکن یہ احساس بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ شاید یہ سب ہوم ورک کا نتیجہ ہے۔ اس وقت حکومت کو مہنگائی اور بدامنی جیسے حالات کا سامنا ہے اور اب تو راولپنڈی کے سانحہ کے بعد زیادہ مشکل حالات پیدا ہو گئے ہیں۔ حکومت کو ان سب سے نمٹنا ہو گا اور یقیناً یہ بہت ہی مضبوط اعصاب کا بھی کام ہے۔
جہاں تک سانحہ راولپنڈی اور اس کے بعد اثرات کا تعلق ہے تو یہ بہت حساس مسئلہ ہے۔ دیر سے ایسی کوشش ہو رہی تھی کہ فرقہ وارانہ فساد کی نوبت آئے لیکن متاثرین (خواہ ان کا تعلق کسی بھی مسلک سے ہے) کی برباد باری اور عقلمندی سے ایسا نہیں ہوا لیکن اب بالاخر یہ آگ بھڑک گئی ہے ضرورت اس امر کی ہے اس مسئلہ کو بہت زیادہ سنجیدگی سے نمٹایا جائے اور اس کے لئے صحیح ذمہ داروں کی نشان دہی کے بعد ان کو نشان عبرت بنانے کی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ ہی تمام مکاتب فکر کے ذمہ دار اور با اثر علماءکرام اور دینی تنظیموں سے ٹھوس بات چیت کے ذریعے لائحہ عمل مرتب کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ شاید اب وقت آ گیا ہے کہ دین کے نام پر انتہا پسندی کا جائزہ لیا جائے اور تمام مکاتب فکر کے باہمی تعاون اور مرضی سے مذہبی جلوسوں کا نیا انتظام کر لیا جائے۔ مستقبل میں امن اور بھائی چارے سے رہنا ہی ملکی ، قومی اور دینی مفاد میں ہے۔