وفاقی دارالحکومت، دھرنے کا ارتعاش موجود، حکومت نے عدالتوں پر تکیہ کیا
اسلام آباد سے سہیل چودھری
دارالحکومت میں ابھی دھرنے کا ارتعاش باقی تھا کہ سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف بھی حکومت سے بالا بالا ہی علاج کی غرض سے بیرون ملک روانہ ہو گئے۔دلچسپ امر یہ ہے کہ جس طرح دھرنے کی دارالحکومت میں آمد اور پھر اچانک رخصتی کے معاملات کو حتمی شکل دینے میں بظاہر وزیراعظم عمران خان کی حکومت کا کوئی بھی دخل نظر نہیں آتا اور دھرنے کے قائد جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے مذاکرات کی غرض سے قائم حکومتی کمیٹی کی نسبت چودھری برادران سے زیادہ سنجیدہ بات چیت کے نتیجہ میں فیصلہ کیا اس طرح سابق اسیر وزیراعظم محمد نوازشریف جیل رہائی لے کر پہلے ہسپتال اور پھر وہاں سے جاتی امراء اور بیرون ملک روانگی تک کے سارے عمل میں حکومت بہت حد تک ایک بے بس تماشائی کی مانند نظر آتی ہے۔ اگرچہ حکومت کی کورٹ میں نوازشریف کی بیرون ملک روانگی کے حوالے سے گیند تو آئی تھی لیکن حکومت نے اس گیند سے نہ کھیلنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اسے دوبارہ عدلیہ کی کورٹ میں پھینک دیا۔ وزیراعظم عمران خان انسانی ہمدردی کی بنیاد پر نوازشریف کو ملک سے باہر علاج کی غرض سے بھجوانے کا کریڈٹ لے سکتے تھے اور اس بات کا امکان پیدا ہو سکتا تھا کہ ملک میں حکومت اور اپوزیشن کے مابین افہام و تفہیم کی کوئی سبیل پیدا ہو جائے لیکن بظاہر ایسا لگتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان پاکستان تحریک انصاف کے سخت گیر نظریات کے حامل حلقوں کی دلجوئی کی خاطر گریز کررہے ہیں،حالانکہ ان کے لئے یہ ایک ایسا موقع تھا کہ وہ پارٹی سیاست سے اوپر اٹھ کر اگر بطور وزیراعظم انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کرکے ملکی سیاست میں پیدا ہونے والی محاذ آرائی کی شدت کو کم کر سکتے تھے لیکن ایسا لگتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے احتساب کے جس فقرے پر سیاست قائم کی ہے، وہی اسی حکومت کے آڑے آ رہا ہے۔ وہ شریف برادران اور زرداری خاندان کے لئے کوئی نرم رویہ اختیار کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہیں لیکن یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی احتساب کی مہم بظاہر انہی دونوں سیاسی خاندانوں اور ان کی سیاسی جماعتوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے، جس کے باعث اپوزیشن حکومت کی احتسابی مہم کو نہایت کامیابی سے انتقام سے تعبیر کر رہی ہے اس سے حکومت کی احتسابی مہم کی ساکھ بُری طرح مجروح ہو رہی ہے، تاہم اب لگتا ہے کہ دھرنے کے بعد سابق وزیراعظم نوازشریف کی بیرون ملک رخصتی نے وزیراعظم عمران کو جھنجھلا دیا جس کے باعث انہیں ایک اینڈ پر پہلی دفعہ دو روز کے لئے حکومتی امور سے رخصت بھی لینا پڑی۔ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے دو روز رخصت پر جانے کے غیر معمولی ردعمل سے یہ ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ موجودہ ملکی سیاسی صورت حال پر اعصابی دباؤ کا شکار ہیں، جبکہ دارالحکومت میں اس دوران طرح طرح کی قیاس آرائیاں جنم لینے لگیں۔ دارالحکومت میں ایک سیاسی بے یقینی کی فضا تھی۔
دو روز کی رخصت کے بعد انہوں نے ہزارہ موٹروے کی افتتاحی تقریب میں ایک غصیلی تقریر کے ذریعے اپنے دل کی خوب بھڑاس نکالی انہوں نے اپنی اس تقریر میں اپوزیشن رہنماؤں کے بھی خوب لتے لئے۔ وزیراعظم عمران خان اپنی تقریر میں خاص طور پر جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن، اپوزیشن رہنما شہبازشریف اور پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو زرداری پر خوب برسے، حتیٰ کہ انہوں نے بلاول بھٹو کی نقلیں بھی اتاریں۔ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے جس انداز میں اپوزیشن کو لتاڑا گیا،لگتا تھا کہ وہ انتخابی مہم میں تقریر کر رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کی تقریر میں لب و لہجہ، انداز بیان اور تقریر کے متن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دارالحکومت میں آئندہ آنے والے دنوں میں سیاسی فضا مزید مکدر ہو گی۔ سیاست میں محاذ آرائی اور گرما گرمی خوب بڑھتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اگر وزیراعظم عمران خان نے یہی رویہ روا رکھا تو ملک میں سیاسی عدم استحکام اور بے یقینی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ وزیراعظم نے اپنی اس تقریر میں مافیاز کو مخاطب کرتے ہوئے ”سب“ پر خاص طو رپر زور دیا اب ان کی ”سب مافیاز“ سے کیا مراد ہے وہی اس کی تشریح کر سکتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کی دو روزہ رخصت اور پھر ان کی غصیلی تقریر سے سوشل میڈیا پر طرح طرح کی قیاس آرائیاں ہو رہی تھیں کہ اس صورت حال کے خاتمہ کے لئے ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کو بھی بیان دینا پڑا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل آصف غفور نے واضح کیا کہ ”حکومت اور فوج ایک پیج پر ہیں۔ حکومت سے ریاستی امور پر کوئی دو رائے نہیں“۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کے دوٹوک بیان سے افواہ سازی کے کارخانے وقتی طور پر توبند ہو گئے ہیں اب دیکھنا ہے کہ حکومت سیاسی معاملات میں کس حد تک معاملہ فہمی اختیار کرتی ہے کہ کسی کو افواہ سازی کا موقع نہ ملے۔
شریف خاندان کو ریلیف تو ملا ہے لیکن یہ ریلیف سابق وزیراعظم نوازشریف کی کسی ڈیل کا نتیجہ نظر نہیں آتا۔ نوازشریف کو یہ ریلیف ان کی علالت کے باعث ملا لیکن اس سارے ریلیف کے عمل میں اپوزیشن رہنما شہبازشڑیف کی معاملہ فہمی کو کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ انہوں نے بیچ منجدھار کشتی کو نکالنے میں اہم کردار ادا کیا۔ تاہم وزیراعظم عمران خان کو چاہیے کہ وہ دل بڑا کرتے ہوئے سابق صدر آصف علی زرداری کی علالت کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں بھی ریلیف دیں جبکہ قرائن بتا رہے ہیں کہ آصف علی زرداری کو بھی نوازشریف کی طرف پر ریلیف مل سکتا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ اس پر وزیراعظم عمران خان کیا رویہ اپناتے ہیں۔ نامور قانون دان اور سابق وزیر بابر اعوان اس وقت وزیراعظم کے اہم سیاسی و قانونی امور پر مشیر خاص ہیں ان کی کابینہ میں آمد کی باتیں بھی کافی دیر سے چل رہی ہیں،وزیراعظم عمران خان کابینہ میں رد و بدل کر رہے ہیں جس میں ابتدائی طور پر اسد عمر بھی کابینہ کا حصہ بن رہے ہیں جبکہ خسرو بختیار کو پٹرولیم کا قلم دان دیا جا رہا ہے اسد عمر پلاننگ کی وزارت سنبھالیں گے۔ وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید کی وزارت کی تبدیلی کی بات بھی چل رہی ہے لیکن ان کی علالت کے باعث اسے موخر کیا گیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے لئے کابینہ میں تبدیلی ناگزیر ہو رہی تھی کیونکہ کپتان کو گورننس کے مطلوبہ اہداف نہیں مل رہے، حتیٰ کہ دوست ملک چین کی جانب سے بھی تین وزراء کی جانب سے تعاون پر تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔ حکومت کی اہم اتحادی جماعتیں ایم کیو ایم اور ق لیگ بھی حکومت سے خوش ہیں تو بعض سیاسی امور پر حکومت کے ساتھ ایک صفحہ پر نہیں۔ چودھری برادران نے دھرنے کے موقع پر کھل کر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ چودھری شجاعت نے حکومت پر اس قدر تنقید کی کہ ایسا محسوس ہونے لگا شاید ق لیگ کسی نئی ممکنہ سیاسی ترکیب کا حصہ بننے جا رہی ہے جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے اعلیٰ حکومتی حلقے ق لیگ کی سیاسی وفاداری پر شکوک و شبہات کا اظہار کررہے ہیں۔ مہنگائی کا جن بدستور بوتل سے باہر ہے۔ مہنگائی کے جن کو قابو کرنا حکومت کے بس سے باہر نظر آ رہا ہے۔ حکومت آئی ایم ایف سے داد و تحسین تو ضرور وصول کر رہی ہے لیکن دوسری جانب اسے مہنگائی پر عوامی عتاب کا سامنا ہے۔ گورنر سٹیٹ بینک سرمایہ کاری کی خوشخبریاں ضرور سنا رہے ہیں لیکن زمینی حقائق ان کے دعوؤں سے مطابقت رکھتے نظر نہیں آ رہے۔ چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کے مطابق آئی ایم ایف نے ٹیکس وصولی میں کمی کا پاکستانی مطالبہ تسلیم نہیں کیا۔ اب دیکھنا ہے کہ حکومت کب تک مہنگائی سے پریشان عوام کے غصہ کو قابو میں رکھ پاتی ہے۔ اس صورت حال میں دارالحکومت میں آنے والے سیاسی نشیب و فراز مزید سخت ہو سکتے ہیں۔پاکستانی سیاست کے لئے آنے والے دن مزید کٹھن نظر آتے ہیں۔