ادبی احتساب عدالت میں پیشی
کسی بھی شخص کے لیے جو دیکھنے میں پروفیسر لگتا ہو کتابوں کی تعارفی تقریبات میں بطور مقرر دعوت عزت افزائی خیال کی جاتی ہے۔ پھر کتاب بھی خالد مسعود صدیقی کی گورنمنٹ کالج یا جی سی یو کی ہسٹری جس میں 1964 ء سے لے کر 2014 ء تک کی تازہ نصف صدی کا احاطہ کیا گیا ہو۔ جمعہ کی شام تقریبِ رونمائی میں شمولیت پر البتہ میرا خوف اِس پہلو سے تھا کہ مذکورہ کتاب کی اشاعت میں صدیقی صاحب اور الحمد پبلیکیشنز کے درمیان ’وچولے‘ کے طور پر مجھے وہ کچھ بھی سننا پڑا جو خوشی کا باعث نہیں ہوتا۔ جیسے برادرم صفدر حسین جیسے شریف النفس پبلشر کا شکوہ کہ سر، راوینز نے اُس طرح ٹُوٹ کر کتابیں نہیں خریدیں جتنی توقع تھی۔ دوسری طرف اُستاد جیسا رُتبہ کھنے والے صدیقی کی مسلسل شکایت کہ یار، تمہارا پبلشر تمہیں کِتابوں کی زیادہ کاپیاں دیتا ہے اور مجھے کم۔
میری آزمائش یہیں تک رہتی تو کام چل جاتا۔ مشکل یہ آ پڑی کہ رونمائی کا اہتمام، جو نادیدہ ملحوظات کی بنا پر اب سے کوئی تین ماہ پہلے جی سی یو میں ہوتے ہوتے رہ گیا تھا، پروفیسر شائستہ سراج الدین نام کی یک رُکنی ٹیم نے قائد اعظم لائبریری میں کیا۔ ایک تو کُتب خانے کا پُرفضا ہال، پھر پینل میں شریک ڈاکٹر عاطف خالد بٹ کا یہ خوشگوار انکشاف کہ ہال کے ایک گوشے میں قائم چھوٹے سے کاؤنٹر پر خریداری کو دیکھتے ہوئے پبلشر کا گِلہ بھی دُور ہو جانا چاہیے۔ ”مگر دل ہے کہ اس کی خانہ ویرانی نہیں جاتی۔“ یہاں کسی غلط فہمی کی گنجائش نہیں۔ تقریب کے دوران اگر میرا دل بجھا رہا تو اُس کا سبب گورنمنٹ کالج کی تاریخ نہیں، موجودہ قائدِ اعظم لائیبریری کا جغرافیہ ہے جہاں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے پہلے فوجی عدالت قائم کر دی گئی تھی۔
فروری 1977ء کی وہ سہ پہر نہیں بھولتی جب اصلی تے وڈّے گورنمنٹ کالج کا یہ نوزائیدہ لیکچرر باغِ جناح کی یومیہ سیر کانصف دائرہ مکمل کرتے ہوئے لارنس اور منٹگمری ہال پر مشتمل اِس عمارت کو دیکھ کر ٹھٹھک گیا۔ عجب منظر تھا کہ عمارت کے چار چوفیرے خاردار تار، اُن کے اوپر جلی حروف میں بورڈ: ”سویلین کا داخلہ منع ہے۔“ تار سے ہٹ کر ادھیڑ عمر کے کچھ عام شہری قطار باندھے کھڑے تھے۔ پوچھا تو ایک نے بہت اداس مگر باوقار لہجے میں جواب دیا ”ہمارے لڑکوں کو پکڑ کر لے گئے ہیں۔“ لٹریچر کا یہ اُستاد، جو جیالا تھا نہ بھٹو مرحوم کی سیاست سے مکمل متفق آخر کیا کرتا؟ بس درختوں کے ایک ہجوم کے نیچے، جن میں سے اکثر پہ ’پائینس لونگی فولیا‘ لکھا ہوا ہے، بے بسی کے عالم میں ایک نظم خود بخود کاغذ پہ اُتر گئی:
آج بھی چشمِ تصور کو جِلا دیتے ہیں
آشنا لوگ، حسیں خواب، سہانے منظر
دستیکیں دے سرِ دیوارِ چمن موسمِ گل
ذہن میں ناچنے لگتے ہیں پرانے منظر
موسمِ سبز میں پیڑوں کی گھنی شاخوں پر
گرم سورج کا اُترنا بھی قیامت ہوتا
صورتِ سر و سمن زیرِ زمیں چہروں کا
بطنِ گیتی سے ابھرنا بھی قیامت ہوتا
موسمِ گل ہے مگر باغ کے دروازے میں
حاکمِ شہر نے دربار لگا رکھا ہے
قوت کی کاسنی مہکار کا سودا کرنے
عدل و انصاف کا بازار لگا رکھا ہے
امن کے نام پہ ہر سچ کو مقید کرکے
فکر کی ساری سبیلوں پہ بٹھاؤ پہرے
روکنے سے کبھی رُکتا ہے بہاروں کا سفر
لاکھ خوشبو کے وسیلوں پہ بٹھاؤ پہرے
رزم گاہیں بھی سجاؤ مگر اتنا سوچو
مقتلوں ہی سے نکلتے ہیں بقا کے رستے
آہنی باڑ ذرا اَور بھی اونچی کر لو
آہنی باڑ سے اونچے ہیں بقا کے رستے
روزنامہ مساوات کے بہادر صحافیوں اعجاز رضوی، راجہ اورنگ زیب، ہمراز احسن اور چودھری خادم حسین کے برعکس مجھے گورنمنٹ کالج سے وابستگی کے دنوں میں سمری کورٹ یا فوری انصاف کی عدالت میں کبھی پیش نہیں ہونا پڑا تھا۔ لیکن جمعہ کی شام قائد اعظم لائیبریری میں اسٹیج پر رونق افروزی ادب کی احتسابی عدالت میں پیشی سے کم ثابت نہ ہوئی۔ سبب یہ کہ ذریعہء تعلیم کے زِگ زیگ ذاتی تجربوں کے پیشِ نظر بی بی سی لندن میں خبروں اور حالاتِ حاضرہ کے مواد کا کامیابی سے ترجمہ تو ہر روز کرتے، مگر طبع زاد اردو تحریر وں کے لیے ابتدا میں ایک خفیہ تکنیک اپنانا پڑی تھی۔ یہ کہ فلم ریویو یا کسی زیرِ نظر کتاب پر تبصرہ پہلے انگریزی میں لکھ لیا، پھر اُسی کی اردو کرلی۔ اِس کا ایک غیر متوقع مالی فائدہ بھی ہوا کہ ورلڈ سروس کا ٹاکس اینڈ فیچرز یونٹ بھی آدھی قیمت پر انگریزی مواد خرید لیتا۔ اب کالم نویسی کی بدولت حالت یہ ہے کہ اردو میں کچھ لکھ کر خود ہی اُس کا انگریزی ترجمہ کرنا پڑتا ہے۔
پھر بھی جمعہ کو باطن کی عدالت میں مجھے اِس الزام کا سامنا کرنا پڑا کہ بی۔اے۔ چشتی مرحوم کے بقول ہمارے ’کے۔ایم‘ کی کتاب کا وہ چرچا کیوں نہیں ہوا جس کی وہ مستحق تھی۔ عدالتی اصطلاح میں میری وضاحت کا پہلا پیرا صاحبِ علم صحافی جناب خالد احمد کے حوالے سے ہے جنہوں نے کمال شفقت سے جی سی یو کی ہسٹری پر مُلک کے موقر ترین انگریزی روزنامے میں تبصرہ کرنے پہ رضامندی ظاہر کی اور سیر حاصل تبصرہ بھی کیا۔ بس یہ مضمون نیوز ویک پاکستان میں پہلے شائع ہو گیا اور اِسے پالیسی کے مطابق اخبار میں جگہ ملی۔ دوسرے مرحلے میں اخبار نے منفرد استادِ ادب شائستہ سراج الدین کو بُک ریویو کے لیے درخواست کی مگر اُن کا تبصرہ بھی ڈان کی جگہ ’فرائیڈے ٹائمز میں چھپ گیا۔ اِس پر ایڈیٹر نے اِس کالم نگار کو کہا آپ دخل نہ دیں، ہم خود کمیشن کریں گے۔ ڈاکٹر وسیم انور کی تحریر اِسی ’اصول پسندی‘کی نذر ہو گئی تھی۔ خوشی کی خبر یہ ہے کہ تقریب کے پینل میں موخرالذکر دونوں تبصرہ نگار نمایاں طور پر شریک ہوئے اور بجا طور پر داد کے مستحق ٹھہرے۔