نوبل انعام، امن اور ملالہ
’’ایک حصہ اس شخص کو دیا جائے گا، جس نے دو قوموں کے مابین بھائی چارے کے لئے، مستقل افواج کے خاتمے یا کمی کے لئے، امن اجتماعات اورمجالس کے انعقاد و ترویج کے لئے، سب سے زیادہ یا سب سے بہترین کام کیا ہو‘‘۔ بیان کردہ اقتباس الفرڈ برنہارڈ نوبیل کی وصیت کا حصہ اور نوبیل امن انعام کے مستحق کے انتخاب کا رہنما اصول ہے۔ نوبیل امن انعام کا فیصلہ ناروے سٹورٹنگ (ناروے پارلیمنٹ) کی منتخب کردہ مجلس (کمیٹی) کرتی ہے۔ کمیٹی کے موجودہ سربراہ ناروے پارلیمنٹ کے سابق صدرہیں۔ وزیراعظم اور وزیر خارجہ کے عہدے پر بھی ذمہ داریاں نباہ چکے ہیں۔ کمیٹی کی نائب، کابینہ میں وزیراورکنزرویٹوپارٹی کی چیئرمین رہ چکی ہیں۔ دیگر دوخواتین ممبرمیں سے ایک سابقہ ممبرپارلیمنٹ ہیں اورایک ناروے بارایسوی ایشن کی سابقہ صدرہیں۔ پانچویں ممبراوسلو کے سابقہ بشپ (مذہبی قائد) ہیں۔
دیگر نوبیل انعامات کا فیصلہ مختلف ادارے کرتے ہیں۔ نوبیل انعامات کی تقسیم کے لئے دو تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ سٹاک ہوم (سویڈن) میں10دسمبر کو فزکس، کیمسٹری، میڈیسن، ادب، اکنامک سائنسز کے انعامات دیئے جاتے ہیں۔ 10دسمبر الفرڈ نوبیل کی تاریخ وفات ہے۔ تقریب سٹاک ہوم کنسرٹ ہال میں منعقد کی جاتی ہے۔ اس کے فوراً بعد بینکوئٹ (ضیافت) سٹاک ہوم سٹی ہال میں جاری رہتی ہے۔ سویڈن کا بادشاہ انعامات تقسیم کرتا ہے۔ تقریب میں سویڈن کا شاہی خاندان اور1300 کے لگ بھگ مہمان شرکت کرتے ہیں۔ ضیافت میں تھری کورس ڈنر (عشائیہ) دیا جاتا ہے۔ موسیقی، تفریح اور رقص اس ضیافت کا حصہ ہوتے ہیں،جبکہ امن انعام کی تقریب 1990ء سے اوسلو سٹی ہال (ناروے) میں منعقد کی جا رہی ہے۔ نوبیل کمیٹی کا سربراہ ناروے کے بادشاہ کی موجودگی میں 10دسمبرکو امن انعام دیتا ہے۔ ضیافت اوسلو گرینڈہوٹل میں منعقد ہوتی ہے۔ 250 مہمانوں کے لئے فائیو کورس پر مشتمل دعوت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ضیافت کے مقام، رنگ اور روشنیوں کے چناؤ، موسیقی، کٹلری اورفرنیچر پرخاص توجہ دی جاتی ہے۔ 1979ء میں اوسلومیں منعقد کردہ ضیافت ٹریسا کے انکار کے سبب منسوخ کر دی گئی تھی۔ اس برس نوبیل امن انعام سماجی کارکن ٹریسا (جن کا مشہور نام مدر ٹریسا ہے) نے حاصل کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ بہتر ہے یہ رقم غریبوں پر خرچ کر دی جائے۔ ٹریسا نے ضیافت کے لئے مختص رقم سے دو ہزار بے گھر افراد کے لئے کرسمس پر عشائیہ ترتیب دیا۔
نوبیل انعام طلائی تمغہ، ڈپلومہ (سند)اور نقدی پر مشتمل ہوتا ہے۔ 2009ء میں ایک مکمل انعام یافتہ کے لئے 10 ملین سویڈش کرونا کی خطیررقم تھی، جوکہ ایک اعشاریہ چارملین امریکی ڈالر کے مساوی تھی۔ 2014ء میں یہ رقم 8 ملین سویڈش کرونا ہے۔ ایک سویڈش کرونا، 14 پاکستانی روپے کے برابرہے۔ طلائی تمغہ کی ایک سمت الفرڈ نوبیل کی شبیہ ہے۔ پشت پر تین عریاں اشخاص کا نقش ہے، جنہوں نے بازو حمائل کر رکھے ہیں۔ الفریڈ نوبیل امن انعام کے ذریعہ عالمی بھائی چارے کا فروغ چاہتا تھا۔ یہ نقش اس بھائی چارے کی نمائندگی کرتا ہے۔
نوبیل کمیٹیز پر تنقید کی جاتی ہے کہ ان کا ایجنڈا سیاسی ہے۔ مستحق امیدواران کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔ بالخصوص ادب کے انعام کے حوالے سے یورپ کو مرکزی اہمیت دی جاتی ہے۔ نوبیل امن انعام پر دائیں بازو کی چھاپ کاالزام بہی لگایا جاتاہے۔ 1973ء میں ہنری کسنجر اور لی ڈک تھور(ویت نامی رہنما) کو ویت نام میں جنگ بندی کی کوششوں کے سبب انعام دیا گیا۔ ویت نامی رہنما نے انعام لینے سے انکار کر دیا۔ اس کا کہنا تھا کہ ابھی تک جنوبی ویت نام میں امن قائم نہیں ہوا، جبکہ امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ ہنری کسنجر نے انعام وصول کیا۔ ناقدین کاکہنا تہا کہ ہنری امن کا سفیر نہیں، بلکہ اس کے برعکس رویہ کا حامل تھا۔ اس موقع پرنوبیل کمیٹی کے دو ارکان نے استعفیٰ دے دیا تھا۔ 2009ء میں امریکی صدر بارک حسین اوباما کو نوبیل امن انعام دیا گیا۔ اوباما نے نوبیل انعام کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے امریکی افواج کے کمانڈران چیف کی حیثیت سے افغانستان اور عراق پر حملے کا جواز پیش کیا، جبکہ ایران اور شمالی کوریا کے جوہری طاقت کے حصول کی کوششوں کی مذمت کی۔ سویڈش رپورٹر نے جون 2013ء میں درج ذیل عنوان سے تحریر رقم کی: ’’ ڈئیراوباما، یہ نوبیل انعام واپس کرنے کا وقت ہے،اور وجہ بھی حاضرہے‘‘۔ تحریر میں رپورٹر نے شام پرمیزائل برسانے اور مشرق وسطیٰ میں پانچ سالہ ڈرون جنگ کو بطور وجہ بیان کیا ہے۔
چینی باشندے لیو زائبو کو2010ء میں انسانی حقوق کے نام پرامن نوبیل انعام دیا گیا۔ لیو کو 2009ء میں 11سال کی سزا سنائی گئی تھی۔ چینی حکومت نے نوبل انعام پر ناراضگی کا اظہار کیا اور بھرپور احتجاج کیا۔ کئی ممالک نے اسے چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دے کر عالمی سطح پر چین کا ساتھ دیا۔ چین نے ناروے پرغیر سرکاری تجارتی پابندیاں عائد کر دیں۔ ناروے کی برآمدات کو نقصان پہنچا۔ اب ناروے چین کے ساتھ بہترتعلقات کے لئے کوشاں ہے۔ 2014ء میں ناروے نوبیل کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ بچوں اور نوجوانوں پر ظلم کے خلاف اور ان کے تعلیم کے حق کے لئے کاوشیں کرنے پر امن انعام کیلاش ستیارتھی اور ملالہ یوسف زئی کو دیا جائے۔ رسمی بیان کے مطابق ’’نوبیل کمیٹی اس کو اہم نکتہ گردانتی ہے کہ ایک ہندو اورایک مسلمان ،ایک بھارتی اور ایک پاکستانی، دونوں مشترکہ جدوجہد میں ہیں جو تعلیم کے فروغ کے لئے ہے اور انتہا پسندی کے خلاف ہے‘‘۔
برطانیہ میں مقیم ملالہ یوسف زئی کو انعام ملنے پر ملکی و غیر ملکی میڈیا نے اس کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیئے، جبکہ ناقدین کی آراء بہی قابل توجہ ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے سوات میں ہزاروں بچے اور بچیاں سنگین حالات کے باوجود روزانہ سکول جاتے رہے ہیں، جا رہے ہیں اورمادر وطن کی آغوش کو الوداع بھی نہیں کہا۔ قبائلی علاقہ جات میں ڈرون حملوں کے باوجود بچوں نے علم کا پرچم تھام رکھا ہے۔ یورپین یونین کو امن انعام مشترکہ طورپرپیش کیا جا سکتا ہے توپاکستانی بچوں کو کیوں نہیں؟ غزہ (فلسطین) کی بیٹی برسوں سے آگ و بارود کے سائے میں تعلیم حاصل کررہی ہے وہ انعام کی مستحق کیوں نہیں؟ اوباما اورہیلری جیسے ’’امن پسند‘‘ ملالہ کے لئے رول ماڈل ہیں۔ ملالہ کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے میڈونا کا سٹرپ ٹیز اوربدن پرنام کو رنگ سے نمایاں کرنا، یقیناًغیرمعمولی ہے۔’’آئی ایم ملالہ‘‘ میں سلمان رشدی کے حق میں آواز بلند کی جاتی ہے۔ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے پرتعجب خیز رویہ اختیارکیا جاتا ہے۔ اسلامی شعائرکے بارے میں استہزایہ اسلوب اختیارکیا جاتا ہے۔ پاکستان میں بیسیوں افراد و ادارے ملالہ کی عمر اور کام سے بلند ہیں، یہ ضرورہے کہ وہ دین و وطن کی تضحیک سے انکاری ہیں۔ ویت نامی رہنما نے ’’خاک چمن‘‘ کومقدم جانا ، جبکہ کمسن نے ’’انعام امن‘‘ کو اہم سمجھا !