اماوس کی رات اور انقلاب
نہیں۔۔۔ابھی مایوسی کی ضرورت نہیں۔ مستقبل کیسا ہوگا؟آنکھوں میں سجے سپنے، دلوں میں مچلتی خواہشیں اور امیدوں کے بطن سے پھوٹتا انقلاب منزل تک پہنچ پائے گا؟ ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ عرصہ دراز سے چلنے، اڑنے اور بہتے رہنے کی خواہش ہر قلب میں مچل رہی تھی۔اسی دوران سیاسی افق پر جناب عمران خان درد دل و جگر سہنے والے فاتح کی مانند طلوع ہوئے۔ نئے نظام جیسے نعروں کی بدولت نہ صرف کروڑوں دلوں میں جگہ بنائی بلکہ طاقت کے عالمی مراکز کو بھی متوجہ کیا۔ نیا نظام کیا تھا۔ پُرامن سماجی و اقتصادی انقلاب۔ معاشرے نے اس پیغام کو اپنے فہم کے مطابق قبول کیا۔بے نظیر بھٹو شہید کی پری پلانڈ شہادت کے بعد متعلقہ ٹول حرکت میں آئے۔
فضاء ہموار کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ 2013 ء کے انتخابات کے بعد میاں محمد نوازشریف کو مکمل مینڈیٹ اور بھرپور غلطیوں کے لئے وسیع مواقع فراہم کئے گئے، جبکہ پی ٹی آئی کو طرز حکمرانی سے متعارف کروانے کی خاطرخیبرپختونخوا میں حکومت تھمائی گئی۔ مسلم لیگی رفقاء عالمی و ملکی اسٹیبلشمنٹ کی خواہش بھانپنے میں کوتاہی دکھا گئے۔ قائدین نے نہ تو لسانی سیاست کے بھگوان کے انجام سے نتیجہ اخذ کیا اور نہ ہی پاکستان پیپلز پارٹی کے مائنس ون فارمولے کی طرف توجہ دی۔ درحقیقت ایک دہائی قبل تشکیل پانے والے منصوبے کے تحت فاتح کو اقتدار سونپنے کی تیاریاں مسلسل پورے زوروشور سے جاری تھیں اور شور اس وقت تھما جب 2018ء کے انتخابات کے نتائج سامنے آگئے۔
اب نئے وزیراعظم کے سامنے چیلنجوں کا وہ پہاڑ تھا، جہاں بوسیدگی کی صدیوں پرانی آتما محو رقص تھی۔ یہ آتما اس سماج کی آئینہ دار تھی جہاں ایک مرلہ زمین کے لئے سات قتل، روپیہ کلو منافع کے لئے اجناس کی ذخیرہ اندوزی، جھوٹی ایف آئی آرز اور تتلیوں کی مانند معصوم نوجوانوں کا مستقبل بے روزگاری کی ٹھوکروں پر تھا۔ حیران کن طورپر ذرائع ابلاغ سمیت معاشرے کے کثیر طبقات نے مثبت تبدیلی کی خاطر قلب کو وسیع کیااور ان سو دنوں کے انتظار میں بیٹھ گئے، جنہوں نے مقدر کی ریکھاؤں کو نئے سرے سے استوار کرنا تھا۔اب یہاں یہ سوال ابھرتا ہے جب سو دن پورے ہوں گے تو جناب وزیراعظم ان بڑے اقدامات میں سستی کا کس طرح دفاع کریں گے جنہوں نے پی پی پی ، مسلم لیگ(ن) کی حکومتوں کو نگلا۔ کیا سو دنوں کے اختتام پر سماجی، ادارہ جاتی اور اقتصادی تبدیلیوں کی جانب واضح نشاندہی کی جا سکے گی؟ سماجی اقدامات وہ ٹھہرے جنہوں نے دہائیوں سے لوگوں کی زندگیوں کو اجیرن بنا رکھا ہے۔ عمل درآمد کے لئے رقم کی بجائے وژن کی ضرورت ہے۔
وژن بھی وہ جو حقیقی انقلابی یا ریفارمر کے لاشعور سے پھوٹتا ہو۔ انتخابی مہم کے دوران جناب وزیراعظم تواتر سے کہتے رہے کم خوراک کی وجہ سے بچوں کی جسمانی و ذہنی گروتھ شدید متاثر ہو رہی ہے۔ نہیں جناب والا: خالی خوراک نہیں، یہ وہ ظالمانہ سکولنگ سسٹم ہے جہاں سلیبس اور کتابیں بچوں کی بھوک اڑا دیتی ہیں۔ کیا سو دنوں کے اختتام پر یہ خوشخبری ملے گی چھوٹے بچوں کی تعلیم بذریعہ demonstration ، ہوم ورک سے آزادی اور تعلیمی اوقات کار تین گھنٹوں پر مشتمل ہوں گے۔کیا غیر مستند عطائیوں، سفلی عاملوں کے لئے عمر قید کی سزا تجویز کی جا سکے گی؟ سینکڑوں ایسے سماجی اقدامات ہیں، جو ایک پائی خرچ کئے بغیر محض حکمنامے کے ذریعے، وحشیوں کے ان ٹولوں کو قابو کر سکتے ہیں جو دن رات معاشرتی خوبصورتی چٹ کر رہے ہیں۔
کیا ناصر درانی صاحب کے بعد پولیس اصلاحات کا اختتام سمجھیں؟کہاں گیا کرپشن فری پولیس کلچر؟ اماوس کی کن راتوں میں کھو گئی آزاد پولیس کی آرزو؟ الٹا خوفناک جنگ چل رہی ہے۔ پولیس پر کنٹرول کرنے کی خاطر حکومتی ممبران اسمبلی اسلام آباد اور پنجاب کے اعلیٰ ایوانوں میں ایڑیاں اٹھا اٹھا کر دہائیاں دے رہے ہیں، اگر پولیس کو آزاد اور وہ بھی فوری طور پر نہ کیا گیا تو مبارک باد، آپ زوال کی اس سیڑھی پر قدم رکھ دیں گے، جس کا اختتام بھرپور عوامی نفرت کی صورت برآمد ہوگا۔ کیا قوم کو سی ایس ایس انفراسٹرکچر کے خاتمے اور سبجیکٹ اتھارٹیز کی طویل المدتی کنٹریکٹ پر بھرتی کی نوید سنائی جا سکے گی؟ اگر نہیں تو پھر آپ کو اسی بیوروکریٹک اپروچ کا سامنا کرنا پڑے گا، جو ذوالفقار علی بھٹو شہید اور میاں محمد نواز شریف جیسے لیڈر کو نگل گئی۔ اقتصادی بحالی کے نام پر آپ کو اسی روایتی طریقے کی جانب دھکیلا جا رہا ہے، جس کا رزلٹ ابھی سے سامنے ہے۔
آپ کو کہا جاتا ہے جناب کسان کو نیا بیج دیں، سستی کھاد دیں وہ یوں یوں کرکے پیداوار کو یوں یوں بلندیوں پر لے جائے گا۔ یہ سب جھوٹ ہے۔ کسان میں سکت ہی نہیں اور نہ ہی نیا تجربہ کرنے کو تیار۔ وہ صرف بیج بکھیرے کھیت کنارے لیٹے حقہ گڑگڑانے کا قائل ہے۔ آپ کو باور کروایا جا رہا ہے کٹڑی، بچھڑی اسکیم کے ذریعے راتوں رات خالص دودھ کی فراہمی اور شارٹیج پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ یہ بھی سفید جھوٹ ہے۔ یقین نہیں آتا تو دیہاتوں میں موجود جانوروں کے ان سرکاری ڈاکٹروں کے اثاثے چیک کر لیں، جو حکومت کی طرف سے ملنے والے مویشیوں کے فری ٹیکوں کے عوض پانچ سو روپیہ وصول کرتے ہیں۔ آپ کو بتایا جاتا ہے انڈسٹری کو بجلی سستی دیں ، چمنیاں دھواں اگلیں گی اور ملک خوشحال ہوگا۔ نہیں جناب، فیکٹری مالک تو تالے لگا کر بھاگ رہے ہیں۔.
بھگانے والا کون ہے۔ وہ سرکاری ادارے جو پے در پے چیلوں کی مانند اس پر جھپٹتے ہیں۔ وہ بزنس ٹائیکونز جو نئے آنے والے کو مافیا کی مانند گھیرتے ہیں۔ مافیا بھی ایسا جو میٹییریلز کی امپورٹ ڈیوٹیز میں مرضی کے مطابق تبدیلیاں کرواتا ہے۔ ضرورت سو ٹن کی اور امپورٹ دس ہزار ٹن۔ اپنے گروپ کی پروڈکشن سستی اور اوپن مارکیٹ میں بیچے جانے والے را میٹیریل کی فروخت مہنگی ۔ یہی وجہ ہے پاکستان میں نئی صنعتیں لگنا بند ہو چکی ہیں۔ پوری کی پوری معیشت، چاول کے دانے سے لے کر کاریں بنانے تک ،مافیاز کے شکنجے میں جا چکی ہے۔ ان مافیاز کے گٹھ جوڑ کو کون توڑے گا؟کیا آپ اسی طرح ہر سال نقصان پورا کرنے کے لئے ملک در ملک امداد مانگتے رہا کریں گے۔ یا بڑے اقدامات کے ذریعے اس بنیادی بیماری کا علاج کریں گے جو تقریبا لاعلاج ہو چکی ہے۔ وہ بیماری ہے قرض اور اس پر دیا جانے والا سود۔ یہ قرض نہ تو حقہ گڑگڑاتا کسان اتار سکتا ہے اور نہ ہی ادھار کی مارکیٹ میں دھنسا انڈسٹری اونر۔ ہاں یہ قرض ریاست اتار سکتی ہے۔ انتظار رہے گا، ان اقدامات کا جو حقیقی انقلاب کی جانب اشارہ کر سکیں۔ملک کو غیر ملکی طاقتوں کے آگے گروی رکھنے سے کہیں بہتر ہے وہ لگ بھگ دس لاکھ کنال ایسی کمرشل اراضی بیچ دی جائے جہاں مالیوں ، چوکیداروں کی مد میں اربوں روپے کی تنخواہیں دی جا رہی ہیں۔