کیا پاکستان اور افغانستان میں آبی جنگ چھڑنے والی ہے ؟
پاکستان کے جذبہ خیرسگالی کے جواب میں افغانستان نے ہمیشہ منفی طرزِعمل اپنایا ہے۔ اسی سلسلے کی ایک نئی کڑی " افغانستان کی آبی جارحیت " ہے۔ بعض قارئین کے لیے یہ بات اس لحاظ سے نئی اور تعجب خیز ہے کہ عرصہ دراز سے پاکستانی میڈیا پر " بھارتی آبی جارحیت " ہی موضوع بحث رہی ہے۔ مگر اب معاملات نیا رخ اختیار کرچکے ہیں کیونکہ بھارت نے افغانستان کو بھی پاکستان کے خلاف آبی جارحیت میں حصہ دار بنالیا ہے۔
معروف جریدے " فارن پالیسی " میں ایک مضمون " افغانستان کے دریا پاکستان کے خلاف بھارت کا اگلا ہتھیار ہوسکتے ہیں " پبلش ہواہے۔تفصیلات کے مطابق بھارت کابل کے ضلع " چار سیاب " میں دریائے کابل پر " شاہ توت " کے نام سے ایک آبی ذخیرے کی تعمیر کے لیے مالی اور تکنیکی معاونت فراہم کررہا ہے۔ "شاہ توت ڈیم " کی تعمیر سے کابل کے بیس لاکھ شہریوں کو پینے کا صاف پانی فراہم ہونے کے علاوہ آبپاشی کیلیے بھی وافر مقدار میں پانی دستیاب ہوگا۔ "شاہ توت ڈیم منصوبے " کی تکمیل سے دارالحکومت کابل اور اس کے نواحی علاقے میں تعمیر ہونے والے نئے مجوزہ شہر کوبھی اسی ڈیم سے پانی فراہم ہوگا۔ "شاہ توت ڈیم " کے علاوہ بھارت دریائے کابل پر بارہ مزید ڈیموں کی تعمیر کے منصوبے پر بھی جلد کام کا آغاز کرنے والا ہے ,منصوبے کی تکمیل سے بارہ سو میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی۔
دریائے کابل پر ان ڈیموں کی تکمیل سے دریائے کابل کے پاکستان کی طرف بہاو میں واضح طور پر کمی واقع ہوجائے گی۔ دریائے کابل کے پانی سے پاکستان اور افغانستان مشترکہ طور پر مستفید ہوتے ہیں۔ پاکستان جو کہ پہلے ہی آبی قلت کا شکار ہے ,پاکستان کیلیے یہ قلت مزید سنگین صورتحال اختیار کرجائے گی۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک آبی جنگ کا آغاز ہونے جارہا ہے , جس کے باعث پاک افغان تعلقات میں تناو کے اسباب میں ایک نیا اضافہ ہوجائے گا۔
پاکستان پہلے ہی بھارتی آبی جارحیت کا شکار ہے۔ بھارت " سندھ طاس معاہدے " کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستانی دریاؤں کا پانی روک کر مقبوضہ جموں و کشمیر میں " کشن گنگا ڈیم اور بگلہیار ڈیم " بنارہا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ مستقبل میں پاک بھارت جنگ کا سبب آبی تنازعات ہوں گے تو یہ غلط نہ ہوگا۔
معاملہ اب صرف آبی تنازعات تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ گوادر بندرگاہ کو ناکام بنانے کیلیے بھی بعض ممالک پوری طرح سرگرم عمل ہیں۔ بھارت ایران کے ساتھ مل کر " چاہ بہار بندرگاہ " منصوبے پر کام کرنے کا خواہشمند ہے۔ جبکہ اسرائیل " عمان کی بندرگاہ " لیز پر لینے کا ارادہ رکھتا ہے۔
امریکہ کیلیے بھی " گوادر بندرگاہ " منصوبہ ناپسندیدہ ترین ہے۔ کیونکہ خطے کی اہم ترین اسٹریٹیجک لوکیشن پر چین کی موجودگی امریکی مفادات کے منافی ہے۔ " چاہ بہار اور عمان کی بندرگاہوں میں بھارت اور اسرائیل کی دلچسپی کا مقصد "گوادر بندرگاہ " کی اہمیت کو کم کرکے ناکام بنانا ہے۔ گوادر منصوبے کو تکمیل سے پہلے ہی ختم کروانے کے ایجنڈے پر کام ہورہا ہے۔ سی پیک منصوبے پرکام کرنیوالے چینی انجینئرز پر حملے بھی ہوتے رہے ہیں جس کی کڑیاں ایسے ہی اسباب سے ملتی ہیں۔
اس وقت امریکہ , بھارت , اسرائیل اور افغانستان مل کر پاکستان کو چاروں اطراف سے گھیرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ تاکہ اگر کبھی ممکنہ جنگ کی صورتحال پیدا ہوتو پاکستان کے پاس ہھتیار ڈالنے کے سوا کوئی راستہ باقی نہ بچے۔ پاکستان کے پاس خطے میں موجود واحد اسٹریٹیجک پارٹنر چین ہی ہے , جس کی زیادہ سے زیادہ قربت پاکستان کے مفاد میں ہے۔وزیراعظم عمران خان کے حالیہ دورہ چین میں دونوں ممالک کی قیادت نے اسٹریٹیجک پارٹنرشپ کو مزید مستحکم کرنے کے عزم کا اعادہ کیا جوکہ خوش آئند ہے۔
بعض ذرائع نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ پاک چین اقتصادی پیکج معاہدے کو ابھی تک حتمی شکل نہیں دی جاسکی اوراس سلسلے میں کچھ معاملات طے ہونا ابھی باقی ہے۔ چین نے اگرچہ مالی بحران سے نکلنے میں معاونت سے انکار نہیں کیا ہے تاہم گوادر بندرگاہ کو چین کے حوالے کرنے کے حوالے سے پی ٹی آئی حکومت نے کچھ تحفظات کا اظہار کیا ہے۔توقع ہے کہ پاکستان اور چین کے درمیان معاملات جلد پاجائیں گے۔پاکستان اور چین کے درمیان ڈالر کی بجائے مقامی کرنسی میں تجارت پر بھی اتفاق ہوچکا ہے جس کے بہت دوررس نتائج برآمد ہوں گے۔ اس کامیابی کے نتیجہ میں پاکستان اقتصادی طور رپ مضبوط ہوگا تو اپنے اسٹریٹجک پارٹنر کے ساتھ بھی وہ تعلقات بہتر بنانے کی پوزیشن میں آجائے گا۔ان شاء اللہ
۔
یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔