حضرت تاج العارفین کا 295واں یوم وصال
صاحبزادہ مجیب الرحمن شامی
حضرت شیخ عبدالنبی شامیؒ کو اہلِ نظر اور اہلِ دل قطب الاقطاب بھی سمجھتے ہیں اور تاج العارفینؒ بھی۔ شیخ المشائخ بھی اور سلطان الاولیاءبھی ۔آج بھی مشرقی پنجاب کے معروف قصبے شام چوراسی کی رونقیں انہی کے دم سے ہیں۔ انہیں اس دنیا سے رخصت ہوئے تین صدیاں گزر چکیں۔ لیکن آج بھی ان کی روشنی سے دیدہ و دل منور ہو جاتے ہیں۔ ان کی اولاد برصغیر پاک و ہند میں پھیلی ہوئی ہے اور آپؒ کی نسبت سے شامی کہلاتی ہے۔
حضرت شیخؒ نے ایک ہندو گھرانے میں آنکھ کھولی۔ والد کا نام لالہ دیوان بوہڑہ مل بہل کھتری تھا۔ شامی خاندان کے بڑے بوڑھوں نے اپنے بڑے بوڑھوں سے اور ان کے بڑے بوڑھوں نے اپنے بڑے بوڑھوں سے سنا ہے کہ لالہ بوہڑہ مل کے ہاں جس روز یہ برکت نازل ہوئی، رمضان المبارک کی 29تاریخ تھی اور 1028ھ کا سن۔ اس دن آپؒ نے دودھ نہ پیا۔ بتایا جاتا ہے کہ آپؒ مادر زاد ولی تھے۔ اس لئے روزہ رکھا ہوا تھا۔ کوئی یہ مانے یا نہ مانے کہ اس کی کوئی باقاعدہ مضبوط مسند نہیں ہے، اس کو تو بس سنتے چلے آئے ہیں، لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ غیر مسلم گھرانے میں آنکھ کھولنے والے اس بچے کو پروردگار نے اسلام کی دولت سے مالا مال کرنے کا فیصلہ کر رکھا تھا۔ نہ صرف اس کا سینہ اس نور سے منور ہونا تھا،بلکہ آس پاس بھی کفرکی ظلمتیں اس کی بدولت پاش پاش ہونا تھیں۔ حضرت کی تبلیغی مساعی اور مبارک زندگی نے بے شمار زندگیوں کو بدل ڈالا۔ بے شمار بستیوں کو اللہ کے پاک نام سے متعارف کرایا اور بے شمار دلوں کو دولتِ دنیا سے بے نیاز کر دیا۔
دیوان لالہ بوہڑہ مل محکمہ مال میں کاردار تھے اور شام چوراسی سے مالیہ وصول کرکے خزانہ سرہند میں جمع کرانے لے جایا کرتے تھے۔ اولادِ نرینہ نہ تھی، اس لئے اداس اور مغموم رہتے تھے۔ ایک بار سرہند پہنچے تو ایک فقیرِ باکمال کی شہرت سنی۔ لالہ جی ان کے چرن چھونے جا پہنچے کہ فقیروں اور درویشوں کو ہندو تک اپنا سمجھتے اور ان سے فیض اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لالہ جی پہنچے تو بزرگ نے بڑی عزت سے بٹھایا اور بشارت دی کہ تمہارے ہاں ایک سال کے بعد ایک لڑکا پیدا ہو گا۔ ایک سال بعد حضرت اس دنیا میں تشریف لے آئے۔ لالہ بوہڑہ مل جس بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے، وہ حضرت مجدد الف ثانیؒ تھے۔حضرتؒ کا نام بھوپت رائے رکھا گیا۔ کچھ ہوش سنبھالا تو والد نے پڑھنے کے لئے مکتب میں ڈالا آپ کے استاد ایک مسلمان صالح اور متقی بزرگ تھے۔ ان سے گلستاں، بوستاں، پڑھنے لگے۔ آج آپ دیکھتے ہیںکہ مسلمان بھی اپنے بچوں کو مشنری سکولوں میں تعلیم دلاتے ہیں اور اس پر پھولے نہیں سماتے۔ کچھ عرصہ پہلے تک یہ عالم تھا کہ ان سکولوں میں بائیبل کی باقاعدہ تعلیم دی جاتی تھی اور مسلمان طلبہ بھی بائبل پڑھتے، اس کی تلاوت کرتے اور اسے یاد کرتے تھے۔ یہ اثرات انگریزی حکومت کے تھے۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب مسلمانوں کی حکومت اس برصغیر پر ہو گی تو اس وقت اس کے اثرات کیا ہوں گے؟ اس وقت غیر مسلم بھی جدید تعلیم حاصل کرنے کے لئے مسلمانوں کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرتے تھے اور مسلمانوں کی کتابیں پڑھ کر پھولے نہیں سماتے تھے۔ جدید تعلیم حاصل کرنا معزز اور باوقار ہونے کی علامت تھا۔ اس لئے بھوپت رائے ایک مسلمان مولوی صاحب کے سپرد کئے گئے۔ جس طرح آج کل انگریزی کی اہمیت ہے اس وقت فارسی کی تھی۔ ایک روز سبق پڑھتے پڑھتے ان اشعار پر پہنچے
خلافِ پیمبر کسے رہ گزید
کہ ہرگز بمنزل نخواہد رسید
محال است سعدی کہ راہِ صفا
تواں رفت جُز درپے ءمصطفی
(جو رسول اکرمﷺ کے راستے کے خلاف چلا، وہ ہرگز منزل کو نہ پہنچ سکا۔ اے سعدی، مصطفیﷺ کے علاوہ کسی اور کی پیروی میں سلامتی کا راستہ ملنا محال ہے۔)
بھوپت رائے کا دل یہاں اٹک گیا۔ وہ بار بار استاد سے پوچھتے کہ ”راہِ صفا“ کیا ہے، راہِ مصطفی کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اصرار شروع ہوا کہ اس راستے کی تعلیم دی جائے۔ مولوی صاحب سخت الجھن میں پڑ گئے۔ وہ مضطرب تھے کہ لالہ بوہڑہ مل اور ان کے اعزہ کا ردعمل کیا ہو گا۔ ادھر بھوپت رائے کے دل میں عشقِ مصطفی کا چراغ جل چکا تھا۔ چھوٹی عمر ہی میں بھوپت کی شادی موضع سری گوبند پور کے ایک بڑے کھتری گھرانے کے فرد، لالہ راماتن مل کے ہاں ہو چکی تھی، لیکن ان کا دل بے قرار تھا۔ اس کو کسی اورکی محبت کی لو لگ چکی تھی۔ مصر تھے کہ استاد صاحب باقاعدہ کلمہ پڑھا کر مسلمان کر لیں تاکہ بتوں کی بندگی سے نجات حاصل کرنے کا اعلان کر دیا جائے۔ استاد گومگو میں تھے، سود و زیاں کا حساب کرنے میں لگے تھے۔ ادھر یہ حالت تھی، اُدھر بھوپت رائے کے دل کی دنیا بدل چکی تھی۔ وہ جان چکے تھے
برتر از اندیشہ ءسود و زیاں ہے زندگی
اسی عالم میں رسول اکرم ﷺ کی زیارت نصیب ہوئی، جناب رسالت مآب ﷺ نے کلمہ پڑھایا اور بھوپت رائے کو عبدالنبیؓ بنا لیا۔ع محمد کی غلامی ہے سند آزاد ہونے کی
ان کے استاد کو بھی (خواب میں) حکم دیا گیا کہ اپنے شاگرد کی خواہش کا احترام کریں اور اس کے نام کی تعلیم دیں جس نے کل جہانوں کو تخلیق کیا ہے۔
عیدا لنبیؓ نے با آواز بلند بتوں سے ناتہ توڑنے کا اعلان کیا، تو ہر طرف آگ سی لگ گئی۔ والدین سراپا غضب، سسرال والے بے چین و مضطرب ، اعزہ و اقرباءبرادری والے، سب ہاتھ ملنے لگے، پہلے تو سمجھانے کی کوششیں ہوئیں اور قبول اسلام کو ”بچگانہ غلطی“ قرار دے کر اصلاح کے لئے جان لڑائی گئی۔ سسر نے ایک نصیحت آموز خط لکھا، لیکن یہ تدبیریں کسی کام نہ آئیں۔ عید النبی نے پھر بھوپت رائے بننے سے انکار کر دیا۔ اپنے سسر کے نام پیغام بھجوایا۔
تھالی بھن رکابی نے چونکا بھن مسیت
آکھیں سوہرے رامے نوں ساڈی اللہ نال پریت
شام چوراسی ہندو اکثریت کا علاقہ تھا۔ یہاں عبد النبی ؒ پر زندگی اجیرن کر دی گئی پس ہجرت کا پروگرام بنایا کہ ع۔ ہے ترکِ وطن سنتِ محبوب الٰہی،ایک دن اپنے اُستاد کے ساتھ یہاں سے نکل کھڑے ہوئے۔ کپور تھلہ ریاست میں واقع سلطان پور میں حضرت حاجی عبداللہ صاحبؒ کی خدمت میں جا حاضری دی۔ کہتے ہیں، جب آپ سلطان پور کے قریب پہنچے تو اس وقت حاجی عبداللہ صاحبؒ کہیں باہر جانے کے ارادے سے پالکی میں سوار تھے۔ حاجی صاحبؒ نے پالکی ٹھہرانے کا حکم دیا اور کہا کہ رُک جاﺅ! مرد خدا آ رہا ہے۔ خدام حیران ہوئے، لیکن کچھ نہ بولے۔ تھوڑی دیر بعد نوجوان عیدالنبیؒ وہاں پہنچ گئے۔ حاجی صاحبؒ انہیں ساتھ لے کر واپس ہوئے۔ وہ بیعت کر کے سلسلہ نقشبندیہ سے منسلک ہو گئے۔ حاجی عبداللہ حضرت آدم بنوریؒ (خلیفہ امام ربانی مجدد الف ثانیؒ) سے بیعت تھے اوراُن کے نامور خلفاءمیں شمار ہوتے تھے۔ حضرت آدم بنوریؒ کے خلیفہ اعظم حضرت محمد شریف متقیؒ سے تربیت پائی اور حضرت آدم بنوریؒ سے بھی فیض اٹھایا۔ حضرت محمد شریف سقیؒ نے انہیں باقاعدہ خرقہ خلافت عطا فرمایا۔
حضرت شیخ العالم سید حاجی محمد طاہر علمپوریؒ، حاجی عبداللہ سلطان پوریؒ کے خلیفہ کامل تھے۔ حاجی صاحب ؒ نے نوجوان عبدالنبیؒ کو مزید تعلیم اور تربیت کے لئے شیخ عالمؒ کے سپرد فرمایا۔ اس نوجوان نے اس یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہو کر تاج العارفینؒ کا لقب پایا۔آج ہمارے ہاں جزوقتی تعلیم کا جو نظام رائج ہے، وہ پڑھے لکھے جاہل پیدا کر کے معاشرے میں پھینکتا جا رہا ہے۔ آج کا علم، عمل سے پیوست نہیں ہے۔ کسی مدرسے، کالج اور یونیورسٹی کو طالبعلموں کی تربیت سے کوئی سروکار نہیں۔ جو ادارے اقامتی ہیں، وہ بھی کسی درسگاہ کی بجائے ہوٹل سے زیادہ مماثلت رکھتے ہیں۔ لیکن شیخ عبدالنبیؒ کی تربیت جس یونیورسٹی میں ہوئی، اس کے چانسلر حاجی عبداللہ سلطان پوریؒ تھے۔ اس میں تعلیم کے ساتھ ساتھ بلکہ اس سے زیادہ تربیت پر زور دیا جاتا تھا۔ ہندوستان میں صوفیائے کرام اور علمائے کرام اسی طرز تعلیم کے بانی تھے۔ اُن کی خانقاہ میں شریعت کا علم بھی تقسیم ہوتا تھا اور طریقت کی معرفت بھی عطا ہوتی تھی۔کئی سال گزر گئے۔ اب عبد النبیؒ ایسا چراغ تھے، جس کو انگنت چراغ روشن کرنا تھے۔ علم اور عمل کا بیش بہا سرمایہ لے کر انہوں نے واپس شام چوراسی کا رخ کیا تاکہ وہاں کے بے نواﺅں اور تہی دامنوں کو بھی اپنی کمائی میں حصہ دار بنائیں۔ شیوئہ پیغمبری یہ ہے کہ حقیقت کو اپنے تک محدود نہ رکھا جائے، عام کیا جائے، ہر ہر دل کو اس سے متعارف کرایا جائے۔ عبد النبیؒ نبی کے غلام تھے، اس سنت کو کیسے نہ اختیار کرتے۔ ان کی تربیت کرنے والے بھی داعی تھے اور انہوں نے اپنے طالبعلموں کو داعیانہ لگن لگا دی تھی۔
عالم شباب میں جس بستی، جس علاقے اور جس سر زمین نے عبد النبیؒ کے لئے خود کو تنگ کر دیا تھا، ان کو اپنے درمیان دیکھنا گوارا نہ کیا تھا، اب جبکہ وہ تاج العارفینؒ تھے، معرفت کامے خانہ کھولنے اسی جگہ جم گئے۔ اپنوں کو مستفید کرنا، اپنوں کو تباہی سے بچانا، اپنوں کو آگ سے محفوظ کرنا ضروری تھا۔ وہ اپنوں کے درمیان پہنچے۔ جو غیر بن چکے تھے۔ اپنے علم کی طاقت اور کردار کی برکت سے نہ صرف ان کو اپنا بنایا بلکہ غیر بھی ان کے ہو گئے۔ دور دور سے لوگ ان کی شہرت سن کر آتے اور انہی کے ہو جاتے۔ہندو جوگی، شعبدے اور کرامات دکھاتے تھے اور سادہ لوح لوگوں پر ہندو مت کی صداقت کا سکہ بٹھاتے تھے۔ تاج العارفین کی دھوم سن کر بہت سے جوگی آئے، لیکن ان کے شعبدے تاج العارفینؒ کی کرامات کے سامنے نہ ٹھہر سکے۔
تاج العارفینؒ کی سب سے بڑی کرامت ان کی شخصیت تھی۔ جو ان کے پاس آتا، ان کا ہو جاتا۔ ہزاروں افراد ان کے حلقے میں شامل ہﺅے۔ سینکڑوں کو باقاعدہ تربیت دی۔ ان کی خانقاہ نے اس علاقے کی قسمت کو بدل ڈالا۔ انہوں نے طویل عمر پائی۔ اگست 1619ءمیں اس دنیا میں تشریف لائے تھے۔114سال گزار کر اگست 1733ءمیں رخصت ہو ئے ۔ ہجری حساب سے اس سرائے فانی میں آپؒ کا قیام 117سال 5ماہ اور 23دن رہا۔
آپؒ کے مکتوبات کا قلمی نسخہ خاندان کے بعض افراد کے پاس محفوظ چلا آ رہا تھا۔ وہ کچھ عرصے پہلے شائع ہو چکا ہے ان مکتوبات سے آپؒ کی علمی عظمت اور کمال نظر کا اندازہ ہوتا ہے۔
آج بھی شام چوراسی(مشرقی پنجاب) میں آپؒ کا مرقد مرجع خلائق ہے۔ لوگ دور دور سے آتے اور نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہیں۔ وصیت کے مطابق تدفین کے بعد قبر کچی بنائی گئی۔ اس پر کوئی مقبرہ نہ بنوایا گیا۔ برسوں یہی عالم رہا، مگر اب عالم دوسرا ہے۔ بزرگوں کے نام کی قوالی کرنے والے ان کی تعلیمات کو بھول گئے ہیں۔