اگلے دھرنے تک کا وقت

اگلے دھرنے تک کا وقت
اگلے دھرنے تک کا وقت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ایک چابکدست سیاستدان کی طرح مولانا فضل الرحمن کو شروع سے اندازہ تھا کہ ملک میں کیا کھیل کھیلا جارہا ہے؟ انہیں یہ بھی علم تھا کہ کس موقع پر کتنا احتجاج کرنا ہے اور بظاہر ساتھ دینے پر آمادہ دیگر اپوزیشن سیاسی جماعتوں کی مصلحتیں اور کمزوریاں کیا ہیں؟ جہاں تک مولانا کی سیاسی بصیرت کا تعلق ہے تو اس کا اعتراف الیکشن 2018 ءکے ایک سال بعد سابق وزیراعظم نواز شریف نے نیب عدالت میں پیشی کے موقع پر یہ کہتے ہوئے کیا کہ بدترین دھاندلی والے انتخابات کے بعد اسمبلیوں میں نہ جانے کی تجویز بالکل درست تھی۔ یاد رہے کہ مولانا فضل الرحمن نے اسی وقت آواز بلند کرتے ہوئے تمام اپوزیشن جماعتوں کو یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ سڑکوں پر نکل آئیں تو صرف جعلی الیکشن ہی نہیں اس کے ساتھ اور بھی بہت کچھ لپیٹ دیا جائے گا۔ پیپلز پارٹی چونکہ پہلے ہی سے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ آن بورڈ تھی، اس لئے اس سے تو کوئی توقع نہیں رکھی جا سکتی تھی۔

مسلم لیگ(ن) زیر عتاب تھی۔ نواز شریف اور مریم نواز نے لندن سے آ کر گرفتاری دی تو جیل کے اندر سے زیادہ متحرک کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ باہر موجود پارٹی رہنماﺅں نے یہی لائن دی کہ ”غیبی قوتوں“ سے ٹکرانے کی بجائے فی الحال ایوانوں کا رخ کیا جائے۔ مولانا فضل الرحمن نے اس وقت بالکل درست اندازہ لگایا تھا کہ جس پیٹرن پر الیکشن 2018 ءکرائے گئے ہیں، اس کا مقصد صرف پی ٹی آئی کو اقتدار میں لانا ہی نہیں، بلکہ دیگر سیاسی جماعتوں کو ختم کرنا بھی ہے.... یعنی یک جماعتی نظام اور سیاست سے پاک ماحول بنایا جانا تھا۔ ٹارگٹ اس حد تک واضح تھے کہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کو بھی ان کے آبائی حلقے میں بدترین دھاندلی اور دھونس کے ذریعے ہرایا گیا۔ ووٹوں کی گنتی شروع ہونے سے پہلے ہی ان کے پولنگ ایجنٹ باہر نکال دئیے گئے۔

سراج الحق شام 8بجے کے قریب میڈیا سے رابطہ کر کے اپنا موقف دینے کی کوشش کرتے رہے، شاید انہیں علم ہی نہیں تھا کہ سیاستدانوں سے پہلے میڈیا کو محاصرے میں لینے کا بندوبست کیا جا چکا تھا۔ مولانا فضل الرحمن نے دیگر اپوزیشن جماعتوں کی طرح پہلے روز ہی کہہ دیا تھا کہ وہ اس الیکشن کو قبول نہیں کریں گے۔ اس کے بعد وہ کبھی آرام سے نہیں بیٹھے۔ کبھی ملین مارچ کرتے رہے اور کبھی یہ کوشش کی کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) سمیت تمام اپوزیشن جماعتیں مل کر مشترکہ الائنس بنائیں اور دباﺅ بڑھائیں۔ اُدھر پی ٹی آئی والے پوری طرح سے مطمئن تھے کہ اسٹیبلشمنٹ ہی اس کے ساتھ نہیں، بلکہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو پارٹی میں عہدے دلوا کر وہ پوری طرح اس پارٹی میں شامل ہو چکی ہے۔
اپوزیشن کے اتحاد کے حوالے سے مولانا فضل الرحمن کی تمام تر کوششیں آصف علی زرداری، شہباز شریف اور اس طرح کے دیگر ”صلح جو“ رہنماﺅں کے باعث کامیاب نہ ہو سکیں۔

بالآخر اس منصوبے پر عمل شروع ہو گیا جس کا مقصد ملک کو سیاست سے پاک کرنا تھا۔ مسلم لیگ(ن) کے بڑے بڑے لیڈر خصوصاً وہ جو کارکنوں کو متحرک کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے، نیب کے حملوں کی زد میں آگئے اور جو بولا وہی اندر ہو گیااور جو خاموش تھے ان کا بھی گھیراﺅ کر لیا گیا، سہمی ہوئی مسلم لیگ(ن) کو دیکھ کر منصوبہ سازوں نے پہلے سے طے شدہ سکرپٹ کے تحت پیپلز پارٹی پر بھی ہلہ بول دیا۔ آصف علی زرداری، فریال تالپور اور خورشید شاہ جیسے بڑے نام جیلوں میں ڈال دئیے گئے۔ اس تمام عمل میں عمران خان کا کردار محض آگے بڑھ کر ذمہ داری قبول کرنے تک محدود تھا۔ پراجیکٹ بہت بڑا تھا اور کسی حد تک اسے عالمی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت بھی حاصل تھی۔

عمران خان آگے بڑھ بڑھ کے بڑھکیں لگاتے رہے، حالانکہ سب کے سامنے تھا کہ نواز شریف کو نااہل قرار دے کر وزیراعظم کے عہدے سے اتارنے، پورے خاندان کو میڈیا کے ذریعے رسوا کرنے کی کوشش کرنے، جے آئی ٹی کے ذریعے تماشا بنانے ،پھر جیل میں ڈالنے کے عمل میں عمران خان کا تعلق صرف تالیاں بجانے والے کا تھا، اسی لئے آج جب اپوزیشن کے لئے کسی حد تک ریلیف کے امکانات پیدا ہوئے ہیں تو عمران خان بے بسی کے عالم میں اپنا غصہ پتہ نہیں کس کس پر نکالتے نظر آتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے 25اکتوبر کو آزادی مارچ شروع کرنے سے پہلے ہر پہلو کا مکمل جائزہ لیا۔ یہ سچ ہے کہ انہوں نے اپوزیشن جماعتوں سے کہا تھا کہ احتجاج کے سوا کوئی راستہ ہے ہی نہیں، لیکن یہ کہنا بھی غلط نہیں کہ انہوں نے بعض کارڈ خفیہ رکھے۔

مولانا فضل الرحمن نے اس امر کا خصوصی طور پر اہتمام کیا کہ کوئی اور ساتھ دے نہ دے، جے یو آئی کو اپنی تنظیمی صلاحیتوں اور کارکنوں کے جذبے کو استعمال کرتے ہوئے احتجاج کو اس صلاحیت کے قابل بنانا ہے کہ کسی بھی قسم کی صورت حال سے نمٹا جا سکے۔ وزیراعظم عمران خان تو دور کی بات، شیخ رشید جیسے گھاگ بھی آزادی مارچ کو ایزی لے رہے تھے۔ اس کے برعکس سرکاری مشینری تھی کہ باقاعدہ خوفزدہ نظر آئی۔ مولانا کا مارچ شروع ہونے سے پہلے یہ عالم تھا کہ مسلم لیگ(ن) کو اپنے طور پر تاریخ کا حصہ قرار دئیے جانے کے بعد منصوبہ ساز سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کا مکو ٹھپنے کی جانب بڑھ رہے تھے۔ یہ خبر ہے کہ اس حوالے سے بھرپور کام ہورہا تھا۔


کئی تجاویز سامنے تھیں کہ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کو جیل میں ڈالا جائے۔ پارلیمانی پارٹی کے آدھے سے زیادہ ارکان کو لوٹے بنا کر سندھ سے پیپلز پارٹی کا صفایا کر کے صوبے کو مشرف بہ پی ٹی آئی کر دیا جائے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کو مولاناکا احتجاج ایک ٹرمپ کارڈ کے طور پر ملا۔ دونوں جماعتیں اس سے بہت زیادہ فائدہ بھی اٹھا سکتی تھیں، مگر انہوں نے صرف بیچ بچاﺅ کو ہی غنیمت جانا۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ مولانا جانتے تھے کہ کس مرحلے پر کون سی جماعت کتنا ساتھ دے گی، اسی لئے وہ لاکھوں لوگوں کو اپنے ساتھ لائے ،تاکہ حکومت کو طاقت سے بھی گرانا پڑے تو کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ آزادی مارچ کے آغاز سے قبل ہی انہوں نے مکس سگنل دئیے، جو دراصل اس بات کا اظہار تھے کہ حکومت گرانے کے پلان میں تبدیلی بھی آسکتی ہے۔

انہوں نے مارچ سے پہلے ہی یہ کہہ دیا تھا کہ اپنے کارکنوں کو تھکائیں گے نہیں، پھر یہ بھی کہا کہ دھرنا یا لاک ڈاﺅن نہیں ہو گا۔ سرکاری مشینری نے حکومت کو کہہ دیا تھا کہ مولانا کو یا تواسلام آباد آنے نہ دیا جائے یا پھر مذاکرات کے ذریعے مسئلے کا حل نکالا جائے۔ جے یو آئی نے زبردست منصوبہ بندی سے کراچی سے مارچ کا آغاز کیا تو تمام حکومتی تدبیریں دھری رہ گئیں۔ حکومت نے ایک موقع پر کوشش کی کہ مفتی کفایت اللہ کو گرفتار کر کے معاملہ تشدد کی طرف دھکیلا جائے، مگر دینی جماعت کی زیرک قیادت نے بھانپ کراسے ناکام بنا دیا، حالانکہ اس بات کا خصوصی اہتمام کیا گیا تھا کہ گرفتاریوں کی صورت میں ملک کی اہم شاہراہیں بند کر دی جائیں گی اور یہ عمل یقینا اس نمائشی ناکہ بندی سے بالکل مختلف اور بہت سخت ہوتا جس کا مظاہرہ آج کل کیا جارہا ہے۔

مولانا فضل الرحمن کو روکنا ممکن نہ رہا تو حکومت پیچھے ہٹ گئی۔ اسلام آباد میں لاکھوں کے مجمع نے حکمرانوں کی نیندیں اڑا دیں۔ سب ایک دوسرے سے پوچھنے لگے یہ کیسے ہو گیا؟ حکمران ٹولے کے اندر بھی اختلافات پیدا ہو گئے اور ایک دوسرے کو سازشی قرار دیا جانے لگا۔ حکومتی عناصر میں بدگمانیوں کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ مولانا نے ایک موقع پر جب یہ دیکھا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن)سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں کے رہنما کنٹینر پر موجود ہیں تو سیدھی دھمکی دے دی کہ حکومت کے پاس صرف دو روز کی مہلت ہے، ادارے پیچھے ہٹ جائیں۔ اسی پر ادارے کی جانب سے بھرپور جواب دیاگیا۔دوسرے مرحلے میں ایک دوسرے کے خلاف بیانات کا تبادلہ ہوا، تیسرے مرحلے میں مولانا کو ریاستی طور پر سرٹیفائیڈ محب وطن قرار دے دیا گیا۔ یوں بحث کا ایک حصہ ختم ہو گیا۔


لاکھوں کے مجمع کے ذریعے حکومت گرانے کے پلان پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) والے کھسک گئے۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ احتجاج کا آغاز تمام آپشن مدنظر رکھ کر ہی کیا گیا تھا۔ اب طویل دھرنے کا پروگرام تھا جو کسی بھی وقت آگے بڑھ سکتا تھا ،حالات بھانپ کر بعض حلقوں کی جانب سے اس موقع پر کچھ رابطے اور یقین دہانیاں کرائی گئیں، جس کے بعد دھرنا ختم ہو گیا اور سڑکوں کی بندش کا ہلکا ہلکا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ ظاہری طور پر مولانا سے مذاکرات کے لئے چودھری برادران سامنے آئے، لیکن دل نہیں مانتا کہ صرف ان کی کسی یقین دہانی پر ایسا ہوا ہو۔ یقینا جو معاملات بھی طے پائے، براہ راست ہی طے پائے۔ چودھری برادران نے اس موقع کا خوب فائدہ اٹھایا۔ پرویز الٰہی نے حکومت کی حماقتیں گنواتے ہوئے یہ بھی بتا دیا کہ جنرل پاشا نے پی ٹی آئی کیسے بنائی۔

چودھری شجاعت نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگلے تین سے چھ ماہ کے دوران کوئی وزیراعظم بننے کے لئے بھی تیار نہیں ہو گا۔ چودھری برادران اس وقت جو اپنے اتحادیوں کے ساتھ چمٹے رہنے کی بات کررہے ہیں۔ یہ محض ”مٹی پاﺅ“ پروگرام ہے۔ وہ اپنے دل کی بات کہہ چکے۔ موقع دیکھ کر ایم کیو ایم اور جی ڈی اے والے بھی بول پڑے۔ بلوچستان کی باپ پارٹی کے چیئرمین صادق سنجرانی نے بھی حصہ ڈال دیا۔ مولانا کے مارچ سے سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہوا کہ ملک سے سیاست ختم کرنے کا منصوبہ پٹ گیا۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ(ن) ہی نہیں اے این پی، محمود اچکزئی ،حاصل بزنجو، آفتاب شیرپاﺅ، اویس نورانی، ساجد میر، جمشید دستی تک نے اپنی سیاست پھر سے زندہ کر لی۔ اسلام آباد میں تمام اپوزیشن قیادت کے ایک ہی کنٹینر پر موجود ہونے سے پوری دنیا کو ایک پیغام مل گیا۔ سندھ حکومت کے خاتمے کی خواہش دبی رہ گئی۔ اپوزیشن کے علیل رہنما علاج کے لئے ہسپتالوں میں آگئے۔

نواز شریف کو عدالت کے ذریعے باہر جانے کی اجازت مل گئی۔ مولانا فضل الرحمن ملکی سیاست کے اہم ترین ستون کی حیثیت سے ابھرے۔ ملک بھر کے سیاسی کارکنوں ،حتی کہ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی تنظیموں کی بھی بھرپور اور اعلانیہ حمایت حاصل کر لی۔ حکومت کی اتحادی جماعتوں میں ہی نہیں، سرپرستوں کے بارے میں بھی غلط فہمیاں پیدا ہو گئیں۔ کرتارپور راہداری اور اس سے قبل آئی ایم ایف کے نام پر ملکی اکانومی کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کا کچا چٹھا مزید کھل گیا۔ کشمیر کے بارے میں اپوزیشن جماعتوں کا مشترکہ موقف سامنے آیا کہ اس حکومت نے اس کا سودا کیا ہے۔ اس اجتماع کے باعث عدلیہ پر دباﺅ میں بھی کمی آئی۔ اسی مارچ کے باعث میڈیا کو ریلیف ملا، ورنہ خوفزدہ حکومت تو تمام اپوزیشن رہنماﺅں کی کوریج پر پابندی لگانا چاہتی تھی۔ مولانا نے لاکھوں لوگ اسلام آباد لا کر یہ خواب بھی چکنا چور کر دیا۔ ڈری ہوئی حکومت اس اعلان کے باوجود کنٹینروں کے حصار میں رہی کہ کارکن ڈی چوک نہیں آئیں گے۔


دھرنے کے شرکاءنے جی بھر کر اپنے دل کی باتیں کیں۔ مولانا فضل الرحمن نے دھاندلی کو عالمی ایشو بنایا، ساتھ ہی یہ مثبت تاثر بھی قائم کیا کہ لاکھوں مذہبی کارکنوں کے ہجوم نے پورے پاکستان میں مارچ کے دوران کہیں ایک پتہ تک نہیں توڑا۔ انہوں نے جبری طور پر گمشدہ افراد کا معاملہ بھی اٹھا دیا۔ آئی ایم ایف کے رگڑے میں آئے تاجروں کو ریلیف دلوانے کا سبب بنے۔ عالمی اسٹیبلشمنٹ کو باور کروا دیا گیا کہ ہر معاملے میں اس کی مرضی نہیں چلے گی۔ یہ بازگشت بھی جاری ہے کہ اگلے انتخابات میں اداروں کا کوئی کردار نہیں ہو گا۔ جے یو آئی ایک ایسی جماعت بن کر ابھری، جس کے رہنما میدان عمل سے ٹی وی ،ٹاک شوز تک میں کسی کو بھی ناک آﺅٹ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔کنٹینر سے سیاسی انتقام کے لئے نیب اور دیگر اداروں کے استعمال کی بات بھی کی گئی۔ یہ بھی واضح کر دیا گیا کہ ملک میں موجود حکومت عوام کی نمائندہ نہیں۔ شاید ہی کوئی ایسا معاملہ ہو جس پر دھرنے میں موجود رہنما اپنی رائے سامنے نہ لائے ہوں۔ اب ایک عام تاثر ہے کہ اگلے سال کچھ ہونے والا ہے۔ یہ بات صرف مولانا فضل الرحمن ہی نہیں ،بلاول زرداری، خواجہ آصف اور دیگر اپوزیشن رہنما بھی کررہے ہیں۔ کیا ہوتا ہے، کیا نہیں ،وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

حقیقت یہ ہے کہ بیانات اور وعدوں کی اس وقت تک کوئی اہمیت نہیں ہوتی جب تک ان پر عمل نہ ہو جائے۔مولانا کو ”انڈر سٹینڈنگ“ کے تحت اٹھایا گیا ہے تو یقین دہانی پر عمل بھی کرنا ہو گا۔ دوسری صورت میں بہت جلد ایک اور دھرنا ہو سکتا ہے جو فیصلہ کن بھی ہو سکتا ہے۔ اپوزیشن ذرائع تو دعویٰ کررہے ہیں کہ تبدیلی طے ہے۔ دیکھنا ہے کہ عمومی جمہوری انداز اختیار کیا جاتاہے یا پھر دھرنے کا انتظار کیا جاتا ہے۔ا پوزیشن بھی کہتی ہے کہ کیلیفورنیا کیس یا فارن فنڈنگ کیس میرٹ پر نمٹا دیا جائے تو سارا معاملہ حل ہو سکتا ہے۔ بے شک عمران خان کے دھرنے اور مولانا فضل الرحمن کے دھرنے میں بہت بڑا فرق ہے۔ پہلا دھرنا اداروں کا سپانسر اور سکرپٹ کے تحت،جبکہ دوسرا ایسا کہ ہر ایک دوسرے سے پوچھتا پھررہا ہے کہ پیچھے کون ہے؟ ایک بات طے ہے کہ دھرنے سے تبدیلی آئی تو دیر پا ہو گی اور نظام کی تبدیلی کا بھی سبب بن سکتی ہے۔وقفہ بہر طور اگلے دھرنے تک ہی ہے۔

مزید :

رائے -کالم -