ممبئی حملوں کے بعد پاکستان کیخلاف کارروائی کے مطالبات پر تحمل سے کا م لیا: اوبامہ

      ممبئی حملوں کے بعد پاکستان کیخلاف کارروائی کے مطالبات پر تحمل سے کا م ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 واشنگٹن (این این آئی)امریکہ کے سابق صدر براک اوباما کی یادداشتوں پر مشتمل کتاب دی پرومسڈ لینڈکے بعض اقتباسات دہلی کے سیاسی و صحافتی حلقوں میں موضوعِ بحث ہیں۔براک اوباما کی شائع ہونے والی کتاب میں بھارت کی سیاست اور بھارتی سیاست دانوں بالخصوص سابق وزیرِ اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ، کانگریس صدر سونیا گاندھی اور سابق کانگریس صدر راہول گاندھی کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا گیا ہے وہ ان دنوں میڈیا میں خبروں کی زینت ہیں۔میڈیارپورٹس کے مطابق قابل ذکر یہ کہ انہوں نے اپنی کتاب میں راہول گاندھی کے بارے میں تو لکھا ہے لیکن موجودہ وزیرِ اعظم نریندر مودی کے بارے میں ایک لفظ بھی موجود نہیں۔اس کتاب میں انہوں نے 2008 میں ممبئی پر ہونے والے حملوں کا ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ممبئی حملے کے بعد پاکستان کے خلاف کارروائی کے مطالبات پر انھوں نے بڑے تحمل سے کام لیا تھا۔ لیکن اس کی انہیں سیاسی قیمت چکانی پڑی۔اپنی کتاب میں اوباما لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر منموہن سنگھ نے ان سے کہا تھا کہ جناب صدر!غیر یقینی کے اس ماحول میں مذہبی اور ذات برادری کے اتحاد کی اپیل عوام کو بہکا سکتی ہے۔ ایسے میں سیاست دانوں کے لیے اس صورتِ حال کا استحصال زیادہ مشکل نہیں ہوتا۔ خواہ وہ بھارت میں ہو یا کہیں اور ہو۔ اس سے براک اوباما نے اتفاق کیا تھا۔اوباما کے مطابق من موہن سنگھ کو اندیشہ تھا کہ اگر وہ پاکستان کے خلاف کارروائی کریں گے تو اس سے مسلمانوں کے خلاف ایک ماحول پیدا ہوگا اور (ہندوتوا کی سیاست کرنے والی)بھارتیہ جنتا پارٹی کو اس کا فائدہ پہنچے گا۔اوباما نے لکھا کہ من موہن سنگھ جوہری ہتھیاروں سے لیس ہمسایہ ملک پاکستان کے ساتھ جاری مسلسل کشیدگی سے متعلق بھی بہت فکر مند تھے۔سابق امریکی صدر کے مطابق اس وقت پاکستان کے ساتھ بھی مسائل تھے۔ سال 2008 میں ممبئی کے دو ہوٹلوں اور دوسرے مقامات پر ہونے والے حملوں کی بھارت کے ساتھ مل کر تحقیقات کرنے میں وہ مسلسل ناکام ثابت ہو رہا تھا۔ اس سے دونوں ملکوں میں قابلِ ذکر انداز میں کشیدگی بڑھ رہی تھی۔ کیوں کہ ایسا سمجھا جاتا تھا کہ حملے کے لیے ذمہ دار دہشت گرد تنظیم لشکر طیبہ کے پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی سے تعلقات ہیں۔اوباما نے من موہن سنگھ کی تعریف کرتے ہوئے لکھا کہ وہ ایک شریف ٹیکنوکریٹ ہیں جنھوں نے نہ صرف عوام کے جذبات کو عملی شکل دیتے ہوئے ان کا اعتماد حاصل کیا بلکہ ان کے معیارِ زندگی کو بلند کیا اور اس دوران بد عنوان نہ ہونے کے اپنے امیج کو بھی برقرار رکھا۔اوباما کے مطابق خارجہ پالیسی کے سلسلے میں من موہن سنگھ بہت محتاط تھے۔ تاریخی طور پر امریکی ارادوں کو شبہے کی نظر سے دیکھنے والی بھارتی نوکر شاہی کی سوچ سے وہ بہت آگے نہیں جانا چاہتے تھے۔ ہم نے جو وقت ایک ساتھ گزارا اس نے ان کے بارے میں میری اس ابتدائی رائے کو مضبوط کیا کہ وہ ایک غیر معمولی طور پر قابل اور مہذب انسان ہیں۔براک اوباما نے کانگریس صدر سونیا گاندھی کو ایک 60 سال کی پرکشش خاتون قرار دیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ملاقات کے وقت وہ روایتی ساڑھی پہنے ہوئے تھیں۔ ان کی آنکھیں سیاہ تھیں اور ان کا ایک شاہانہ انداز تھا۔اوبامہ لکھتے ہیں کہ یہ یورپی نژاد خاتون پہلے ماں کی ذمہ داری نبھاتے ہوئے گھر کی چار دیواری تک محدود تھیں۔ لیکن 1991 میں سری لنکا کے خودکش حملہ آور کے ہاتھوں اپنے شوہر کی ہلاکت کے بعد وہ اپنے ذاتی غموں سے اوپر اٹھ کر خاندان کی سیاسی وراثت کو سنبھالتے ہوئے قومی سطح پر ایک اہم سیات دان کی حیثیت سے ابھریں۔
اوبامہ

مزید :

صفحہ اول -