عالم اسلام دوراہے پر!

عالم اسلام دوراہے پر!
عالم اسلام دوراہے پر!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


مسلمان اس وقت نز ع کے عالم میں ہیں۔ ایک ارب چالیس کروڑ سے زائد نفوس پر مشتمل اہل اسلام کی 62 ممالک میں آزاد حکومتیں قائم ہیں، دنیا کی سب سے قیمتی اور نقد آور معدنی، تیل کے وسیع ذخائر بھی ہمارے پاس ہیں، تیل کی عالمی منڈی میں قیمت کا تعین طلب اور رسد کی قوتوں کے ذریعے ہوتا ہے اور اس کی کنجی بھی ہمارے پاس ہے۔ عالمی تجارت کے تین بحری راستوں میں سے دو ہمارے پاس ہیں۔اس طرح عالمی تجارت میں بھی ہم ایک اہم کھلاڑی کی حیثیت رکھتے ہیں۔فکری و نظری اعتبار سے ایک اللہ، ایک قرآن،ایک نبیﷺ پر ایمان کے حوالے سے بھی ہم ایک بہت بڑ ے گروہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ تمام مسلمان خانہء خدا او ر خانہء رسول ﷺپر یکساں ایمان رکھتے ہیں۔ حلال و حرام کی بابت بھی ہمارے خیالات و افکار ایک جیسے ہیں۔

ایشیا، یورپ، افریقہ کے براعظموں میں بسنے والے مسلمان ہوں یا جزیرہ نما عرب، امریکہ اور لاطینی امریکہ میں رہنے والے مسلمان، خدا، رسول ﷺاور کتاب پر ایمان و عمل کے حوالے سے کوئی اختلاف ِ رائے نہیں پایا جاتا، اس کے باوجود مسلمانوں کی حیثیت انتہائی پست اور کمزور ہے، اقوام عالم میں انہیں کوئی معمولی سابھی مقام حاصل نہیں۔


گزری صدی میں جب دنیا کمیونزم اور سرمایہ دار انہ بلاکوں میں بٹی ہوئی تھی اور سوویت یونین و امریکہ باہم دست و گریبان تھے اور دنیا پر سرد جنگ کی چادر تنی ہوئی تھی تو مسلمانوں کی پھر بھی تھوڑی بہت حیثیت تھی، وزن تھا، کیونکہ مسلمان بحیثیت مجموعی عیسائی دنیا کے ساتھ کھڑے تھے۔ اشتراکیت، کیونکہ انکار خدا پر مبنی نظام فکروعمل ہے، اس لئے فطرتاًمسلمان اس کے حامی و موئید نہیں ہو سکتے تھے، اس لئے وہ امریکہ اور اس کے حو اریوں کے کیمپ میں شامل ہونے کے باعث کچھ حیثیت کے مالک تھے۔ عالمی تناظر میں توازن طاقت کے قیام کے لئے ان کی امریکہ کو حمایت کی ضرورت تھی، اس لئے مسلمانوں کو حیثیت ملتی تھی، ان کی قدر کی جاتی تھی، لیکن 90 کی دہائی میں سوویت، یونین کے انہدام کے بعد جب عالمی توازن طاقت امریکہ کے حق میں ہو گیا تو پھر مسلمانوں کی وہ حیثیت ختم ہو گئی جو سرد جنگ کے زمانے میں تھی۔

صہیونی افکار اور یہودی اثرات کے باعث، عیسائی مغرب نے مسلمان اور تہذیبِ اسلام کو ایک نیا ٹارگٹ اور دشمن قرار دے کر اپنی تمام توانائیاں ان کی بیخ کنی پر لگادیں۔ گزری 7 دہائیوں کے دوران رونما ہونے والے واقعات ایک ہی کڑی میں جڑے دکھائی دیتے ہیں۔ ریاست اسرائیل کب قائم ہوئی؟ 1948ء میں اور اس کے ساتھ ہی فلسطینی مسلمانوں کے لئے ختم نہ ہونے والی رنج و الم کی داستان شروع ہوگئی۔ امریکہ اس مسئلے میں شامل ہوا۔ ریاست اسرائیل کی ناجائز تخلیق کس کے ہا تھوں انجام پائی؟ عیسائی برطانیہ کے ہاتھوں۔ اس کی ساخت و پر داخت اور تعمیر و ترقی میں کون سا ملک کلیدی کردار ادا کررہا ہے؟ امریکہ۔


پاک و ہند کی تقسیم کا عمل کس کے ہاتھوں انجام پایا؟ عیسائی برطانیہ کے ہاتھوں اور اس کے ساتھ ہی کشمیریوں کے لئے ختم نہ ہونے والی اندھیری رات شروع ہوئی۔ اب اس مسئلے میں، یعنی پاک بھارت معاملات میں کون کلیدی کردار ادا کر رہا ہے؟ امریکہ۔ دونوں معاملات، یعنی مسئلہ کشمیراور فلسطین اقوام متحدہ کے ایجنڈے میں شامل ہیں۔ فلسطین کے مسئلے پر اسرائیل اقوام عالم کی بات نہیں سن رہا، جبکہ مسئلہ کشمیر پر ہندو بنیا آنکھیں و کان بند کئے ہوئے ہے۔ فلسطین کے ایشو پر پور اعالم عرب پریشان ہے۔ عرب لیگ ہو یا آرگنائزیشن آف اسلامک کا نفرنس فلسطینی ریاست کے قیام کے حوالے سے صہیونیوں کے فکروعمل کے خلاف ہیں۔

یروشلم کو ریاست اسرائیل کا دارلحکومت قرار دے کر اس مسئلے کو عالم اسلام کا مسئلہ بنا دیا گیا ہے۔ بیت المقدس، ہمارا قبلہ اوّل ہے۔ ہمارے جدامجد کی جنم بھومی ہے۔ ہمارے محمدﷺکی معراج کی امین سر زمین، ہماراقبلہ اوّل وہ صہیونیوں کے ناپاک قبضے میں کیسے رہنے دیا جا سکتا ہے،لیکن عملاً وہ ان کے قبضے میں چلا گیا ہے اور وہ اسے ڈھا کر وہاں ہیکلِ سلیمانی تعمیر کرنا چاہتے ہیں، گریٹر اسرائیل کی تعمیر کے منصوبے کی تکمیل کے لئے ہیکل سیلمانی کا انہی بنیادوں پر تعمیر کیا جانا ضروری ہے، جن پر داؤ د علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا اور یہودی عقائدکے مطابق وہ بنیادیں مسجد اقصیٰ کے نیچے ہیں، اس لئے اسے گرایا جانا ضروری ہے۔


ذراغور کریں صہیونی اقوام عالم کی رائے پائمال کرتے ہوئے یروشلم کو، سارے کے سارے یروشلم کو صہیونی ریاست میں شامل کر چکے ہیں اور ہمارا، یعنی مسلمانوں کا ردعمل نہ ہونے کے برابر ہے۔ پھر بھارت کو دیکھیں۔ مودی سرکار نے اقوام عالم کی رائے کے برعکس مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ کشمیری 9 لاکھ فوجیوں کے جبرو قہر کے سائے میں زندگیاں گزارنے پر مجبور کر دئیے گئے ہیں، ایٹمی پاکستان کا ردعمل دیکھ لیں کتنا کمزور اور پست ہے۔ بھارت سرکار اور عدلیہ نے مسلمانوں کی بابری مسجد کو مندر میں بدلنے کا حکم جاری کرکے مسلمانوں کا ردعمل دیکھ لیا ہے، کچھ بھی نہیں ہے۔ مسلمانوں کا قبلہ اول ہو یا بابری مسجد، فلسطینی ریاست کے قیام کا معاملہ ہو یا کشمیریوں کا حق خود ارادیت، صہیونی، صلیبی اور ہندو ہر جگہ غالب نظر آ رہے ہیں۔ امریکہ، برطانیہ اور دیگر عیسائی ممالک وہ مسلمانوں کے خلاف صہیو نیوں اور ہندوؤں کے ممدو معاون ہیں۔ مسلمان صلیبی،صہیو نی اور ہندو قوتوں کے سامنے بے بس نظر آ رہے ہیں۔


عالمی سطح پر یہ بات طے ہو چکی ہے کہ معاملات کو آگے لے جانے اور بڑھانے کے لئے تہذیبی جنگ ضروری ہے اور اس جنگ میں اسلامی تہذیب ہدف بھی قراردی جاچکی ہے، یہ جنگ سفید انسان (وہ سفید انسان جو سرمایہ دارانہ نظام کا حامل ہے) کی بالادستی کا ایک ذریعہ ہے۔ امریکہ اور برظانیہ اس تہذیبی جنگ میں ہر اول کے طور پر شامل ہیں۔ ایک ملک پرصہیو نی غالب ہیں اور دوسرا ملک صلیبی تاریخ کا حامل ہے۔ دونوں (امریکہ و برطانیہ) یہودیوں کے مرکز اسرائیل کے قیام و بقا کے لئے مذہبی طور پر متحرک ہیں۔ گریٹر اسرائیل کی تعمیر کے ذریعے صہیو نیت کا غلبہ ان کا محور اور مرکز خیال ہے۔ عیسائی اور یہودی اپنے اپنے مسیحا کی آمد کے منتظر ہیں۔ یہودی اپنے اس مسیحا کے منتظر ہیں جو انہیں ایک بار پھر عالمی غلبہ دلائے گا، حالانکہ وہ مسیحا مسیح ابن مریم کی صورت میں ان کی طرف بھیجا گیا تھا، لیکن انہوں نے اس کی تکذ یب کی اور اسے سولی پر چڑھادیا۔

عیسائی اسی مسیح ابن مریم کی آمد ثا نی کے منتظر ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ صدیوں تک عیسائی یہودیوں کو یسوع مسیح کا ”قاتل“سمجھتے رہے، اسی بنیاد پر یہودی عیسائی دنیا میں قابل نفر ین تھے، اگر ہم عیسائی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمیں یہودیوں کے خلاف چارج شیٹ ملتی ہے، انگلش لٹریچر یہودیوں کی ”انسان کش“ عادات اور خصائل کے تذکروں سے بھرا پڑہے، لیکن پھریہ بھی ایک تاریخ ہے کہ یہودیوں نے عیسائیت جیسے خالص تو حیدی مذہب میں نقب لگائی اور اسے تثلیث جیسے گھن چکر کا شکار بنا دیا۔ شراب اور شور عیسوی تہذیب میں شامل کر دی،مسور کی لعنت میں پھنسا دیا۔


جنگ عظیم اول اور دوم کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ یہودی تاریخی اعتبار سے پورے یورپ کی تباہی و بربادی میں شریک تھے،اس لئے عالمی جنگوں میں پوری عیسائی دنیا، بڑی یکسوئی کے ساتھ یہودیوں کے خلاف تھی، انہیں دوسرے درجے نہیں، بلکہ تیسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا تھا۔ دوسری جنگ عظیم میں 60 لاکھ یہودیوں کے قتل عام میں کون ملوث تھا؟ ڈولف ہٹلر۔ اور وہ کون تھا؟ عیسائی۔ یورپ کے جو لوگ یہودیوں کی تذلیل کرتے تھے،وہ کون تھے؟ عیسائی۔ عیسائیوں نے بطور قوم و ملت یہودیوں کو یسوع مسیح کا قاتل سمجھا، لیکن یہودیوں نے سازش کے ذر یعے عیسائیت میں نقب لگائی اور پھر ایک عیسائی قوم (انگریز) ان کی پشتی بان بنی اور عربوں کے سینے پر ایک نا جائز ریاست تخلیق کر دی گئی۔

دوسری عیسائی قوم (امریکہ) نے اس کی تعمیر و تنظیم میں اہم کردار ادا کیا اور اب بھی اسے بڑھاوا دے رہی ہے۔ ہر طرف اہل حرم ہی عالمی طاقتوں کے نشانے پر ہیں۔ذلت اور خواری ان کا مقدر بن چکی ہے، تباہی اور بربادی لہروں کی صورت میں آرہی ہے اور انہیں نگلتی چلی جا رہی ہے۔ مشرق وسطیٰ ہو یا ایشیا اور افریقہ، یہاں مسلمانوں کی ہونے والی تباہی کا کوئی حد و حساب نہیں ہے۔ایسے لگ رہا ہے کہ عالم اسلام پستی کی انتہاؤ ں کو چھونے والا ہے، اللہ خیر کرے۔

مزید :

رائے -کالم -