تیز رفتار ترقی اور جمود کا شکار پاکستان
وقت بہت تیزی سے گزر جاتا ہے اور گزر رہا ہے اور ہر لمحہ اپنی یادیں نقش کر جاتا ہے۔ پچھلے ہفتے فیس بک انتظامیہ نے اس خاک نشیں کو یاد کروایا کہ تم گیارہ سال پہلے فیس بک فیملی کے ممبر بنے تھے اور ہمارے لئے فخر اور خوشی کی بات ہے کہ آپ اپنے بہت سارے دوستوں کو لیکر ہمارے ساتھ چل رہے ہیں۔
سوچتا ہوں کہ اللہ کی کائنات کے اس ایک ذرے پر جس کا نام زمین ہے۔ ارتقاء اور تغیر کی کیا رفتار ہے۔ ابھی کل کی بات لگتی ہے۔ جب ہم بستے اٹھائے پرائمری اسکول میں جاتے تھے۔ وہ بالکل مختلف دنیا تھی، خواہشات اور تھیں اور خواب بھی کچھ اور تھے۔ مجھے یاد ہے۔ جب پہلی بار گھر والوں نے ریشمی سوٹ بنوا کر دیا۔ (اس کپڑے کو فلیٹ کا نام دیا گیا تھا۔ پھر اس سے بھی بڑھ کر قیمتی لباس ہائی صافی کے نام سے مشہور ہوا تھا) تو ہم فخر سے لوگوں کو اپنا پہناوا دکھاتے کہ یہ بہت کم ہم مکتب بھائیوں کو نصیب تھا۔ ہمارا سکول ایک درخت کی چھاؤں میں تھا اور ہم قدرتی فرش پر بیٹھ کر ایک ماسٹر جی اور ان کے ڈنڈے کے زیر خوف تعلیم حاصل کر رہے تھے۔
اس زمانے میں کمیونی کیشن کا سب سے بڑا ذریعہ آلا (زور سے آواز دینا) ہوتا تھا، یعنی جب کسی کو دور دراز سے بلانا ہو یا کسی گاوں کے مکینوں کا اکٹھ کرنا ہوتا تو کسی بڑے گلے والے آدمی کے ذریعے اونچی جگہ سے زوردار آواز لگوائی جاتی تھی۔ اور دور دراز کے شہروں سے چٹھی، بے رنگ خط یا تار آیا کرتے تھے۔ اس وقت کون جانتا تھا کہ کبھی موبائل فون بھی ہوں گے۔ جن سے ہم دنیا کے کسی بھی کونے سے دوسرے کونے، یا قطب شمالی سے قطب جنوبی تک آپس میں اس طرح بات چیت کر سکیں گے۔ جیسے ایک گھر میں ہوں۔ کس کو پتا تھا کہ فیس بک، انسٹاگرام یا ٹویٹر کس چڑیا کا نام ہو گا۔
یا یہ کمپیوٹر کیسا ہوتا ہے اور انٹرنیٹ کیسے کنکٹ ہوگا؟ ہم نے تو بس یہی سن رکھا تھا کہ ایک بہت بڑی جسامت کے بیل نے اس زمین کو اپنے دو سینگوں پر اُٹھا رکھا ہے۔ اور جب کبھی اس کا ایک سینگ تھک جاتا ہے تو وہ ساری زمین کو ایک سینگ کے سہارے اٹھاتا ہے۔ اور پھر زمین میں ارتعاش پیدا ہوتی ہے۔ جسے زلزلہ کہتے ہیں۔
ہم تو اتنا جانتے تھے کہ چاند کے اوپر ایک مائی چرخہ کاتتی ہے۔ ہمیں کیا پتا تھا کہ اب وہ مائی زمین پر گوگل بن کر ہمیں ہر جگہ تلاش کر سکے گی۔ یہ الگ بات کہ ہمارے پٹواریوں اور محکمہ مال کو ابھی تک ہماری زمینوں کا صحیح اندازہ نہیں ہو سکا کہ زمین کا کون ساٹکڑا کس کا ہے۔ نہ مکان کا علم کہ اس کا آج مالک کون ہے۔ (ہمارے دیہاتوں میں پورا گاوں ایک آبادی دیہہ نمبر سے رجسٹرڈ ہوتا ہے۔ کوئی بھی کسی کے مکان میں گھس جائے تو اسے باہر نہیں نکالا جا سکتا)، لیکن مائی گوگل کو دنیا کے چپے چپے اور انچ انچ کی خبر ہوتی ہے۔ ہم جس بھی دور دراز گاوں میں جاتے ہیں ہمارے موبائل کی سکرین پر لکھا جاتا ہے کہ آپ فلاں گاؤں میں ہیں اور اس گاوں کا حدود اربعہ یہ ہے۔ مجھے یاد ہے۔ کہ جب آج سے لگ بھگ بیس سال پہلے اس خاکسار کو اپنے بھائی محمد رفیع صاحب مرحوم کی بات سے متفکر ہوکر کمپیوٹر سیکھنے اور خریدنے کی خواہش پیدا ہوئی تو یہ ایک خواب سا لگتا تھا کہ یہ کیسے ممکن ہو گا اور آج جدید ترین دستی ایپل کمپیوٹر اور آئی پیڈ ہوتے ہوئے بھی ان کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ہے۔ بہترین کینن کیمرہ کبھی الماری سے نکالنا نہیں پڑتا۔ (کیمرے سے یاد آیا ایک زمانہ وہ تھا جب یہ سنتے تھے کہ ایک ڈیجیٹل کیمرہ دنیا میں آیا ہے، جس میں ریل نہیں ڈالنا پڑتی۔ آج کے بچوں کو پتا بھی نہیں ہوگا کہ ریل کس بلا کا نام ہے) ٹارچ میں سیل ڈالنا پڑتے ہیں نہ چارج کرنا پڑتی ہے۔ ان تمام ایجادات کا کام تمام ہوا اور اب یہ ساری ذمہ داریاں موبائل فون نے قبول کر لی ہیں۔ بات اس سے بھی بہت آگے بڑھ گئی ہے۔ اب قلم کی ضرورت ہے نہ کاغذ کی، کیلنڈر چاہئے نہ ڈائری بس ایک سمارٹ فون میں پوری دنیا مقید ہے اور سارا جہاں سمارٹ فون کا اسیر ہے۔
اب تو یہی دُعا ہے کہ ہمارے محکمہ مال تک یہ خبر پہنچ جائے کہ آپ زمینوں کے ریکارڈ کو بھی کمپیوٹ کر سکتے ہیں، لیکن سائنس کی ترقی کے یہ سارے کمال اغیار کے ہیں،جبکہ وطن عزیز کو جس بیل نے اپنے سینگوں پر اٹھا رکھا ہے۔ اسے تو تھکاوٹ بھی نہیں ہوتی کہ کبھی تھوڑی سی ارتعاش ادھر بھی آجائے اور اس ملک کا جمود بھی ٹوٹ جائے۔ ہماری سیاست اور جمہوریت کا جمود یہ ہے کہ کسی جماعت میں باقاعدگی سے کبھی آزادانہ انتخابات ہوئے نہ حقیقی ممبر سازی، بلکہ یہ جماعتیں کم لیمٹیٹد کمپنیاں زیادہ ہیں، جس کے ایم ڈی تاحیات رہتے ہیں اور پھر انہی کے خاندان سے یہ سلسلہ آگے بڑھتا ہے۔ مختلف سرکاری دفاتر میں جائیں تو وہاں پیپروں کی بوریاں ہوتی ہیں یا گانٹھیں۔
تحقیق اور تحریر سے ہم ویسے ہی الرجک ہیں کہ یہ سر کھپائی کے کام ہیں۔ کہا تو یہ جاتا ہے کہ علم مومن کی میراث ہے، لیکن ایک سال میں جتنی کتابوں کا ترجمہ تمام مسلم ممالک میں ہوتا ہے اس سے کہیں زیادہ کتب کا ترجمہ صرف سپین میں ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں اول تو کتاب نایاب ہے۔ بڑے بڑے شہروں میں چند کتابوں کی دکانیں ہوتی ہیں اور ان پر بہت محدود پیمانے پر تاریخی اور تحقیقی کتب ملتی ہیں اور وہ بھی زیادہ تر بہت پرانی لکھی گئیں۔ ادب کے میدان میں نیا خون بہت کم آرہا ہے۔ معاشرے کی ترقی، ارتقاء اور آگے بڑھنے کا دارومدار علم اور تحقیق پر ہے اور اس کے لئے محقق اور دانشور حضرات کردار ادا کرتے ہیں، لیکن مسلم ممالک میں سوچنے، تحقیق کرنے اور لکھنے پڑھنے کی زحمت ہی نہیں کی جاتی۔ نہ ایسا کرنے والوں کا اس ملک میں کوئی مقام ہوتا ہے، جس معاشرے میں استاد کا مقام اور احترام نہ ہو وہاں سے علم بھاگ جاتا ہے۔ اور پھر اس معاشرے کے لوگ تعویز گنڈوں پر یقین رکھتے ہیں۔ تسبیحات میں بیماریوں کے علاج ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں اورکرشموں کے منتظر رہتے ہیں۔ تعویذ کا توڑ دوسرے تعویذ میں تلاش کرتے ہیں۔