یوٹرن: ہنگامہ ہے کیوں برپا؟
اگلے روز وزیراعظم نے صحافیوں کے ایک وفد سے گفتگو کرتے ہوئے ایک دو جملے ایسے بھی کہہ ڈالے جن کا تعلق شمشیروسناں سے تھا۔ وہ دن اور آج کا دن پاکستان کا پرنٹ اور ای میڈیا اس بیان کی ایسی ایسی تاویلیں کر رہا ہے کہ جن پر قحط الخیال کا گمان گزرتا ہے۔ عمران خان نے لیڈرشپ کے موضوع پر بات کرتے ہوئے وہی فقرہ دہرایا جو ہر فوجی اپنے کیرئیر کے دوران، اَن گنت بار سنتا، پڑھتا اور پڑھاتا ہے۔ فقرہ یہ ہے کہ جو لیڈر ’’یوٹرن‘‘ لینا نہیں جانتا، اس کا سر تاجِ قیادت کا حقدار نہیں۔ جاری حالات کے مطابق یوٹرن لینا عینِ قیادت ہے اور نہ لینا عین بے وقوفی ہے۔ لگے ہاتھوں انہوں نے مثال بھی دی تو فوجی لیڈروں کی دی۔
عمران خان کے ناقدین چاہتے تھے کہ وہ اگر کسی ’’حیلے بہانے‘‘ سے لیڈر بن ہی گئے ہیں تو کسی ایسے شخص کی مثال دیتے جو وردی پوش نہ ہوتا۔ کیا دنیا میں سویلین اور جمہوری لیڈروں کی کمی تھی جو ان کو نپولین بونا پارٹ اور اوڈلف ہٹلر کا تذکرہ کرنا پڑا۔ یہ دونوں ناکام وار ہیروز تھے اور ان کی ناکامی کی اصل وجہ یہ تھی کہ انہوں نے ’’یوٹرن‘‘ نہیں لیا تھا۔ اگر لے لیتے تو یومِ شکست نہ دیکھنا پڑتا! انہوں نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ جو لیڈر واقعات و حالات کے مطابق اپنا لائحہ عمل طے نہیں کرتا اور اپنی سٹرٹیجی تبدیل نہیں کرتا، ہار اس کا مقدر ہو جاتی ہے۔ اگر نپولین اور ہٹلر ہٹ دھرمی، ضد اور جمودِ فکر و نظر کا مظاہرہ نہ کرتے تو وہ شکستیں جو ان کے نصیب کا حصہ بنیں اور ان کو رسوائی کا سامنا کرنا پڑا، وقوع پذیر نہ ہوتیں۔
وزیراعظم کے یہ الفاظ کوئی ایسے انوکھے نہیں تھے کہ یار لوگ ان کو وہ معانی پہناتے جو موضوعِ زیرِ بحث سے ان کی لاعلمی کا بھانڈا پھوڑ دیتے۔
اگر ہمارے صحافی اور دانشور حضرات نے ملٹری ہسٹری کی ابجد بھی پڑھی ہوتی تو ان کو معلوم ہوتا کہ عمران خان ایک سو ایک فیصد درست کہہ رہے تھے کہ جو لیڈر یوٹرن لینا نہیں جانتا وہ لیڈر نہیں کہلا سکتا۔ ملٹری درس گاہوں میں جو اصولہائے جنگ تدریس کئے جاتے ہیں اور ملٹری لیڈر کی جو صفات پڑھائی اور گنوائی جاتی ہیں ان میں ایک بڑی صفت یہی ’’یوٹرن‘‘ ہے جو ’’لچک‘‘ (Flexibility) کے نام سے جانی جاتی ہے۔ نپولین اور ہٹلر ہی پر کیا موقوف دنیا کے کسی بھی بڑے سے بڑے فوجی لیڈر کی سوانح پڑھیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ حرکت پذیری (یوٹرن) کا ٹرمپ کارڈ سب نے کھیلا اور جنہوں نے نہ کھیلا، انہوں نے مار کھائی۔
مجھے یقین ہے میرے سویلین دوستوں نے عسکری تاریخ کا بغور اور بغائر مطالعہ نہیں کیا ہو گا۔ نپولین کے دور کی جنگیں اور لڑائیاں (Battles) تاریخ میں سنہری حروف سے لکھی جاتی ہیں۔ بلاشبہ نپولین دنیا کے عظیم عسکری کمانڈروں میں سے ایک تھا۔1812ء میں ماسکو کی مہم اس کی عسکری زندگی کا سب سے بڑا جوا تھا جو نپولین ہار گیا۔ وہ ماسکو میں داخل تو ہو گیا لیکن روسی آبادیاں فرانسیسی فوج سے بہت پہلے شہر چھوڑ کر عقبی علاقوں میں جا چکی تھیں، کہنے کو تو فرنچ آرمی اپنے ہدف (ماسکو) کے حصول میں کامیاب ہوئی۔ لیکن یہ کامیابی اس کی ٹیکٹیکل فتح اور سٹرٹیجک شکست تھی۔ اختر شیرانی نے ’’روس سے نپولین کی مراجعت‘‘ کے عنوان سے جو لافانی نظم کہی ہے، اس کا مطالعہ کریں تو آپ پر کھلے گا کہ بظاہر ’’فاتح نپولین‘‘ دراصل ’’مفتوح نپولین‘‘ تھا اور یہ شکست اس کو اس لئے ہوئی کہ اس نے اپنے کئی نامور عسکری کمانڈروں کے مشورے پر عمل نہیں کیا تھا۔ جو اس کو ’’یوٹرن‘‘ کا مشورہ دے رہے تھے۔۔۔ تاریخ میں واٹرلو کی لڑائی (1815ء) میں نپولین کی شکست کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے لیکن اس شکست کے بیج 3برس پہلے ماسکو کی لڑائی (1812ء) میں بوئے جا چکے تھے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ واٹرلو میں نپولین کی شکست کا ’’سہرا‘‘ جو برطانوی فوج کے سرباندھا جاتا ہے وہ دراصل روسیوں کے سرباندھا جانا چاہیے۔۔۔ اگر نپولین 1812ء میں ماسکو پر چڑھائی کی ضد نہ کرتا، موسم سرما کی شدت کا احساس کرتا اور آدھے راستے سے واپس پیرس چلا آتا تو اس کو واٹرلو کا سامنا نہ کرنا پڑتا!
اور ہٹلر کے ساتھ بھی عین مین یہی کچھ ہوا۔۔۔ اس نے تقریباً سارا یورپ فتح کر لیا تھا۔لیکن 22جون 1941ء کو روس کے خلاف آپریشن بار بروسہ لانچ کرنے کی غلطی نہ کرتا اور اپنے جنرل سٹاف کے مشورے پر عمل کرکے آتی گرمیوں کا انتظار کرتا تو اسے شکست نہ ہوتی۔ ہٹلر کو بتایا گیا تھا کہ جرمن افواج موسم سرما کی برفباری سے پہلے ماسکو نہیں پہنچ پائیں گی۔ عسکری تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ ہٹلر نے اپنے جنرل سٹاف کو 22جون کی بجائے زیادہ سے زیادہ 12جون 1941ء کی تاریخ بطور یومِ حملہ (D-Day) دی تھی جس میں تاخیر ہوتی گئی اور 10،12 روز کی یہی تاریخ ہٹلر کی ناکامی کا سبب بنی: اس سال (1941ء) میں روس کا موسم سرما بھی معمول سے پہلے آ نازل ہوا تھا اور یہ بھی نازی افواج کی ناکامی کا ایک سبب شمار کیا جاتا ہے۔
لیکن اصل بات یہی ہے کہ اگر ہٹلر اس آپریشن بار بروسہ کو 6ماہ تک ملتوی کر دیتا تو آج یورپ کی تاریخ مختلف ہوتی! یہ درست ہے کہ سٹالن گراڈ اور لینن گراڈ کی مشہور لڑائیوں میں روسی فوج نے جرمنوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور لاکھوں جانوں کی قربانی دے کر جرمن افواج کو ان دونوں شہروں پر قبضے سے محروم کر دیا لیکن جرمن افواج کی شکست کا اصلی ذمہ دار ہٹلر تھا۔ وہی سپریم کمانڈر تھا، اسی نے فیصلہ کرنا تھا کہ اٹیک پلان میں کیا تبدیلی کرنی ہے۔ اسے یورپ کی فتح نے غلط ’’خمار‘‘ میں مدہوش کر دیا تھا۔ ماسکو پہنچنے سے پہلے سولنک کی مشہور لڑائی جس میں جرمنوں کو جان کے لالے پڑ گئے تھے، ایک واٹر شیڈ تصور کی جاتی ہے۔ اگر نازی افواج ماسکو تک آگے بڑھنے سے پہلے سولنک سے ’’یوٹرن‘‘ لے لیتیں تو تاریخِ یورپ آج مختلف ہوتی۔۔۔ قارئین گرامی سے میری گزارش ہے کہ وہ 1812ء میں نپولین کی ماسکو مہم اور 1941ء میں ہٹلر کے آپریشن باربروسہ کا مطالعہ کریں۔ اس پر لاتعداد کتابیں اور ایک کثیر تحریری مواد موجود ہے اور پھر خود فیصلہ کریں کہ ان دونوں عسکری مہموں کے درمیان اگرچہ 129برس کا فاصلہ ہے لیکن دونوں میں نپولین اور ہٹلر کی ناکامی کی بڑی وجہ ان کا ’’یوٹرن‘‘ نہ لینے کا فیصلہ تھا!
مجھے عمران خان کے ملٹری ہسٹری کے مطالعہ کے کیف و کم کی خبر نہیں۔ لیکن انہوں نے نپولین اور ہٹلر کے یوٹرن کی جو مثالیں دی ہیں اور ان کو ان دونوں لیڈروں کی ناکامی کا سبب بتایا ہے تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے اس موضوع کا کچھ نہ کچھ تو سر پیر پکڑا ہی ہوگا۔ لیکن میڈیا پر اس سلسلے میں جو کچھ ہم دیکھ ، سن اور پڑھ رہے ہیں اس سے یہ معلوم کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہونی چاہیے، ہمارا سویلین لکھا پڑھا طبقہ تاریخِ جنگ سے اگر کاملاً بے بہرہ نہیں تو کاملاً کم آشنا ضرور ہے۔
وزیراعظم نے یوٹرن کے فقدان کو قائدانہ صلاحیتوں کے ساتھ جو منسلک کیا ہے اس کو مدنظر رکھ کر اب ہم دو تین ایسی تاریخی شخصیات کا بھی ذکر کریں گے جنہوں نے ’’یوٹرن‘‘ لیا اور کامیابی حاصل کی۔
سب سے پہلے سکندراعظم کو لیجئے۔ وہ یونان سے نکلا اور مصر اور فارس کو زیرنگیں کرتا ہندوستان تک آ پہنچا۔ اس طویل عرصے میں سکندر نے کوئی ایک لڑائی بھی نہ ہاری اور مسلسل جیتتا رہا۔ لیکن جب دریائے جہلم عبور کرکے راجہ پورس کو شکست دی تو اس کے کمانڈروں نے مزید پیش قدمی سے انکار کر دیا۔ اگر سکندر اس انکار کو بغاوت سمجھ لیتا تو تاریخ اس کو Acquitکرتی کہ جب اس کی سپاہ نے پے در پے فتوحات حاصل کی تھیں تو چند کمانڈروں کا آگے بڑھنے سے انکار چہ معنی دارد تھا؟۔۔۔ لیکن سکندر نے اس واقعے کو انا کا مسئلہ نہ بنایا اور اپنی افواج کو واپسی کا حکم دیا۔۔۔ یہ اگر یوٹرن نہ تھا تو اور کیا تھا؟
اس کے بعد ہمیں سرورِ کائناتﷺ کی زندگی کا مطالعہ کرنا چاہیے۔۔۔ یاد کیجئے۔ صلح حدیبیہ کو!۔۔۔ اکثر جید صحابہ مکے سے مدینہ کی واپسی کو مسلمانوں کی شکست سمجھ رہے تھے لیکن قرآن نے ’’فتح مبین‘‘ کہہ کر اس ’’یوٹرن‘‘ کو دوام عطا کر دیا۔ آنحضورؐ جب چاہے اکیلے مکے سے نکل کر سوئے مدینہ روانہ ہوئے تو کیا یہ ’’یوٹرن‘‘ نہ تھا؟۔۔۔ ہم کس ٹرن کو یوٹرن کہیں گے؟۔۔۔ کالم طویل ہو جائے گا وگرنہ نہ صرف رسول اکرمؐ بلکہ ان کے وصال کے بعد مسلسل لڑائیوں میں مسلمانوں نے حسبِ ضرورت ’’یوٹرن‘‘ لیا اور کامیابیاں حاصل کیں۔ کمانڈر کی اس لچک نے بارہا مسلم لشکر کو دشمنوں کے نرغے سے نکال کر بقول انگریزی محاورہ ’’کسی اور دن کے لئے‘‘ لڑائی کو ملتوی کر دیا۔
13ویں صدی عیسوی میں منگول افواج کا یہ ڈاکٹرین عسکری تاریخ کے ہر طالب علم کو یاد ہے کہ وہ اگر یہ دیکھتیں کہ لڑائی کا پلڑا دشمن کی طرف جھک رہا ہے تو ملاپ توڑ کر ’’پسپا‘‘ ہو جاتیں۔ دوسرا فریق اس پسپائی کو منگولوں کی شکست سمجھ کر جب چوکسی نرم کر دیتا تو منگول لشکر آناً فاناً پلٹ کر حملہ کر دیتا اور دشمن کی فتح کو شکست میں تبدیل کر دیتا۔
اور یاد آیا 1192ء میں تڑاوڑں کی پہلی جنگ میں جب شہاب الدین غوری کی فوج کے پاؤں ڈگمگانے لگے تو اس نے بھی ملاپ توڑ کر غور کی راہ لی۔ تاریخ میں اسے غوریوں کی شکست کا نام دیا جاتا ہے لیکن اگلے برس (1193ء میں) اسی لشکر نے اس شہاب الدین غوری کی کمانڈ میں دوبارہ پرتھوی راج کی فوج پر حملہ کیا اور اسے شکست فاش دی۔ جس طرح جنگ اور محبت میں سب کجھ جائز ہے اسی طرح سیاست میں بھی سب کچھ جائز ہے۔ اس کے مظاہرے ہم کئی عشروں سے دیکھتے چلے آ رہے ہیں۔ سیاسی پارٹیاں اپنے اصولوں اور ڈاکٹرین سے بارہا ’’یوٹرن‘‘ لے چکی ہیں۔ اگر عمران خان نے لے لیا ہے تو اتنا ہنگامہ کیوں برپا ہے؟